- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مالدار لوگ زکات کی ادائیگی میں سستی و غفلت نہ دکھائیں

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے انیس اپریل دوہزار انیس کے خطبہ جمعہ میں زکات کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مالدار لوگوں کو مخاطب کرکے کہا باریک بینی اور دقت نظر سے زکات کا حساب لگاکر یہ فرض ادا کیا کریں۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے سورت آل عمران کی آیت 180: «وَ لا یَحْسَبَنَّ الَّذینَ یَبْخَلُونَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَیْراً لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَیُطَوَّقُونَ ما بَخِلُوا بِهِ یَوْمَ الْقِیامَةِ؛ جو لوگ مال میں جو خدا نے اپنے فضل سے ان کو عطا فرمایا ہے بخل کرتے ہیں وہ اس بخل کو اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں۔ (وہ اچھا نہیں) بلکہ ان کے لئے برا ہے وہ جس مال میں بخل کرتے ہیں قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا۔» سے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے کہا: ہم شعبان کے مبارک مہینے میں ہیں اور رمضان المبارک بھی آنے والا ہے۔ سارے اوقات و زمانے مواقع ہیں، لیکن کچھ اوقات و جگہوں کو خاص شرف حاصل ہے۔ مسجدالحرام، مسجدالنبی اور مسجد الاقصی ان اماکن میں شامل ہیں جبکہ رمضان ان خاص اوقات میں شمار ہوتاہے جس میں عبادات کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا: زکات اسلام کے اہم ارکان میں شامل ہے جو انسان کو بخل و کنجوسی جیسی اخلاقی برائیوں سے پاک و صاف کرتی ہے۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کو مال دیتاہے تاکہ اس کی راہ میں خرچ کریں، لیکن کنجوس لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: زکات کا شمار اسلام کے اہم اور نمایاں نکات میں ہوتاہے۔اگر اللہ چاہے امیروں کو غریبوں سے زیادہ غریب بناسکتاہے، لیکن اللہ حکیم ہے اور مالداروں کو مال دے کر انہیں آزماتاہے۔ جو اپنے مال سے زکات و صدقات نکال کر دیتاہے، اللہ کی راہ میں خرچ کرتاہے، غریبوں کی نیک دعائیں اور محبتیں اسے ملیں گی۔ زکات جیسا نظام دیگر تہذیبوں میں نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: کچھ لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر اپنے مال سے زکات نکالیں، ان کا مال کم ہوجائے گا، حالانکہ زکات سمیت ہر قسم کے صدقہ سے مال کم ہونے کے بجائے الٹا بڑھ ہی جاتاہے۔ ارشادِ الہی ہے کہ اللہ تعالی سود کو نابود کرکے مٹاتاہے اور خیرات و صدقات کو بڑھاتاہے۔ خیرات اور حلال روزی کا اثر صحت پر بھی آتاہے اور اس سے مال بھی بڑھ جاتاہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: حرام اور مشکوک مال سے بچیں جس کا انجام بدبختی ہے، حلال کھائیں جس کا انجام بھلائی ہی ہے۔
انہوں نے زکات نہ دینے کے لیے مختلف حیلوں بہانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: زکات نہ دینے کے لیے لوگ حیلے بہانے بناتے ہیں ، حالانکہ زکات کا پیسہ ٹھیک حساب لگاکر دینا چاہیے بلکہ واجب زکات سے کچھ زیادہ ہی ادا کریں۔ جو اپنے مال کی زکات نہیں دیتا، وہ بخیل ہے اور خود کو جہنم پہنچانے کی تیاری کرتاہے، ایمان بخل و کنجوسی کے ساتھ اکٹھا نہیں ہوسکتا۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: کچھ لوگ زکات نہیں دیتے ہیں اور کہتے ہیں اللہ غفور و رحیم ہے؛ یہ شیطان کی چال ہے جو لوگوں کو اسی طریقے سے گناہوں کی طرف بلاتاہے اور بڑے گناہوں کو ان کی نظر میں چھوٹی چیزیں دکھاتاہے۔ شیطان اسی چال سے کروڑوں افراد کو جہنم کی راہ پر لگاچکاہے۔
انہوں نے کہا: جو لوگ زکات ادا نہیں کرتے، وہ یہ نہ سوچیں کہ ان کا مال بچ گیا ہے۔ ایسے مال سے فائدے کے بجائے نقصان ہی ہوتاہے۔ کل روزِ قیامت یہی لوگ کہیں گے کاش ہمارے پاس کوئی مال ہی نہ ہوتا اور ہم غریبوں میں شمار ہوتے۔ ایسا مال قیامت کے دن سانپ اور اژدہا بن کر اپنے مالک کے لیے وبال جان بن جاتاہے۔سونے چاندی سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: معاشرے کے تمام طبقے جن پر زکات واجب ہوتی ہے، زکات کی ادائیگی میں حساس رہیں اور دقت نظر سے زکات کا حساب لگائیں۔ اگر لوگ زکات دینے سے گریز کریں، پھر غریبوں، ناداروں، قیدیوں کے اہل خانہ اور سیلاب سے متاثرین و طلبہ کہاں سے کھائیں؟ سب سے پہلے زکات ان ہی کو ملنی چاہیے۔ اگر سب مالدارو امیر لوگ زکات دیں، معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہوگا یا کم از کم بڑی حد تک غربت کم ہوجائے گی۔
اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے کہا جب لوگ بارشوں سے مایوس ہوچکے تھے اللہ تعالی نے ایسی بارش بھیج دی کہ اب فرار کی راہ نہیں مل رہی! الحمدللہ ضرورت سے زیادہ ہی بارش برس چکی ہے اور خشکسالی شکست کھاچکی ہے۔ لہذا حکام عوام کے ساتھ تعاون کریں اور جن کے پاس زراعت یا مال مویشی پالنے کے لیے کنواں ہے، سرکاری طورپر انہیں پرمٹ دیدیں۔ اس حوالے سے بخل کا مظاہرہ نہ کریں۔