- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

انبیا علیہم السلام نے اپنے اقوال و اعمال سے درست زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے یکم مارچ دوہزار انیس کے خطبہ جمعہ میں بدزبانی، بدگمانی، غیبت اور تہمت جیسے گناہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے درست زندگی تک پہنچنے کے لیے اتباع انبیاءعلیہم السلام پر زور دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کا آغاز قرآنی آیت: «یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن یَکُونُوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَى أَن یَکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِیمَانِ وَمَن لَّمْ یَتُبْ فَأُوْلَئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ» [حجرات: 11] کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: نبی کریم ﷺ کی مثال ایک شفیق اور مہربان باپ کی ہے جو اپنی اولاد کو صفائی، کھانے پینے اور ہر ضروری امر کے آداب سکھاتاہے۔ آپﷺ والدین سے بڑھ کر اپنی امت کے لیے خیرخواہی و شفقت دکھاتے تھے۔ قرآن پاک میں بھی صحتمند اور پرامن زندگی گزارنے کا نسخہ پیش ہواہے تاکہ ہماری وجہ سے کسی کا نقصان نہ ہوجائے اور ہم خود بھی امن سے رہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اسلام سے پہلے عرب جاہلیت میں رواج تھا کہ سماج کے مختلف طبقے ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے تھے، بڑے قبائل چھوٹے قبائل کا، مرد خواتین کا اور امیر لوگ غریبوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ لیکن اسلام نے ٹھٹھا کرنے اور تمسخر سے شدت کے ساتھ منع کیا۔ مذاق اڑانے سے دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ پرامن زندگی کی بنیادوں کے خلاف ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: مزاح میں بھی تمسخر سے گریز کیا جائے اور برے القاب و عناوین سے ایک دوسرے کو یاد نہ کیا جائے۔ بچوں کو اچھے ناموں سے پکاریں؛ ان کی تحقیر و تذلیل سے بچیں۔ نیز بدگمانی و بدزبانی سے دوری اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سارے افراد کی جانیں بدگمانی ہی کی وجہ سے ضائع ہوگئی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: غیبت بھی بڑا گناہ ہے جو تکبر کا نتیجہ ہے۔ متواضع لوگ جو خود کو دوسروں سے اونچا نہیں سمجھتے، ہرگز دوسروں کی غیبت نہیں کرتے ہیں۔ لہذا یہ عادت ڈالیں کہ لوگوں کی اچھائیوں کا تذکرہ کیا کریں۔ بہتان تراشی بھی ایک عام گناہ ہے جس سے قرآن پاک نے منع کیا ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: نبی کریم ﷺ نے وحی کی برکت سے ایک پاک و صاف معاشرہ کی مثال پیش کی جو مہذب بھی بن چکا تھا۔ آپ ﷺ نے ایک ایسے سماج کی بنیاد رکھی جس میں زندگی گزارنے کے اصول بتائے گئے کہ ایسے رہو کہ تمہارے ہاتھ، زبان اور قلم سے کسی کو ایذا نہ پہنچے۔ اس حال میں رات کو صبح کرو کہ تمہارے دلوں میں کسی بھی شخص کے لیے نفرت اور بغض نہ ہو۔ یہی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔