- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بادشاہ کی معافی

رات کا پچھلا پہر تھا۔ دنیا میٹھی نیند میں تھی، ایسے میں وہ دو آدمی اپنی نیند قربان کر کے شہر کا گشت لگا رہے تھے۔ انہیں چوک میں کوئی کھڑا نظر آیا۔ وہ سرکاری لیمپ کے نیچے کھڑا تھا۔
یہ اس کے نزدیک پہنچے تو معلوم ہوا، وہ دس بارہ سال کا ایک لڑکا ہے۔ انہوں نے دیکھا، وہ اپنا سبق یاد کررہا تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا:
’’کیا تم دن کے وقت مدرسے میں نہیں پڑھتے کہ رات کے وقت یہاں کھڑے سبق یاد کر رہے ہو؟‘‘
اس کی بات سن کر لڑکے کی آنکھوں میں آنسو آگئے، کہنے لگا:
’’میرے والد مسلمانوں کے بادشاہ کے ہمراہ جہاد کرتے ہوئے شہید ہوگئے ہں۔ میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں، میرے والد ہمارے لیے کوئی سرمایہ نہیں چھوڑ گئے۔ اس لیے میری والدہ سارا دن ٹوکریاں بناتی ہیں، میں ان کو بازار میں بیچتا ہوں۔ اس لیے دن میں میرے پاس پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ میں روزانہ صبح سویرے فجر کی نماز کے بعد محلے کے قاری صاحب سے سبق لے لیتا ہوں، رات کو یاد کرکے صبح انہیں سنادیتا ہوں۔ میرا اور خلیفہ کا فیصلہ تو اللہ کی عدالت میں ہوگا۔۔۔ میں وہاں بادشاہ کا گریبان پکڑ کر عرض کروں گا، یا رب العزت! اس بادشاہ نے تیرے راستے میں شہید ہونے والے مجاہد کے گھرانے کی ذرا بھی خبر گیری نہیں کی۔ اس کے محل میں تو ہزارہا چراغ جلتے تھے، لیکن مجھے گھر میں چراغ نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری لیمپ کی روشنی میں پڑھنا پڑتا تھا۔‘‘
ان دو آدمیوں سے ایک خود بادشاہ تھا۔ وہ بچے کی باتیں سن کر بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر کہا:
’’میں ہی تمہارا بادشاہ ہوں، اے لڑکے مجھے معاف کردے۔ اگر تو نے میری شکایت اللہ تعالی کے دربار میں کردی تو میں کہیں کا نہیں رہوں گا۔‘‘
ساتھ ہی اس نے فرمان جاری کردیا:
’’اس بچے اور اس کی والدہ کو شاہی محل میں جگہ دی جائے، اسے شہزادوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مکتب بھیجا جائے۔‘‘
دنیا اس بادشاہ کو سلطان محمود غزنوی کے نام سے جانتی ہے۔