- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

تاریخ بابل

حضرت سلیمان علیہ السلام کے مخالفوں میں سے ایک کا نام احیاہ تھا، سفر ملوک میں اسی کو نبی بتایا گیا ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی زندگی ہی میں اس نے ان کے ایک نوکر کو حضرت سلیمانؑ سے ان پر کفر و شرک کا الزام لگا کر بہکایا کہ ان کے خلاف بغاوت کردو، بریعام نے بغاوت کی، ناکام رہا اور مصر بھاگ گیا، ان کی وفات کے بعد وہ مصر سے واپس آیا اور بنی اسرائیل کے دس قبیلوں کو بریعام نے خاندانِ سلیمان سے توڑ لیا، پانچ برس بعد فرعون مصر شبشق نے یروشلم پر چڑھائی کی اور اس کو لوٹ مار کر چلا گیا، اس سے بریعام کی حکومت مستحکم ہوگئی، کچھ عرصہ بعد بریعام نے اپنے زیر اثر بنواسرائیل کو بہکا کر پھر سے دین سامری کو رواج دیا اور بنو اسرائیل کا یہ طبقہ بچھڑا پوجنے لگا۔
یہ سفر ملوک (۱۰، ۱۹، ۲۹، ۴۰ و۱۲، ۲۰، ۱۴، ۲۵) اور سفر ایام میں یہ تشریح مذکور ہے۔
عرب کے اندر آغاز اسلام میں ایسے بنی اسرائیل بھی تھے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کی بابت احیاہ کے فتویٰ پر ایمان رکھتے تھے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر اعتراض کرتے ہوئے اخیاہ کو نبی ماننے والے چند اہل کتاب نے کوئی ایسی بات کہی جس کے جواب میں خدا نے فرمایا:
وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ (سورہ بقرہ)
اور جب ان کے پاس ایک پیغمبر آئے اللہ تعالی کی طرف سے جو تصدیق بھی کررہے ہیں اس کتاب کی جو اُن کے پاس ہے، ان اہل کتاب میں سے ایک فریق نے خود اس کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا جیسے گویا اصلاً علم ہی نہیں اور انہوں نے ایسی چیز کا اتباع کیا، جس کا چرچا کیا کرتے تھے شیاطین حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت میں۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا مگر شیاطین کفر کیا کرتے تھے اور حالت یہ تھی کہ یہ آدمیوں کو بھی سحر کی تعلیم کیا کرتے تھے اور اس کا بھی جو ان دونوں فرشتوں پر نازل کیا گیا تھا بابل میں جن کا نام ہاروت و ماروت تھا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے حالات سفر ملوک اور سفر ایام کے مؤلفوں نے ناتن بنی کی کتاب اور سیلانی اخیاہ کی پیشین گوئیوں اور عبد دینی کی روایتوں کی کتاب سے نقل کئے ہیں (سفر ایام ۹۔۲۹) یہ کتابیں اب ناپید ہیں، حضرت سلیمان علیہ السلام پر اہل کتاب کے کفر کا فتویٰ دراصل سیلانی اخیاہ کی کتاب کا اعادہ تھا، یہ کتاب نزول قرآن کے زمانہ تک موجود تھی اور کلام اللہ سمجھ کر اس کی تلاوت کی جاتی تھی، اسی کتاب کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ’ما تتلو الشیاطین‘ کے لقب سے آیا ہے۔ اس آیت میں خدا نے بتایا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نہیں بلکہ اُن پر کفر کا فتویٰ لگانے والے شیاطین خود کافر تھے، ان کے کافر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو سحر کی اور ہاروت اور ماروت کے لٹریچر کی تعلیم دیتے تھے۔
ہاروت اور ماروت کی ہستیوں اور ان کے لٹریچر پر بحث کا یہ محل نہیں ہے، یہ فرشتے کہلانے والے اشخاص بابل کے باشندے تھے۔

وجہ تسمیہ
بابل کو یہ نام کیوں دیا گیا؟ اس سوال کے جواب مختلف دیئے گئے ہیں، یاقوت نے معجم البلدان میں لکھا ہے: ’’قال ابوالمنذر ھشام بن محمد و مدینۃ باب بناھا بیوراسب الجبار و اشتق اسمھا من اسم المشتری لان بابل باللسان البابلی الاول اسم المشتری‘‘
ابولمنذر ہشام بن محمد نے کہا کہ بابل کا بانی بیوراسب جبار تھا، بابل کی پرانی زبان میں مشتری کو بابل کہتے تھے، اسی کے نام سے یہ شہر موسوم ہوا۔
بانی بابل کا نام بیوراسب غالباً ایران کی کہانیوں سے ماخوذ ہے، پرانی کلدانی میں بابل مشتری کو کہتے تھے یا نہیں، اس کا ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے، یہ بات یاقوت نے تذکرہ بابل میں کہی ہے۔ فسطاط مصر کا ایک زمانہ میں کسی وجہ سے بابلیون نام تھا، بابلیون کے ذکر میں یاقوت نے لکھا ہے: ’’ذکر اھل التوراۃ ان مقام آدم علیہ السلام کان بابل فلما قتل قابیل ھابیل مقت آدم قابیل فھرب قابیل باھلہ الی الجبال عن ارض بابل فسمیت بابل یعنی الفرقۃ‘‘
اہل تورات کا بیان ہے کہ آدم علیہ السلام بابل میں رہتے تھے، جب قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو آدم علیہ السلام قابیل سے نفرت کرنے لگے اور قابیل پہاڑوں کی طرف بھاگ گیا، اس لئے اس کا نام بابل یعنی جدائی رکھا گیا۔
معلوم نہیں اہل تورات کا یہ قول یاقوت نے کہاں سے نقل کیا ہے۔ سفر تکوین میں یہ ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم کے اسلاف اس دیار میں قدم سے آئے، اُن کے یہاں آنے سے پہلے ’وھی کل ارض شفیتم احدیم دوبریم احدیھم‘۔
ساری زمین ایک ہونٹ اور ایک بولی تھی۔
یہاں پہنچنے کے بعد ان لوگوں نے ایک برج بنانا چاہا، خدا کو یہ ارادہ ناگوار گذرا، اس لئے خداوند نے ان کی بولی بات میں اختلاف ڈال کر ان کو تمام روئے زمین میں پراگندہ کیا، سو وہ اس شہر کے بنانے سے باز رہے۔ یہ واقعہ نقل کر کے سفر تکوین کے جامع نے لکھا ہے کہ ’’اس لئے اس کا نام بابل (اختلاف) پڑا کیوں کہ خداوند نے وہاں ساری زمین کی زبانوں میں اختلاف (ببل) ڈالا اور وہاں سے ان کو تمام روئے زمین پر پراگندہ کیا۔ (تکوین ۱۱:۱ تا ۹)
یاقوت نے ابوبکر احمد بن مروان المالکی الدنیوری کی کتاب المجالس کے حوالہ سے تقریباً یہی قصہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے طرف منسوب کیا ہے، جس میں انہوں نے اخیر میں فرمایا ہے کہ پھر لوگ بہتر زبانیں بولنے لگے۔
’و تبلیلت الالسن فسمیت بابل‘۔
اور زبانیں گڈمڈ ہوگئیں، اس لئے اس کا بابل نام پڑا۔
کسی عمارت کی تعمیر اختلاف السنہ کا سبب نہیں ہوسکتی، جس عمارت کی تعمیر کے عزم کا تورات میں ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ بولی بات میں اختلاف کی بدولت وہ اس عمارت اور شہر کی تعمیر سے باز رہے، بعد میں ان لوگوں میں جو یہیں رہ گئے اس بنایا، اس عمارت کا نام سمیری زبان میں تنتر کی کادنجر (دیوتا کا آستانہ) تھا، اسی کا ترجمہ یہاں کے سامی باشندوں نے باب ایل (خدا کا پھاٹک) اور باب ایلون (خداؤں کا پھاٹک) کیا، جو مختصر ہو کر بابل ہوگیا۔ یہ پہلے اسی برج کا نام تھا، جسے توراتی بیان کے مطابق تعمیر کرنے کے عزم کی بنا پر خدا نے وہاں والوں کی بولی بات میں اختلاف ڈالا، پھر بتدریج یہ نام اس شہر کا جس میں یہ عمارت تھی اور اس کے بعد اس پورے علاقہ کا نام ہوگیا، جس پر شاہان شہر بابل حکومت کرتے تھے، تورات میں جس قسم کی بولی بات کے اتحاد اور اختلاف کا ذکر ہے، وہ مذہبی کلمہ کا اتحاد اور مذہبی کلمہ کا اختلاف ہے، اس بولی بات کے اختلاف کی نظیر بابل کے دو بادشاہوں کے ناموں میں ملتی ہے۔
ایک شاہ بابل کا نام تھا ساموابی یعنی میرا باپ سام ہے، اس نام میں کوئی بات ایسی جس سے ایسے نام خدا کو ناپسند تھے، چنانچہ تورات کے بیان کے بموجب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام جو اُن کے باپ نے رکھا تھا، وہ ابی رام تھا (میرا باپ رام ہے) خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ یہ نام بدل دو اور آج سے تمہارا نام ابی رام نہیں، بلکہ اب راہام ہوگا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام جس سبب سے خدا نے بدلوایا، اس کو سمجھنے کے لئے حضرت یرمیاہ کے صحیفہ میں خدا کا ارشاد پڑھو۔
’جس طرح چور جب پکڑ لیا جاتا ہے رسوا ہوتا ہے، اسی طرح اسرائیل کا گھرانا اور ان کے بادشاہ اور امیر اور کاہن اور (جھوٹ موٹ کے) نبی رسوا ہوں گے، جو کاٹھ سے کہتے ہیں کہ تو میرا باپ ہے اور پتھر سے کہ تو نے مجھے جنا ہے۔ انہوں نے میری طرف رخ نہیں بلکہ پشت پھیر رکھی ہے مگر مصیبت کے وقت کہیں گے اٹھ اور ہمیں بچا۔ (یرمیاہ ۲:۲۶، ۲۷)
اس سے معلوم ہوا کہ ابی رام اور ساموابی جیسے نام رکھنے کا مطلب اس عقیدہ کا اعلان تھا کہ راموایلو (رام ایک خدا ہے) اور ساموایلو (سام ایک خدا ہے) اب ساموابی کے نام کا مطلب سمجھنے کے بعد اس کے ایک جانشین کا نام سنو، سامولوایلو (سام خدا نہیں ہے) اس قسم کے بہت سے نام باشندگان بابل کے پیش کئے جاسکتے ہیں، مثلاً بل بالی (بعل خالق ہے) اور یا بنی (یا خالق ہے) ان ناموں سے ظاہر ہے کہ بابل میں جا کر بسنے کے بعد وہاں والوں میں جس قسم کا اختلاف اُن کی بولی بات میں پڑا تھا وہ مذہبی اختلاف تھا اور اسی مذہبی اختلاف کے وجہ سے بابل کو باب ایک نہ ماننے والوں نے اسے بدل کر بیل بنادیا اور اب اس نام کے معنی طرح طرح کی بولی بولنا ہوگئے، بابل کی توراتی وجہ تسمیہ کو جدید تحقیقات کی روشنی میں غلط نہیں کہنا چاہیے بلکہ اسے ترمیم اس کی وجہ قرار دینا چاہیے، بابل کے مندر کو باب ایک تسلیم کرنا سفر تکوین کے جامع کے لئے ناممکن تھا، اس لئے اختلاف کلمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس شہر کے نام میں ترمیم کی گئی۔

محل وقوع
بابل عراق کے ایک شہر کا نام ہے، عراق دریائے دجلہ و فرات کی درمیانی وادی کا نام ہے، عرب کے نقشہ پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ طول بلد ۴۸، ۱۵ اور عرض بلد ۳۰ تک خلیج فارس، ایران و عرب کے درمیان گھسی ہوئی ہے، جس میں دریائے دجلہ و فرات گرتے ہیں، جو واسط کے پاس پہنچ کر ایک ہوجاتے ہیں، واسط سے شمال کی جانب طول بلد ۴۵ اور عرض بلد ۳۸ کے پاس فرات کے مغربی کنارہ پر ایل مقام واقع ہے، جوتل نمرود کہلاتا ہے، اسی مقام کا نام بابل تھا، جسے عرصہ دراز کی بول چال نے دوآبہ دجلہ و فرات کے ثلث زیرین کا نام بنادیا تھا۔

باشندگان بابل
بابل کی وجہ تسمیہ میں ایک قول یہ نقل کیا گیا ہے کہ یہی مقام آدم کا ابتدائی مسکن تھا، جہاں سے قابیل جبال نود کو بھاگا تھا، یہ قول قابل استناد نہیں ہے۔ یاقوت نے لکھا ہے: و یقال ان اول من سکنھا نوح علیہ السلام و ھو اول من عمرھا و کان نزلھا بعقب الطوفان۔
اور کہا جاتا ہے کہ بابل میں سب سے پہلے حضرت نوح آباد ہوئے اور یہاں وہ طوفان کے بعد آئے۔
قرآن مجید کے بیان کے مطابق جس پہاڑ پر حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ٹکی تھی اس کا نام جودی ہے اور توراتی نام اس پہاڑ کا اراراط ہے، آشوری روایت کے مطابق اس پہاڑ کا نام نسر تھا (دیکھئے بحث جودی) حضرت نوح اور ان کے اصحاب کشتی اسی پہاڑ کے آس پاس بسے ہوں گے، یہ آرمینیہ میں واقع ہے۔ حضرت نوح کا بابل میں آباد ہونا مشکل سے یقین کیا جاتا ہے مگر آشوری افسانہ ازدد بار میں جس کا تذکرہ قصہ نوح میں کیا گیا ہے طوفان سے پیشتر حضرت نوح کا آشوری نام تاسیت ناپش تم (شیث کامل) تھا، شرشور پاک کے باشندے دراُباراتوتو (قوم اُبار) کے فرزند تھے، یہ شہر خود اس افسانہ کے مطابق ’’ساحل فرات‘‘ پر واقع تھا، غالباً اسی روایت نے بعد میں یہ صورت اختیار کرلی کہ حضرت نوح کا مسکن بعد طوفان بابل میں تھا، تورات کے بیان کے مطابق بنی نوح جو اس دیار میں بسے یہاں کے قدیم باشندے نہیں تھے بلکہ وہ اس دیار میں قدم سے آئے۔
’’اور جب وے قدم سے روانہ ہوئے تو ایسا ہوا کہ انہوں نے شنعار کے ملک میں ایک میدان پایا اور وہیں رہ پڑے) (تکوین: ۱۱۔۹)
اسی ملک شنعار کے اس حصہ کا جس میں بنی نوح یا بالفاظ دیگر اسلاف ابراہیم علیہ السلام آباد ہوئے دوسرا نام بابل ہے۔(تکوین ۱۱:۹)
تورات کی اس آیت میں میدان کی بجائے اصل عبرانی لفظ ’’قاعہ‘‘ ہے، قاعہ چٹیل میدان کو کہتے ہیں، جہاں نہ آدم ہو نہ آدم زاد اور وہاں نہ درخت ہو اور نہ کوئی اور سایہ دار چیز، بنی نوح یا اسلاف ابراہیم علیہ السلام یہاں ایسے زمانہ میں آئے جب یہ علاقہ غیرآباد تھا۔
حضرت ابراہیم کے اسلاف میں ایسے افراد بہت گذرے ہیں جو اپنے نام ’’ساموابی‘‘ جیسے رکھتے تھے، اس لئے وہ بنوسام کہلائے، ان لوگوں کے یہاں آنے کے بعد لیکن اُن کے بر سر عروج آنے سے پہلے ایک اور قوم اس دیار میں آبسی جس کی زبان اور طرزِ زندگی کے علاوہ صورت شکل بھی مختلف تھی، آثارِ باقیہ کے علماء نے اس قوم کو سمیریون کا نام دیا ہے۔ سفر تکوین کا جامع اور اس کے اتباع میں بعد کے عرب مورخین تمام اقوام عالم کو حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں کو اولاد بتاتے ہیں جن میں سے ایک تو بنوسام کا مورث تھا سام، ایک بیٹے کا نام حام تھا، دراصل یہ نام مصری لفظ خم کی عبرانی صورت ہے، خم سرزمین مصر کا نام تھا کیوں کہ وہاں کی زمین سیاہ ہے اور خم کے معنی ہیں کالی مٹی، رفتہ رفتہ یہ اہل مصر اور ان کے ہم نسلوں کے مورثِ اعلیٰ کا نام ہوگیا، تورات کے بیان کے مطابق بنوحام بھی ابتداء میں سرزمین بابل میں رہتے تھے، پھر مصر و غیرہ میں جابسے، تیسری قوم کا توراتی نام بنویافث ہے، یہ بھی ابتداء میں بابل میں رہتے تھے، ان بابلی بنویافث کو ہم آثارِ قدیمہ کی سمیری قوم سے تطبیق دے سکتے ہیں۔
حاصل اس تفصیل کا یہ ہے کہ شنعار میں جو کہ بعد میں ارضِ بابل یا کلدانیون کی سرزمین کہلایا، ابتدائی میں تین قومیں آباد تھیں: ۱۔ بنویافث، ۲۔ بنوحام، ۳۔ بنوسام۔
لیکن بابلی آثار قدیمہ کے علماء اس علاقہ کی دوہی قوموں کو جانتے ہیں، جن میں سے ایک سومیری قوم تھی اور ایک سامری، لیکن تورات کے بیان کو بالکل بے اصل نہیں کہا جاسکتا۔ اورکی حکومت کے قیام سے پہلے کش نام ایک شہر میں مسیلم نام کا ایک فرماں روا تھا، جس کے جانشینوں کا راج عروج و زوال کے ساتھ ۴۴۰۰ سے ۳۱۰۰ ق م تک قائم رہا، یہ خاندان سامی النسل تھا۔ ۴۵۰۰ ق م ۲۱۰۰ ق م تک شہر میں لاء نام ایک شہر میں جس کو جرسو، ٹن جرسو اور سنجر بھی کہا جاتا تھا، ایک بادشاہ اور کا جنا اور اس کے جانشین راج کرتے تھے۔ ان بادشاہوں کو سیمیرین قوم سے بتایا گیا ہے۔ مسیلم کے بر سر عروج آنے سے پہلے ۴۵۰۰ ق م میں ایک شاہ کنجی گذرا ہے، جس میں مسیلم کے پیش رو حکام کش کو شکست دے کر یہاں کا مال غنیمت آثار قدیمہ کی شہادت کے مطابق ’’زمینوں کے خاندانِ لیل‘‘ کی خدمت میں نذر پیش کیا تھا، اس بادشاہ کی بابت ہسٹورٹیس ہسٹری آف دی ورلڈ کی پہلی جلد کے مولف نے لکھا ہے کہ ہمارے پاس یہ بتانے کے لیے مواد موجود نہیں ہے کہ وہ کس قوم سے تھا، سامی تھا یا سمیری تھا۔
لیکن اس کا نام تھا، ان شگ کوش انا، جو چار لفظوں کا مجموعہ ہے۔
(۱) شگ ماسگ236سردار۔ (۲) انا236 آسمان رتبہ۔ (۳) ان236 آقا۔ (۴) کوش236 یہ نام توراتی کوش بن حام کے نام سے ملتا جلتا ہے، جس کے فرزند نمرود کی بابت تورات میں ہے کہ اس کی حکومت کی ابتداء شنعار کی سرزمین میں بابل ارک، اکادادرکلنہ میں ہوئی مگر پھر وہ اشور کو نکل گیا اور نینویٰ احباب عبر اور کلح کو بنایا اور نینویٰ اور کلح کے درمیان اس کی تعمیر کی جو بڑا شہر ہے۔ (تکوین ۲۰:۱۰ تا ۱۲)
چوں کہ بنوحام بالکل ابتدائی زمانہ میں اس دیار سے نکل گئے تھے، اس لئے اس کے نشانات یہاں نہیں ملتے مگر واقعہ یہ ہے کہ اس دیار میں پہلے تین قومیں آباد تھیں، ان تینوں کو سفر تکوین کے جامع نے حضرت نوحؑ کی اولاد بتایا ہے، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ قصہ کہاں تک درست ہے کہ تمام زبانیں بولنے والی دنیا بھر کی تمام قومیں حضرت نوحؑ کی اولاد ہیں۔ بنوسام یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسلاف اس دیار میں قدم سے آئے تھے، قدم کے لغوی معنی سامنے کے ہیں۔ مصر والے مشرق کو قدم کہتے تھے، تورات پر مصری محاورہ کا کافی اثر ہے، قدم تورات میں خصوصیت کے ساتھ عرب کا نام ہے دوآبہ فرات و خابور کے علاوہ پورے عرب کو بشمول آرمینیہ جہاں دجلہ و فرات کے سرچشمے واقع ہیں، تورات میں قدم کہا گیا ہے جس قوم کو سمیری کہا جاتا ہے، ہمارے خیال میں اسی کا قرآنی نام یاجوج اور ماجوج ہے۔

افسانوی تاریخ
قرآن مجید کی جس آیت میں بابل کا ذکر ہے نہ صرف اُس کے بلکہ قرآن مجید کے اکثر قصوں کے فہم کے لئے ابتداء سے بنی اسرائیل کی اسیری بابل کے عہد تک دوآبہ دجلہ و فرات کی اجمال کے ساتھ پوری تاریخ دینا زیادہ مفید ہوگا، ہر قوم خصوصاً ایسی قوم کی تاریخ جس کا زمانہ عروج فنِ تحریر کی ایجاد سے پہلے گذرا ہو خلاف عقل کتھاؤں سے شروع ہوتی ہے، ان کتھاؤں میں زمانہ دراز کی بھول بھلیوں اور شاعروں کی بلند پروازیوں نے بہت مشکلات پیدا کردی ہیں لیکن ہر پرانی کتھا اپنے اندر قدیم تاریخ کو چھپائی ہوئے ہے۔
اہل بابل کی ایک کتھا کا خلاصہ یہ ہے کہ ابتدائی میں دو ہستیاں تھیں جن کے نام ہیں ابسو اور تیامت یہ دونوں میاں بی بی تھے، ان نحمو اور نحامو پیدا ہوئے، جو انشر اور کیشر کے والدین تھے، ان دونوں نے انو، بل اور یا و غیرہ دیوی دیوتاؤں کو جنم دیا، ان دیوی دیوتاؤں سے ناراض ہو کر تیامت نے چند شریف ہستیوں کو چن کر اُن کا امیر کنجو کو مقرر کیا اور کنجو کی فوج دیوتاؤں سے ان کی خدائی چھیننے کو چلی، اس کی خبر انشر کو ہوگئی، اس نے اپنے ایلچی جاجا کو بھیج کر دیوتاؤں کو متنبہ کیا، چنانچہ مردوک اُن سے لڑنے کو اترا اور اس نے تیامت کو چیر کر دو حصے بنادیئے، جن سے آسمان اور زمین پھر سیارے اور انسان وجود پذیر ہوئے۔ (ہسٹورینس ہسٹری آف دی ولرڈ، ج۱، ص: ۵۲۰)
اس افسانہ کے اندر قدیم تاریخ موجود ہے، قدیم زمانہ میں عرب کو خالد یہ والے ماتی تیامت، (ارض البحر) کہتے تھے، لخم عرب میں ایک خاص قسم کی مچھلی کو کہتے ہیں، اس لئے ماتی تیامت یعنی ارض البحر کے قدیم باشندے لخم کہلائے، یہ بنولخم جب اس سرزمین میں پہنچے جس کا قرآنی نام بابل ہے تو وہ انشر اور کیشر بن گئے، یہاں انہوں نے انو، بل اور یا و غیرہ بہت سے دیوتاؤں کو جنم دیا اور وہ مشترک اور متعدد دیوتاؤں کے قائل ہوگئے، اس وقت کنجو نام ایک رئیس کے ماتحت تیامت یعنی ارض البحر کے رہنے والے ایک دوسرے گروہ نے دیوتاؤں کی خدائی سے محروم کرنے کی جد و جہد شروع کی، ان دونوں گروہوں میں جنگ ہوئی، ایک گروہ کا رئیس کنجو تھا، دوسرے کا مردوک، مردوک کے گروہ میں ایک تیسرا گروہ بھی شامل تھا جس کا نام (Gaga) ہے، یہ نام توراتی جوج کے نام سے ملتا جلتا ہے، جوج کا نام قرآن میں یاجوج اور آشوری کتبون میں اجی جی ملتا ہے، اس جنگ میں غلبہ اس گروہ کو ہوا جس کو جرج کی تائید حاصل تھی اور مردوک نے پھاڑ تیامت کے دوحصے کردیئے، ان میں ایک حصہ آسمان (سام) اور دوسرا زمین (حام) کے نام سے موسوم ہوا۔

اثری تاریخ
یہ تاریخ اس زمانہ کی ہے جب فن تحریر ایجاد نہیں ہوا تھا، اس کی ایجاد کے بعد ہم کو اس دیار میں دو قومیں ملتی ہیں، جن میں سے ایک کو آثار قدیمہ کے علماء نے سمیری قوم کا نام دیا ہے کیوں کہ قدیم شاہان عراق جو شمالی اور جنوبی دونوں حصوں پر حکومت کرتے تھے، اپنے آپ کو ’’اکاد اور سومیر کا بادشاہ کہتے تھے اور دوسرے گروہ کو بنوسام نام دیا گیا ہے جن کی بولی عربی اور عبرانی و غیرہ زبانوں کے مطابق تھی۔‘‘
افسانوی تاریخ میں سمیری قوم کا ذکر جاجا کے نام سے آیاہے، جو تورات کا جوج اور قرآن کا یاجوج ہے، اس زمانہ میں یہ قوم لخم اور کنجو کے مقابل غیر اہم تھی لیکن اثری زمانہ میں جو فن تحریر کی ایجاد کے بعد گذرا ہے ابتداء میں یہی قوم سب سے اہم تھی اور سب سے پہلے اسی قوم سے اس دیار کے متعدد شہروں میں چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم کیں، پھر کچھ عرصہ بعد سامی زبانیں بولنے والوں نے بھی حکومت اور اقتدار میں حصہ بٹانا شروی کیا، اسی زمانہ کی بابت تورات میں ہے کہ: ’’عابر سے دو فرزند پیدا ہوئے ان دو میں سے ایک کا نام فلج رکھا، کیوں کہ اس کے زمانہ میں زمین بانٹی گئی اور دوسرے کا نام یقطن رکھا گیا۔‘‘
سب سے قدیم سامی بادشاہ جس نے ارض عراق میں اپنی حکومت قائم کی تھی حال کی تحقیقات کے مطابق کش کا شہر یاد مسیلم تھا، اس کا زمانہ اندازاً سنہ ۴۴۰۰ ق م قرار دیا جاتا ہے، اس کے جانشینوں کی حکومت عروج و زوال کے ساتھ ۳۸۰۰ ق م تک قائم رہی، پھر پورے علاقہ مابین دجلہ و فرات پر ایک دوسرے سامی خانوادہ نے قبضہ کرلیا، جس کا مرکز حکومت اکاد تھا اور اس خانوادہ کے بانی کا نام تھا۔ ’’شارجنی سارعلی بن اقی بل‘‘ اس کو آشوری روایتوں کے مطابق سرجون اکبر بھی کہا جاتا ہے، یہ نام توراتی عابر کے پوتے سروج بن رعو کے نام سے ملتا جلتا ہے۔
سرجون اکبر کے بر سر عروج آنے سے پہلے ایک شہر سربرلامن پر جس جس کو جرسو، بن جرسو اور سنجر بھی کہتے ہیں، ایک سمیری خانوادہ حکومت کرتا تھا، جس کے قدیم ترین فرماں روا کا نام ادرکاجنا ہے اس کی حکومت مسیلم سے تقریباً سو برس پہلے قائم ہوئی اور سرجون اکبر کے زمانہ تک عروج و زوال کے ساتھ قائم تھی، سرجون اکبر کے پہلے اُدرادر گوتی نام دو شہروں میں دو اور حکومتیں سونیریون کی تھیں، خاندان سرجون کی حکومت ضعیف ہوجانے اور ابرخ، اد س اور لارسا میں چھوٹی چھوٹی حکومتیں قائم ہوئیں، ۲۴۰۰ ھ ق م کے قریب ان تمام حکومتوں کو ایک نئے خاندان نے جس کے بانی کا نام ساموابی تھا اور جس کا پایۂ تخت شہر بابل تھا، ختم کردیا، ساموابی کے خانوادہ کو عربی خاندان بتایا جاتا ہے۔
اس طرح بابل میں یکے بعد دیگرے سات خانوادوں نے ۷۲۸ ق م تک حکومت کی، جن میں سے دوسرے خانوادہ کے گیارہ بادشاہوں کے نام سومیریون کے سے ہیں، اس خانوادہ کے خاتمہ (۱۴۸۰ ق م) کے بعد سمیری قوم بتدریج اس طرح نابود ہوجاتی ہے کہ پھر اس کا سراغ نہیں ملتا۔
۱۸۳۰ ق م کے قریب ملک اشور میں ایک اور سامی قوم نے اپنی عظمت و وقار کی بنیاد رکھی۔ قرآن کریم میں قوم یونس کے نام سے اسی قوم کا ذکر آیا ہے جس کے ایک بادشاہ ثغلات بلاسر (نوکلتی اپال اشور) نے سنہ ۷۲۸ میں بابل کی حکومت کا خاتمہ کرکے اس علاوہ پر خود اپنا راج قائم کرلیا، لیکن ۶۰۶ ق م کے بابل کے ایک اشوری گورنر بنو اپل اشور نے بابل میں ایک نئے خانوادہ کی بنیاد ڈالی، جس کو ۵۲۸ ق م میں ایرانیوں نے شکست دے کر اپنے ما تحت کرلیا۔
یہ ہے بابل کے اس عہد تک کی مختصر تاریخ جس عہد کے بابل کا قرآن کریم میں ذکر آیا ہے، بنو اپل اشور (بنو پلاسر) کے فرزند بنو کدرادسر کا بائبل میں بنو کدرصر کے نام سے ذکر آیا ہے۔ یہ نام بنو خدنصر، پھر بنوخت نصر، پھر بخت نصر ہو کر عربی تاریخوں میں بخت نصر بن گیا ہے، اسی بخت نصر کے زمانہ کی تاریخ بنی اسرائیل کی طرف سے خدا نے سورۂ بنی اسرائیل کی پانچویں آیت میں اشارہ فرمایا ہے۔ بنو اسرائیل پر بخت نصر نے چڑھائی کی اور بہتوں کو گرفتار کرلیا اور لے جا کر بابل کی سرزمین میں ان کو بسایا۔ ایرانیوں کے زمانہ میں اُن کو وطن واپس آنے کی اجازت ملی، اسی اسیری بابل کے زمانہ میں بنواسرائیل نے وہ چیز سیکھی جس کی بابت قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ‘‘