- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا چونتیسواں سال تھا کہ مکہ میں توحید کی صدائے غلغہ انداز بلند ہوئی۔
گو ملکی رسم و رواج اور عرب کے مذہبی تخیل کے لحاظ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے یہ آواز نامانوس تھی، تا ہم وہ اپنی فطری عفت، پارسائی، دیانتداری اور راست بازی کے باعث اس داعی حق کو لبیک کہنے کے لیے بالکل تیار تھے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو انھوں نے دین مبین کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا نصب العین قرار دیا اور اپنے حلقہ احباب میں تلقین و ہدایت کا کام شروع کیا، ایام جاہلیت میں ان سے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ارتباط تھا اور اکثر نہایت مخلصانہ صحبت رہتی تھی، ایک روز وہ حسب معمول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اسلام کے متعلق گفتگو شروع کی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی گفتگو سے آپ اتنے متاثر ہوئے کہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے، ابھی دونوں بزرگ جانے کا خیال ہی کررہے تھے کہ خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور حضرت عثمانؓ کو دیکھ کر فرمایا: ’’عثمان! خدا کی جنت قبول کر، میں تیری اور تمام خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوا ہوں‘‘، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ زبان نبوت کے ان سادہ و صاف جملوں میں خدا جانے کیا تاثیر بھری ہوئی تھی کہ میں بے اختیار کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور دست مبارک میں ہاتھ دے کر حلقہ بہ گوش اسلام ہوگیا‘‘۔
حضرت عمرو بن عثمان کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’میں اپنی خالہ ارویٰ بنت عبدالمطلب کے پاس ان کی بیمار پرسی کے لیے گیا، کچھ دیر بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے آئے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غور سے دیکھنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا تھوڑا بہت تذکرہ ان دنوں ہوچکا تھا، آپ ﷺ نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: اے عثمان! تمہیں کیا ہوا؟ (مجھے غور سے دیکھ رہے ہو) میں نے کہا: میں اس بات پر حیران ہوں کہ آپ ﷺ کا ہمارے میں بڑا مرتبہ ہے اور پھر آپ ﷺ کے بارے میں ایسی باتیں کہی جارہی ہیں، اس پر آپﷺ نے فرمایا: لاالہ الا اللہ، خدا گواہ ہے کہ میں یہ سن کر کانپ گیا، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
(و فی السماء رزقکم و ما توعدون، فو رب السماء و الارض انہ لحق مثل ما انکم تنطقون) (اور آسمان میں ہے روزی تمہاری اور جو تم سے وعدہ کیا گیا سو قسم ہے رب آسمان اور زمین کی کہ یہ بات تحقیق ہے جیسے کہ تم بولتے ہو)
پھر حضور ﷺ کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے چل دیا اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوگیا‘‘۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس زمانہ میں حق کی آواز پر لبیک کہا، جب کہ پینتیس یا چھتیس زن و مرد اس شرف سے مشرف ہوئے تھے۔ مکہ میں اسلام کی روز افزوں ترقی سے مشرکین قریش کے غیظ و غضب کی آگ روز بروز زیادہ مشتعل ہوتی جاتی تھی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی اپنی وجاہت اور خاندانی عزت کے باوجود عام مسلمانوں کی طرح جفاکاروں کے ظلم و ستم کا نشانہ تھے، ان کو خود ان کے چچا نے باندھ کر مارا، اعزہ و اقارب نے سرد مہری شروع کردی اور رفتہ رفتہ ان کی سخت گیری اور جفاکاری یہاں تک بڑھی کہ وہ ان کی برداشت سے باہر ہوگئی، اور بالآخر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ سے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ کو ساتھ لے کر ملک حبش کی طرف روانہ ہوگئے، چنانچہ یہ پہلا قافلہ تھا جو حق و صداقت کی محبت میں وطن اور اہل وطن کو چھوڑ کر جلاوطن ہوا۔
ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا کچھ حال معلوم نہ ہوسکا اس لیے آپﷺ پریشان خاطر تھے، ایک روز ایک عورت نے خبر دی کہ اس نے ان دونوں کو دیکھا تھا، اتنا معلوم ہونے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت میں عثمانؓ پہلا شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کو لے کر جلاوطن ہوا‘‘۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس ملک میں چند سال رہے اس کے بعد جب بعض اور صحابہؓ قریش کے اسلام کی غلط خبر پا کر اپنے وطن واپس آئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی آگئے، یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے، اس بنا پر بعض صحابہ پھر ملک حبش کی طرف لوٹ گئے، مگر حضرت عثمان پھر نہ گئے۔
اسی اثناء میں مدینہ کی ہجرت کا سامان پیدا ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام اصحاب کو مدینہ کی ہجرت کا ایماء فرمایا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے۔