- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

طالبان مذاکرات کی میز پر۔۔۔ ہم خزاؤں میں پنپنے کا ہنر رکھتے ہیں

افغانستان سے امریکی انخلا کے لیے فریم ورک پر اتفاق ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں امریکا افغانستان سے اپنی فوجیں نکال سکتا ہے، معاہدے کی جزئیات طے کرنا باقی ہیں۔
امریکا کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے یہ بات امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ زلمے خلیل زاد ان دنوں کابل کے دورے پر ہیں اور موجودہ افغان صدر اشرف غنی کو انہوں نے طالبان سے کیے جانے والے مذاکرات کے بارے میں اعتماد میں لیا۔
زلمے خلیل زاد کے انٹرویو پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکا اور طالبان معاہدے کے قریب ہیں، جب جزئیات طے ہوگئیں تو معاہدہ ہوجائے گا۔ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گرد گروپوں یا افراد کا پلیٹ فارم بننے سے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔ زلمے خلیل زاد کے معاہدے کی بات کو اس مسودے سے بھی تقویت ملتی ہے جو ایک امریکی عہدیدار لارلرملز نے زلمے خلیل زاد کی طالبان سے ملاقاتوں سے قبل امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے لیے تحریر کیا تھا، جس کا مقصد امریکا کے افغانستان سے انخلا کے لیے ’’حقیقت پسندانہ‘‘ امن معاہدے کی ممکنہ شکل سامنے لانا تھا۔ اس معاہدے کے مسودے میں جو مبینہ طور پر کابل میں زیر گردش ہے، اس میں ایسی عبوری حکومت کا قیام بھی شامل ہے، طالبان جس کا حصہ ہوں گے۔ البتہ زلمے خلیل زاد کے اس انٹرویو کو شائع کرنے والے اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے ایک امریکی عہدیدار کے حوالے سے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کریں، اس کے بعد جنگ بندی کی شرائط طے کی جائیں۔ یہی کچھ زلمے خلیل زاد کے حوالے سے کسی حد تک اس انٹرویو اور پھر کابل میں موجودہ صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے سامنے آیا ہے کہ انہوں نے عبوری حکومت پر کوئی بات نہیں کی، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ طالبان اور افغان حکومت براہ راست طے کریں۔ اسی لیے اشرف غنی نے طالبان کو براہ راست امن مذاکرات کے لیے دعوی دے دی ہے۔
طالبان کا اب تک یہ موقف رہا ہے کہ وہ کٹھ پتلی افغان حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے، کیونکہ اس کے پاس کسی قسم کا اختیار نہیں ہے۔ اسی لیے افغان صدر نے مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے ساتھ یہ بھی کہا کہ طالبان کے پاس دو ہی راستے بچے ہیں یا تو وہ افغان عوام کا ساتھ دیں یا پھر دوسرے ممالک کے ہاتھوں استعمال ہوں، حکومت قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے چالیس سالہ جاری جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے اور یہی افغان عوام کی خواہش ہے، مگر اسی سانس میں وہ موجودہ صورت حال میں افغانستان کے لیے غیرملکی افواج کی موجودگی کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔ ایسے میں طالبان کا موقف قوی نظر آتا ہے اور وہ امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات بھی اسی لیے کررہے ہیں تا کہ اس فریق کے ساتھ مذاکراتی عمل منطقی انجام تک پہنچے جو اختیارات کا حامل ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر عبوری حکومت کا قیام اور اس میں طالبان کی شمولیت پیش نظر نہیں تو پھر مذاکرات کا مقصد کیا ہے؟ طالبان جن کی افغانستان میں ستر فیصد سے زائد علاقے پر عملداری ہے اور انہوں نے امریکا جیسی سپر پاور کی محیرالعقول عسکری برتری کو اپنی مزاحمت سے چاروں شانے چت کردیا۔ امریکا جیسی بالادست قوت کو سترہ برس بعد اپنی بے سروسامانی کے باوجود مذاکرات کی میز پر اپنے سامنے بیٹھنے پر مجبور کردیا۔

ہم خزاؤں میں پنپنے کا ہنر رکھتے ہیں
افغان طالبان اور امریکا کے مابین ہونے والے مذاکرات کی جو کہانی سامنے آئی ہے، اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ افغان طالبان کے اعصاب پختہ ہیں، امریکا کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ مقابل فریق کو میدان جنگ میں چت نہیں کرسکا تو مذاکرات کی میز پر سفارت کاری کے ذریعے من مانے نتائج حاصل لیے جائیں، مگر مذاکرات کی میز پر بھی امریکا کی گیارہ رکنی ٹیم جس پینٹاگان، سی آئی اے، امریکی وزارت خارجہ اور دوسرے اہم حکام شامل تھے، طالبان کے آٹھ رکنی وفد جس کی ابتدائی قیادت ملاعباس استنکزئی کررہے تھے اور آخری دو دن ملاعبدالغنی برادر نے کی، ان مذاکرات میں ڈیڈلاک کے جتنے مرحلے آئے، ان میں امریکی وفد کے ارکان بار بار واشنگٹن سے ہدایات لیتے رہے، جبکہ طالبان کے وفد کے ارکان اسی مذاکراتی کمرے میں بیٹھے قہوہ پیتے رہے۔
زلمے خلیل زاد نے جب طالبان کو افغان حکومت سے بات چیت کرنے کا کہا کہ یہ افغان عوام کی نمایندہ ہے تو ملا برادر نے اس کے جواب میں کہا کہ جس طرح جان کیری نے افغانستان میں معاہدہ کرایا، اسی طرح طالبان کو بھی دنیا کے کسی ملک میں معاہدہ کرانے کا حق دیا جائے، کیا امریکی عوام کسی کو یہ حق دیں گے کہ امریکی صدر کی جیت کی صورت میں اس کے مخالف کو چیف ایگزیکٹیو بنا کر اسے وہی اختیارات سونپ دیے جائیں جو افغانستان میں ڈاکٹر عبداللہ کو دیے گئے۔ امریکا جمہوریت کی بات تو کرتا ہے مگر جہاں جہاں عوام نے وہ نمایندے چنے جو امریکا کو پسند نہیں، وہاں آج کل کون حکومت کررہا ہے اور کیا ہورہا ہے؟ یہ سب ہمیں معلوم ہے۔ ملابرادر نے امریکی وفد سے کہا کہ ہمارے پاس معاہدے کا اختیار ہے، قابل قبول معاہدے پر فوری دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر آپ لوگ اختیار کے حامل نہیں، بار بار واشنگٹن سے ہدایات لے رہے ہیں، ہم افغان جب کسی جرگے میں بیٹھتے ہیں تو اختیارات کے ساتھ بیٹھتے ہیں، ہم اس وقت بھی تمام اختیارات رکھتے ہیں، مگر ایسے لگ رہا ہے کہ آپ کا وفد اختیارات نہیں رکھتا، جب تک واشنگٹن سے اجازت نہیں ملتی، اس وقت تک آپ دستخط نہیں کرسکتے۔
یوں ڈائیلاگ میں بھی بوریانشینوں نے دلیل کی طاقت سے امریکا کے منجھے ہوئے سفارت کاروں کو حیرت زدہ کردیا۔ اسی لیے ایک طرف وہ مذاکرات کررہے ہیں اور دوسری جانب وہ میدان جنگ میں مستعد اور سربکف ہیں۔ ملا عبدالغنی برادر کا مذاکرات کے چوتھے دور کے اختتام پر واضح الفاظ میں کہنا تھا ’’تمام نکات پر اتفاق کے بغیر طالبان جنگ بندی معاہدے پر دستخط کریں گے اور نہ میدان جنگ میں مورچہ زن طالبان اپنے ہتھیاروں سے غافل ہوں گے۔‘‘
دوسری طرف زلمے خلیل زاد نے اس موقع پر کہا کہ بات چیت میں خاصی کامیابی ہوئی ہے، کئی امور پر مفاہمت ہوتی نظر آرہی ہے، لیکن ابھی بہت کام باقی ہے۔ فی الحال لگتا ایسا ہے کہ ’’اونٹ پہاڑ کے نیچے‘‘ آیا ہوا ہے۔ اس اردو محاورے کا مطلب یہ ہے کہ ’’اپنے سے زبردست کا مقابلہ ہونے پر ہی اپنی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔‘‘
طالبان کے حربی پہاڑ کے ساتھ سفارتی پہاڑ کا بھی امریکی اونٹ کو سامنا ہے۔ پہاڑ کے نیچے اونٹ نہ آئے تو وہ اپنے سے اونچا کسی کو نہیں جانتا، کیونکہ اب تک اس اردو مثل ’’اونٹ کا پاؤں اونچا جائے‘‘ والا معاملہ تھا کہ امریکا کی بڑائی نے اس کی برائی اور عیب چھپا رکھے تھے اور اسی ’’فیس سیونگ‘‘ کے لیے طالبان سے اس کے ماضی کے مذاکرات ناکام ہوتے رہے۔ اب بھی امریکا کے ماضی کو دیکھتے ہوئے خدشات ہیں، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی کہ وہ کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے، سے امید بھی بندھی ہے، ورنہ انہیں ایرک پرنس جو ’’بلیک واٹر‘‘ چلا رہے ہیں، یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ افغان جنگ کو ’’پرائیوٹائز‘‘ کردیں اور آپ اخراجات کا ۲۰ فیصد دے دیں، مگر ابھی تک اس رائے کی پذیرائی نہیں ہوئی، کیونکہ امریکی پریس نے شور مچادیا تو معاملہ التواء میں چلا گیا۔ امریکی جرنیل ٹرمپ کو یہ پٹی پڑھانے میں مصروف ہیں کہ انخلا امریکی مفاد کے خلاف ہے، دوسری طرف ٹرمپ کو ۲۰۲۰ء میں دوسری مدت کے لیے انتخابات کے میدان میں جانا ہے، اس لیے وہ چاہیں گے کہ وہ افغان طالبان کو سیاسی دھارے میں لانے کے لیے ’’پاور شیئرنگ‘‘ کی صورت نکالی جائے، کیونکہ کرزئی اور اشرف غنی کے تجربات سے امریکا کو ناکامی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ طالبان ’’عبوری سیٹ اپ‘‘ کے لیے منصوبہ بندی کرچکے ہیں، ملابرادر نائب امیر، افغان فوج اور طالبان ادغام کے لیے ملاعبدالکبیر اپنا کردار ادا کریں گے۔