- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

مشرق وسطی میں قیامِ امن کی واحد راہ مسئلہ فلسطین کا حل ہے

اہل سنت ایران کی ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے مشرق وسطی میں امن کے عنوان سے پولینڈ میں منعقد ہونے والی کانفرنس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: پوری دنیا میں بدامنی اور انتہاپسندی کی جڑیں اسرائیل میں پیوست ہیں۔ جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوگا، اس خطے میں پائیدارامن قائم نہیں ہوسکتا۔
پندرہ فروری دوہزار انیس کے خطبہ جمعہ میں زاہدان کے ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: وارسا کانفرنس میں جو امریکا کی دعوت پر منعقد ہوئی تھی، متعدد تقریریں ایران کے خلاف ہوئیں۔ کاش امریکی حکام صحیح سوچتے اور انہیں پتہ چل جاتا کہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کی واحد راہ اسرائیل کے اپنی سرحدوں تک محدود رہنا اور فلسطین کی آزادی اور اس قوم کے احترام میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: امریکی اور مغربی حکام انسانی حقوق اور عزت کے بلندوبالا دعوے کرتے ہیں، سوال یہ ہے کیا فلسطینی عوام انسان نہیں ہیں اور ان کے کوئی حقوق اور عزت نہیں ہے؟ کیا فلسطینیوں کے حق میں انصاف نافذ نہیں ہونا چاہیے؟ وقت آں پہنچا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات و گفت و شنید کی راہ اپنائی جائے اور اسرائیل اپنی سرحدوں تک محدود ہوکر مقبوضہ علاقوں سے واپس چلاجائے۔ بیت المقدس پر قبضے کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: مغربی طاقتوں کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں مسائل اور انتہاپسندی کے بڑھتے رجحانات کی اصل وجہ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ہے۔ بہت سارے مسلمان شدت پسندی کی جانب اسی لیے مائل ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: آج دہشت گردی اور انتہاپسندی دنیا میں ایک خطرناک بھوت کی شکل اختیار کرچکی ہیں اور امنِ عالم کو ان سے شدید خطرہ ہے۔ دنیا کی طاقتیں اگر حقیقی طورپر دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے مخلص ہیں اور دہشت گردی کی بیخ کنی چاہتی ہیں، انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا راستہ جنگ، بمباری اور زمین و فضا سے حملہ کرنے میں نہیں ہے۔ بلکہ انہیں مظلوم و مجبور قوموں کے حقوق پر توجہ دینی چاہیے خاص کر فلسطینی قوم کے حقوق پر۔ کوئی مصالحت جب حقوق کی فراہمی کی راہ سے حاصل ہوتی ہے، وہ پائیدار اور نتیجہ خیز ثابت ہوجاتی ہے۔
امریکی و یورپی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: مشرق وسطی میں قیامِ امن کے لیے فلسطین سے کام شروع کریں، پھر شام، عراق، یمن اور بحرانوں سے دوچار دیگر ملکوں کا نمبر آنا چاہیے
انہوں نے مزید کہا: کاش وارسا کانفرنس میں فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو موضوع بناکر مباحثہ ہوتا اور اس کا آخری بیان کچھ مثبت نتائج کی نوید دے رہا ہوتا جس سے دنیاوالے خوش ہوجاتے۔ اگر دنیا کی طاقتیں تکبر اور گھمنڈ کا شکار نہ ہوں اور مصالحت کی راہ پر چل پڑیں، تمام قومیں انہیں ساتھ دیں گی۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے ایران پر عائد امریکی پابندیوں کو ’’ظالمانہ‘‘ یاد کرتے ہوئے کہا ان پابندیوں کی وجہ سے قوم مسائل و مشکلات سے دوچار ہے۔

یمن میں خانہ جنگی کا خاتمہ کرکے جامع حکومت بنائیں
مولانا عبدالحمید نے آمریت و استبداد کو مشرق وسطی میں قیامِ امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ یاد کرتے ہوئے کہا: مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے لیے جابر و آمر حکومتوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ جب تک یہاں آمریت کا راج ہوگااور حکومتوں کے لیے باہر سے احکامات آتے رہیں گے، قیامِ امن ایک خواب ہی رہ جائے گا۔ اگر کہیں امن بھی آجائے، تو عارضی ہوگا اور پھر بدامنی پھیل جائے گی۔
انہوں نے کہا: سب کو سمجھ لینا چاہیے کہ جنگ و لڑائی مشرق وسطی کے مسائل کے حل نہیں ہیں؛ یہاں صرف جامع حکومتیں بنانے سے امن قائم ہوسکتاہے جن میں تمام برادریوں کو ان کا جائز حصہ مل جائے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: سعودی عرب اور ایران کے حکام یقین کریں یمن کے مسائل لڑائی سے حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ یمنی عوام متعدد مسائل سے دوچار ہیں اور بھوک سے مررہے ہیں۔ لہذا جنگ کا خاتمہ کرکے یہاں جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: یمن میں ایک ایسی حکومت بنانی چاہیے جس میں اکثریت کے علاوہ حوثیوں، عیسائیوں سمیت دیگر اقلیتوں کا حصہ ان کی آبادی کے تناسب سے ہو۔ شام اور عراق میں بھی اسی طرح بھائی چارہ اور اتحاد قائم ہوسکتاہے۔

بدامنی ہمارے ہی مفادات کے خلاف ہے
ممتاز عالم دین نے اپنے خطاب کے آخر میں حال ہی میں پاسداران انقلاب کی ایک بس پر دھماکے اور متعدد افراد کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا: ہم قتل و خونریزی کے خلاف ہیں خاص کر کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کا قتل بہت سخت گناہ ہے۔ قتل سے دشمنیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ ہمارے صوبے کے عوام معاشی مسائل اور بے روزگاری کے دلدل میں پھنس چکے ہیں، ایسی کارروائیوں سے ان کے مسائل میں اضافہ ہی ہوگا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: صوبہ میں ترقیاتی کاموں اور غربت کے خاتمے کے لیے امن ضروری ہے، امن کے بغیر سرمایہ کاری اور سیاحت کے شعبوں کو شدید دھچکا لگے گا جس کا نقصان ہم سب کو پہنچے گا۔
انہوں نے گیارہ فروری کی قومی ریلی میں عوام کی پرزور آمد کو انقلاب پر اعتماد یاد کرتے ہوئے کہا: قوم تمام تر مشکلات اور شکایات کے باوجود انقلاب کو مانتی ہے اور اس کی حمایت کرتی ہے، لیکن ماضی کی پالیسیوں اور ڈھانچوں میں تبدیلی لانا وقت کی ضرورت ہے؛ یہ تبدیلی اکثریت کا مطالبہ ہے۔