- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حضرت عمر فارق رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ستائیسواں سال تھا کہ آفتاب رسالت طلوع ہوا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز نامانوس نہیں رہی تھی، چنانچہ سب سے پہلے زید کے بیٹے سعید رضی اللہ عنہ اسلام لائے، حضرت سعیدؓ کا نکاح حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا، اس تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہوگئیں، اسی خاندان میں ایک معزز شخص نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن حضرت عمرؓ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے ان کے کانوں میں جب یہ صدا پہنچی تو سخت برہم ہوئے، یہاں تک کہ قبیلہ میں جو لوگ اسلام لاچکے تھے، ان کے دشمن بن گئے، لبینہؓ ان کے خاندان کی کنیز تھی جس نے اسلام قبول کرلیا تھا، اس کو بے تحاشا مارتے اور مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ ’’دم لے لوں تو پھر ماروں گا‘‘، وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں کہ ’’اگر تم اسلام نہ لاؤ گے تو خدا اس کا انتقام لے گا‘‘، لبینہؓ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا زد و کوب سے دریغ نہ کرتے تھے، اسی طرح حضرت زنیرہؓ حضرت عمرؓ کے گھرانے کی کنیز تھیں اور اس وجہ سے حضرت عمرؓ کو جی کھول کر ستاتے، جب ان کے چچازاد بھائی سعید بن زیدؓ اسلام لائے تو حضرت عمرؓ نے ان کو رسیوں سے باندھ دیا، لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو چڑھ جاتا تھا اترتا نہ تھا۔
چونکہ قریش کے سربرآوردہ اشخاص میں ابوجہل اور حضرت عمر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے، اس لیے دوسرے حربے ان پر کامیاب نہ ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے ان سب سے کارگر حربہ کو ان کے مقابلہ میں استعمال کیا جس کے وار کی کوئی روک نہیں ہوسکتی تھی۔
اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے لیے اسلام کی دعا فرمائی:
’’اللھم اعز الاسلام بأحد الرجلین اما ابن ھشام و اما عمر بن الخطاب‘‘ (خدایا اسلام کو ابوجہل یا عمر بن الخطاب سے معزز کر)
مگر یہ دولت تو قسام ازل نے حضرت عمرؓ کی قسمت میں لکھ دی تھی، ابوجہل کے حصہ میں کیونکر آتی؟ اس دعائے مستجاب کا اثر یہ ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد اسلام کا سب سے بڑا دشمن اس کا سب سے بڑا دوست اور سب سے بڑا جاں نثار بن گیا، یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دامن دولت ایمان سے بھر گیا، ’’ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء‘‘۔
تاریخ و سیر کی کتابوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تفصیلات اسلام میں اختلاف ہے، ایک مشہور واقعہ جس کو عام طور پر ارباب سیر لکھتے ہیں یہ ہے کہ جب حضرت عمر اپنی انتہائی سختیوں کے باوجود ایک شخص کو بھی اسلام سے بددل نہ کرسکے تو آخر کار مجبور ہوکر (نعوذ باللہ) خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا اور تلوار کمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے، راہ میں اتفاقا نعیم بن عبداللہ مل گئے، ان کے تیور دیکھ کر پوچھا: ’’خیر تو ہے؟‘‘ بولے: ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں‘‘، انھوں نے کہا: ’’پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو، خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لاچکے ہیں‘‘، فوراً پلٹے اور بہن کے یہاں پہنچے، وہ قرآن پڑھ رہی تھیں، ان کی آہٹ پا کر چپ ہوگئیں اور قرآن کے اجزا چھپا لیے، لیکن آواز ان کے کان میں پڑچکی تھی، بہن سے پوچھا یہ کیسی آواز تھی؟ بولیں ’’کچھ نہیں‘‘، انہوں نے کہا: ’’میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہوگئے ہو‘‘، یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریباں ہوگئے اور جب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی یہاں تک کہ ان کا جسم لہولہان ہوگیا، لیکن اسلام کی محبت پر ان کا کچھ اثر نہ ہوا، بولیں: ’’عمر! جو بن آئے کر لو لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا‘‘، ان الفاظ نے حضرت عمرؓ کے دل پر خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا، ان کے جسم سے خون جاری تھا، اسے دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی، فرمایا: ’’تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھے بھی سناؤ‘‘، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے قرآن کے اجزاء سامنے لاکر رکھ دیئے، اٹھا کر دیکھا تو یہ سورہ تھی:
(یسبح للہ ما فی السموات و الارض و ھو العزیز الحکیم)
(زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب خدا کی تسبیح پڑھتے ہیں، وہ غالب اور حکمت والا ہے)
ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا جاتا تھا یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے: (آمنوا باللہ و رسولہ) (خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ)
تو بے اختیار پکار اٹھے:
(اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ)
یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارقمؓ کے مکان پر جو کوہِ صفا کے نیچے واقع تھا پناہ گزیں تھے، حضرت عمرؓ نے آستانہ مبارک پہنچ کر دستک دی، چونکہ شمشیر بکف تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تردد ہوا، لیکن حضرت حمزہؓ نے کہا: ’’آنے دو، مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ہے ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا‘‘، حضرت عمرؓ نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا: ’’کیوں عمر! کس ارادے سے آئے ہو؟‘‘ نبوت کی پر جلال آواز نے ان کو کپکپا دیا، نہایت خضوع کے ساتھ عرض کی: ’’ایمان لانے کے لیے‘‘، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے ساختہ ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ اس زور سے مارا کہ تمام پہاڑیاں گونج گئیں۔
یہی روایت تھوڑے تغیر کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، دونوں میں فرق صرف اس قدر ہے کہ پہلی میں سورۂ حدید کی آیت ’’سبح للہ ما فی السموات و الارض‘‘ ہے۔ دوسری میں سورہ طہ کی یہ آیت ہے: (اننی انا اللہ لا الہ الا انا فاعبدنی و اقم الصلوۃ لذکری)
(میں ہوں خدا کوئی نہیں معبود لیکن میں، تو مجھ کو پوجو اور میری یاد کے لیے نماز کھڑی کرو)
جب اس آیت پر پہنچے تو بے اختیار ’’لاالہ الا اللہ‘‘ پکار اٹھے اور درِ اقدس پر حاضری کی درخواست کی۔
مسند احمد میں ایک روایت خود حضرت عمرؓ سے مروی ہے، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ ’’ایک سب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑنے نکلا، آپﷺ بڑھ کر مسجد حرام میں داخل ہوگئے اور نماز شروع کردی، جس میں آپ ﷺ نے سورۂ الحاقہ تلاوت فرمائی، میں کھڑا سنتا رہا اور قرآن کے نظم و اسلوب سے حیرت میں تھا، دل میں کہا جیسا قریش کہا کرتے ہیں، خدا کی قسم یہ شاعر ہے، ابھی یہ خیال آیا ہی تھا کہ آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی:
(انہ لقول رسول کریم و ما ھو بقول شاعر قلیلا ما تومنون) (یہ ایک بزرگ قاصد کا کلام ہے اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں، تم بہت کم ایمان رکھتے ہو)
میں نے کہا: یہ تو کاہن ہے، میرے دل کی بات جان گیا ہے، اس کے بعد ہی یہ آیت پڑھی:
(و لا بقول کاھن قلیلا ما تذکرون، تنزیل من رب العالمین) (یہ کاہن کا کلام بھی نہیں تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو، یہ تو جہانوں کے پرورگار کی طرف سے اترا ہے)
آپ (ﷺ) نے یہ سورہ آخرتک تلاوت فرمائی اور اس کا سن کر اسلام میرے دل میں پوری طرح گھر کر گیا۔‘‘
چونکہ وہ مستقل مزاج اور پختہ کار تھے اس لیے انھوں نے اسلام کا اعلان نہیں کیا بلکہ اس اثر کو شاید وہ روکتے رہے، لیکن اس کے بعد جب ان کی بہن کا واقعہ پیش آیا اور قرآنی آیات پر نظر پڑی جس میں توحید کی نہایت مؤثر دعوت ہے تو دل پر قابو نہ رہا اور بے اختیار کلمہ توحید پکار اٹھے اور درِ اقدس پر حاضری کی درخواست کی۔
حضرت اسلم کہتے ہیں کہ ’’ہم سے حضرت عمرؓ نے فرمایا: کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میں اپنے ابتداءِ اسلام کا قصہ بیان کروں؟ ہم نے کہا: جی ضرور، آپ نے فرمایا: میں حضور ﷺ کے بڑے دشمنوں میں تھا، صفا پہاڑی کے قریب ایک مکان میں حضور ﷺ تشریف فرماتھے، میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آ پﷺ کے سامنے بیٹھ گیا، آپﷺ نے میرا گریبان پکڑ کر فرمایا: اے خطاب کے بیٹے! مسلمان ہوجا اور ساتھ ہی یہ دعا کی کہ اے اللہ اسے ہدایت عطا فرما، میں نے فوراً کہا: ’’اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انک رسول اللہ‘‘
فرماتے ہیں: میرے اسلام لاتے ہی مسلمانوں نے اتنی بلند آواز سے تکبیر کہی کہ جو مکہ کی تمام گلیوں میں سنائی دی‘‘۔
حضرت عمرؓ کے مسلمان ہوجانے سے اسلام کی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوگیا، اس وقت چالیس یا اس سے کچھ کم و بیش آدمی دائرۂ اسلام میں داخل ہوچکے تھے لیکن وہ نہایت بے بسی و مجبوری کے عالم میں تھے، اعلانیہ فرائض مذہبی ادا کرنا تو درکنار اپنے کو مسلمان ظاہر کرنا بھی خطرہ سے خالی نہ تھا اور کعبہ میں نماز پڑھنا تو بالکل ناممکن تھا، حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے دفعۃً حالت بدل گئی، انھوں نے اعلانیہ اپنے اسلام کا اظہار کیا، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مشرکین کو جمع کر کے بآواز بلند اپنے ایمان کا اعلان کیا، مشرکین نہایت برافروختہ ہوئے لیکن عاص بن وائل نے جو رشتہ میں حضرت عمرؓ کے ماموں تھے ان کو اپنی پناہ میں لے لیا، حضرت عمرؓ قبول اسلام سے پہلے اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کی مظلومیت کا تماشہ دیکھتے تھے اس لیے شوق مساوات نے اسے پسند نہ کیا کہ وہ اسلام کی نعمت سے متمتع ہونے کے بعد عاص بن وائل کی حمایت کے سہارے اس کے نتائج سے محفوظ رہیں، اس لیے انھوں نے پناہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور برابر ثبات و استقامت کے ساتھ مشرکین کا مقابل کرتے رہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ برابر جا کر کعبہ میں نماز ادا کی، یہ پہلا موقع تھا کہ حق باطل کے مقابلہ میں سربلند ہوا اور حضرت عمرؓ کو اس صلہ میں دربار نبوت سے ’’فاروق‘‘ کا لقب مرحمت ہوا۔
حضرت عمرؓ سنہ ۷ نبوی میں اسلام لائے تھے اور سنہ۱۳ نبوی میں ہجرت ہوئی، اس طرح گویا انھوں نے اسلام لانے کے بعد تقریباً ۶۔۷ برس تک قریش کے مظالم برداشت کئے، جب مسلمانوں کو مدینہ کی جانب ہجرت کی اجازت ملی تو حضرت عمرؓ بھی اس سفر کے لیے آمادہ ہوئے۔
ہجرت کرنے والوں کو قریش مکہ کی سخت مزاحمت کا مقابلہ کرنا پڑا، حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ حضرت عیاش بن ربیعہؓ اور حضرت ہشامؓ صحابی بھی ان کے ساتھ مدینہ چلنے کو تیار ہوئے تھے، حضرت عیاشؓ تو روانگی کے وقت جائے مقررہ پر پہنچ گئے مگر ہشامؓ کے بارے میں کفار کو خبر لگ گئی، ان کو قریش نے قید کردیا، حضرت عیاشؓ مدینہ جاپہنچے کہ ابوجہل مع اپنے بھائی حارث کے مدینہ پہنچا، عیاشؓ ان کے چچیرے بھائی تھے اور تینوں کی ماں ایک تھی، ابوجہل و حارث نے کہا: ’’تمہارے بعد والدہ کی بری حالت ہو رہی ہے، اس نے قسم کھالی ہے کہ عیاشؓ کا منہ دیکھنے تک نہ سر میں کنگھی کروں گی، نہ سایہ میں بیٹھوں گی، اس لیے بھائی تم چلو اور ماں کو تسکین دے کر آجانا‘‘، عمر فاروقؓ نے کہا: ’’عیاش! مجھے تو فریب معلوم ہوتا ہے، تمہارے ماں کے سر کوئی جوں پڑگئی تو وہ خود ہی کنگھی کر لے گی اور مکہ کی دھوپ نے ذرا خبر لی تو وہ خود ہی سایہ میں جا بیٹھے گی، میری رائے تو یہ ہے کہ تم کو جانا نہیں چاہیے‘‘، عیاشؓ بولے: ’’نہیں میں والدہ کی قسم پوری کر کے واپس آجاؤں گا‘‘، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اچھا اگر یہی رائے ہے تو سواری کے لیے میرا ناقہ لے جاؤ یہ بہت تیز رفتار ہے، اگر راستہ میں ذرا بھی ان سے شبہ گزرے تو تم اس ناقہ پر بآسانی ان کی گرفت سے بچ کر آسکو گے‘‘، حضرت عیاشؓ نے ناقہ لے لیا، یہ تینوں چل پڑے، ایک روز راہ میں (مکہ) کے قریب ابوجہل نے کہا: ’’بھائی ہمارا اونٹ تو ناقہ کے ساتھ چلتا چلتا رہ گیا، بہتر ہے کہ تم مجھے اپنے ساتھ سوار کرلو‘‘۔ عیاشؓ بولے: بہتر ہے، جب عیاشؓ نے ناقہ بٹھایا تو دونوں نے انہیں پکڑ لیا، مشکیں کس لیں اور مکہ میں اسی طرح لے کر داخل ہوئے، یہ دونوں بڑے فخر سے کہتے تھے کہ ’’دیکھو کہ بیوقوفوں اور احمقوں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں‘‘، اب عیاش کو بھی ہشامؓ کے ساتھ قید کردیا گیا، جب نبی ﷺ مدینہ منورہ پہنچ گئے تب حضورﷺ کی تمنا پوری کرنے کے لیے ولید بن مغیرہؓ مکہ آئے اور قید خانہ سے دونوں کو راتوں رات نکال کر لے گئے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قبول اسلام۔ص: ۴۱۔۴۷
مرتب: عبدالعلیم ندوی، طبع اول ۱۴۳۷ھ