- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اختلاف کا علاج

اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف نعمتوں سے نواز اہے، اس نعمت نوازی میں ایک درجہ کی یکسانیت بھی ہے اور ایک حد تک تفاوت بھی، جیسے اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو دوکان، دو آنکھیں، دو ہاتھ اور دو پاؤں دیے ہیں؛ لیکن سننے کی صلاحیت، دیکھنے کی قوت، کسی چیز کو اپنی گرفت میں لانے اور چلنے کی طاقت یکساں نہیں ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بہت بڑی نعمت عقل کی عطا فرمائی ہے، جو دوسرے جانداروں کے مقابلہ میں انسان کا امتیازی وصف ہے، عقل کے ذریعہ انسان سوچتا ہے، سمجھتا ہے اور رائے قائم کرتا ہے، جیسے انسان کی دوسری صلاحیتوں میں تفاوت اور فرق پایا جاتا ہے، اسی طرح انسان کی سوچ اور رائے میں بھی تفاوت ہوتا ہے، اس کی وجہ سے بہت سی باتوں کے بارے میں نقطۂ نظر کا اختلاف سامنے آتا ہے، اسلام نے بھی اس اختلاف کو تسلیم کیا ہے، دین کے دائرہ میں رہتے ہوئے جو اختلاف ہو، اس کا معاملہ تو نسبتاََ کم درجہ کا ہے، خود دین حق وباطل کے درمیان جو اختلاف ہو، اس کے بارے میں بھی اسلامی تعلیمات اسی اصول پر مبنی ہیں؛ اگرچہ آخرت میں نجات ایمان پر موقوف ہے؛ لیکن دنیا کے نظام میں ایسا نہیں ہے کہ جو شخص ایمان نہ لائے، اس کو زندہ رہنے کا حق نہ ہو، اس کی جان ومال اور عزت وآبرو کا احترام واجب نہ ہو، اور اس کو ایمان لانے پر مجبور کیاجائے؛ کیوں کہ عقل کا اختلاف فطرت انسانی کا حصہ ہے اور اسلام دین فطرت ہے۔
اسی وجہ سے مسلمانوں میں بھی عہد صحابہ سے اختلاف رہا ہے، یہ اختلاف عقائد میں بھی ہوا اور فروعی وفقہی مسائل میں بھی، اور مختلف ادوار میں نئے نئے مسلکی گروہ بھی پیدا ہوتے رہے؛ لیکن علماء کا ہمیشہ یہی رویہ رہا کہ اپنے نقطۂ نظر کو دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے، اور مخالف نقطۂ نظر اگر گمراہی کے درجہ کو پہنچا ہوا نہیں ہو تو اپنی بات اس طرح پیش کی جائے کہ دوسرے نقطۂ نظر کے مکمل طور پر باطل اور بے اصل ہونے کا گمان پیدا نہ ہو، اہل سنت والجماعت میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور حنابلہ کے درمیان فکری اختلاف، فقہی مذاہب کا اختلاف اور اشغال تصوف میں مختلف سلاسل کا اختلاف اسی نوعیت کا رہا ہے، اور اگر یہ اختلاف اس درجہ کا ہو کہ دوسری رائے نہایت گمراہ کن اور ناقابل قبول ہو توصحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنے نقطۂ نظر کو دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے او ردوسرے نقطہ نظر کا غلط ہونا حسب ضرورت واضح کیا جائے، اور اگر اس بات کوکچھ لوگ قبول نہ کریں تو ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا، اور نہ اسلامی حکومت کے علاوہ کسی کو حق ہے کہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرے، جب کفر کے خلاف صرف ایمان نہ لانے کی وجہ سے طاقت کا استعمال کرنے کو منع فرمایا گیا ہے، تو کسی مسلمان گروہ کے بارے میں اس رویہ کی اجازت کیوں کر دی جاسکتی ہے؟ اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اگرکسی کی فکر سے اختلاف ہو تو اس کی ذاتی کمزوریوں کو موضوع نہ بنایا جائے، اہانت کا راستہ اختیار نہ کیا جائے؛ کیوں کہ اس میں انسان کی نفسانیت شامل ہو جاتی ہے، اور بہت سی باتیں سنی سنائی ہوتی ہیں، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، یا حقیقت بہت کم ہوتی ہے اور اس پر جھوٹ اوربہتان تراشی کا دبیز غلاف چڑھا دیا جاتا ہے۔
پچھلے دنوں بنگلہ دیش میں تبلیغی جماعت کے دو گروہوں کے درمیان جو تصادم ہوا، وہ نہ صرف جماعت کے وابستگان یا اس کے مؤیدین کے لئے حیرت انگیز اور ناقابل تصور تھا؛ بلکہ جن لوگوں کو جماعت سے تنظیمی یا فکری اختلاف ہے، وہ بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے تھے، ایک معتبر عالم دین، صاحب افتاء اور ہندوستان کی ایک مرکزی درس گاہ کے استاذ حدیث سے گزشتہ دنوں اس سلسلہ میں بات ہوئی ،وہ اس وقت ڈھاکہ ہی میں مقیم تھے اور جھگڑے کی جگہ سے بالکل قریب ان کا قیام تھا، صورت حال یہ سامنے آئی کہ دونوں گروہوں نے الگ الگ تاریخوں میں اپنے اجتماعات مقرر کر رکھے تھے ،جن کو اسی مقام پر ہونا تھا، اور دونوں نے اجتماع کی تیاری کے لئے تاریخوں کے فرق کے ساتھ مشاورتی نشست کا بھی اہتمام کیا تھا، جس روز ایک گروہ کا مشاورتی پروگرام طے تھا، اس سے ایک دن پہلے ہی دوسرے گروہ نے اپنے لوگوں کو اس مقرر جگہ پر لا کر بٹھا دیا اور اس میں بھی دینی مدارس کو استعمال کرتے ہوئے بڑی تعداد میں طلبہ کو متعین کر دیا گیا، اب جب وقت مقررہ پر دوسرے گروہ کے افراد پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ یہاں دوسرے گروہ نے قبضہ کر رکھا ہے ،رُکاوٹ بھی ڈال دی ہے، اور انہیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں کو آج وہاں مشورہ کی اجازت دی گئی تھی، ان کے لوگ جوق در جوق آنا شروع ہوئے اور ٹکراؤ کی فضاء پیدا ہوئی، پولس بھی کنٹرول نہیں کر سکی، اندر سے پتھر پھینکے جانے لگے، اس میں خاصے لوگ زخمی ہو گئے، اور اسی زخم کی تاب نہ لا کر ایک شخص کی شہادت ہوئی، دوسری طرف جب یہ حضرات رکاوٹیں دور کر کے اندر گھسے تو ان کو جو بھی چیز ملی، اس سے اندر والوں کی پـٹائی کی اورکافی لوگ زخمی ہوئے، یہاں تک کہ ہر سال جو اجتماع وہاں ہوا کرتا تھا، بنگلہ دیش حکومت نے فی الحال اس سے منع کر دیا، یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ لڑائی وہاں شہر شہر قصبہ قصبہ پہنچ گئی ہے، یہ نہایت ہی افسوسناک واقعہ ہے، اگر مسلمان مسلمان ہونے کی وجہ سے اعدائے اسلام کے ہاتھوں زخمی ہوتے تو اس درجہ افسوس کی بات نہیں ہوتی، جتنی افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ مارنے والے بھی داڑھی، ٹوپی اور عمامہ والے ہیں اور مار کھانے والے بھی، دونوں طرف مسلمان، دونوں طرف بظاہر دین دار، دونوں ایک ہی مشن سے متعلق اور دونوں ایک ہی مقصد کے دعوے دار۔
ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ اس صورت حال کا علاج کیا ہے؟ اور ظاہر ہے کہ ہمارے لئے اس مرض کی وہی دوا باعث شفاء ہو سکتی ہے ،جو قرآن مجید کی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر مبنی ہو، قرآن مجید نے ہمیں پہلی تعلیم یہ دی ہے کہ ہم شیروشکر ہو کر زندگی گزاریں ، اختلاف سے بچیں اور اتحاد کا راستہ اختیار کریں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کی رسی یعنی دین حق کو مضبوطی سے تھام لو اور یہ تھامنا اختلاف وانتشار کے ساتھ نہیں ہو ،وحدت واجتماعیت کے ساتھ ہو: واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرّقوا (آل عمران: ۱۰۳) اور قرآن مجید نے یہ بات بھی صاف کر دی کہ اہل ایمان اگرچہ دین پر قائم ہوں، پھر بھی اگر وہ اختلاف وانتشار سے دور نہ رہیں تو ان کی ہوا اُکھڑ جائے گی: ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم (انفال: ۴۶) اور اگر اختلاف دور نہ ہو پائے تو پھر صلح کی کوشش کی جائے، قرآن نے کہا ہے کہ صلح ایک بہتر عمل ہے: والصلح خیر (نساء: ۱۲۸) صلح آخرت کے اعتبار سے تو بہتر ہے ہی، دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر راستہ ہے؛ کیوں کہ اس میں نہ کوئی فریق جیتتا ہے اور نہ کوئی فریق ہارتا ہے، مسلمان تو مسلمان ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی ہمیشہ صلح کی کوشش فرمائی ہے، مکی زندگی میں بھی آپ چاہتے تھے کہ مشرکین مکہ سے ایسی صلح کی صورت نکل آئے کہ مشرکین اور مسلمان دونوں امن وامان کے ساتھ رہ سکیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو پہلا کام یہی کیا کہ یہود کے ساتھ ایک صلح کی ، باضابطہ اس کے لئے دستاویز مرتب کی اور سبھوں کے دستخط لئے، پھر آپ نے عرب کے مختلف قبائل کے ساتھ صلح کی، جس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے صلح حدیبیہ فرمائی ،جس میں بظاہر اہل مکہ کی تمام شرطوں کو آپ نے قبول فرما لیا اور بہت سے مسلمان بھی محسوس کرنے لگے کہ اس صلح میں اہل مکہ کی زیادہ رعایت کی گئی ہے، تو جب غیر مسلموں سے صلح کی جاسکتی ہے تو اہل قبلہ ،اہل ایمان اور ایک ہی مسلک ومشرب سے تعلق رکھنے والے مختلف گروہ کیوں آپس میں صلح نہیں کر سکتے؟
نہ صرف مسلمان فریقوں کا فریضہ ہے کہ وہ خود صلح کی طرف اپنے قدم بڑھائیں؛ بلکہ دوسرے مسلمانوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تماشہ بیں نہ بنیں، جیسے لوگ کُشتیوں کے مقابلے دیکھتے ہیں، اور تالیاں بجاتے ہیں، اسی طرح مسلمان اپنے بھائیوں کے اختلاف میں تماشہ دیکھنے والے، تالیاں بجانے والے اور کبھی اس فریق کو اور کبھی دوسرے فریق کو داد دینے والے نہ بن جائیں؛ بلکہ ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں؛ چنانچہ ارشاد ہے کہ ایک مؤمن دوسرے مؤمن سے بے تعلق نہیں ہو سکتا، مسلمان بھائی بھائی ہیں؛ لہٰذا جب ان کے درمیان نزاع پیدا ہو جائے تو تمہاری ذمہ داری ہے کہ ان کے درمیان صلح کرادو: انما المؤمنون اخوۃ فأصلحوا بین أخویکم (حجرات: ۱۰)
صلح کی اعلیٰ شکل تو یہ ہے کہ دونوں مل کر ایک ہو جائیں، اگر ایسا نہ ہو سکے تودوسری شکل ہے :عمل کااشتراک، کہ دونوں چاہے تنظیمی طور پر متحد نہ ہوں، اپنے اپنے طور پر کام کریں؛ لیکن ایک دوسرے کے ساتھ مشترک چیزوں میں تعاون وتناصر قائم رہے، آپ کسی گروہ کے ساتھ مل کر مستقل طور پر کام نہ کریں؛ لیکن اگر وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے ساتھ بہتر سلوک کریں اور جس حد تک آپ کو اتفاق ہے، اُس حد تک ان کے ساتھ رہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں اہل کتاب سے فرمایا گیا کہ اگرچہ ہمارے درمیان بہت سارااختلاف ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیںاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہمارے ایمان کی اساس ہے، اور اہل کتاب اس کو نہیں مانتے؛ لیکن کم سے کم توحید وآخرت کے عقیدہ کو ہم دونوں تسلیم کرتے ہیں، تو اسی مشترک ایجنڈے کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے کو قبول کر لیں۔
صلح کی تیسری صورت تقسیم کی ہوتی ہے،چاہے تقسیم کام کے اعتبار سے ہو یا وقت کے اعتبار سے ،یا علاقہ اور مقام کے اعتبار سے، مثلاََ فلاں علاقہ میں آپ کام کریں اور فلاں علاقہ میں ہم کام کریں گے، یا فلاں مسجد میں آپ کا اجتماع ہو اور دوسری مسجد میں ہمارا اجتماع ہو، ہم ایک دوسرے کے معاملہ میں دخل انداز نہ ہوں، یہ بھی اختلاف کو دور کرنے کی ایک مضبوط بنیاد ہوتی ہے، اسلام کے سیاسی نظام کی بنیادی سوچ یہی ہے کہ پورا دارالاسلام اور تمام مسلم علاقے ایک ہی جھنڈے کے نیچے ہوں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد تک یہی کیفیت برقرار رہی، خلیفہ راشد سیدنا حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں اہل شام نے الگ مملکت قائم کر لی، اس وقت بعض صحابہ اور اکابر تابعین کی رائے یہی تھی کہ یہ اپنی اپنی جگہ رہیں، جنگ سے بچیں؛ تاکہ مسلمانوں کی خوں ریزی نہ ہو، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد نواسۂ رسول حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایثار سے کام لیتے ہوئے اقتدار سے دست برداری اختیار کی اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشین گوئی پوری ہوئی کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ امت کے دو گروہوں میں اتحاد پیدا فرمائے گا، پھر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پورے عالم اسلام کے فرماں روا ہوئے، بنو امیہ کے نوے سالہ اقتدار کے بعد بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی اور افسوس کہ بنو امیہ اور پھر بنو عباس کا یہ پورا دور کچھ نیک دل حکمرانوں کو چھوڑ کر آپسی کشا کش اور قتل وخوں ریزی کا رہا۔
عباسی دور میں اندلس کے علاقہ پر بنو امیہ کی حکومت قائم ہو گئی تھی، دارالاسلام کی وحدت کا جو تصور تھا،اب اس کا تحقق اسی طرح ہو سکتا تھا کہ یا تو بنو عباس اسپین پر اپنا اقتدار قائم کر لیں، یا بنو امیہ عالم اسلام کے اس وسیع خطہ کو اپنے ساتھ ملا لیں؛ تاکہ دارالاسلام کی وحدت برقرار رہے؛ لیکن بعد کے فقہاء نے اس بات کی گنجائش نکالی کہ ایک سے زیادہ مسلم مملکتیں بھی ہو سکتی ہیں، اس میں مملکت اسلامی کے پھیلاؤ کے علاوہ غالباََ یہ بات بھی پیش نظر تھی کہ اگر اس کو تسلیم نہ کیا جائے تو ایسی صورت حال میں ہر مسلم حکمراں دوسرے کے زیر اقتدار خطہ کو اپنے قبضہ میں لینا چاہے گا، اور انجام کار مسلمانوں کی خون ریزی ہوگی، یہ مصلحت کے اعتبار سے بہت اچھی رائے تھی؛ چنانچہ بعد کو ایک ہی عہد میں کئی مسلم مملکتیں قائم ہوئیں اور انہوں نے اپنے اپنے حلقۂ اقتدار میں حکمرانی کا نظم چلایا، یہ گویا ایک تقسیم تھی، جس کے ذریعہ مصالحت کی راہ نکالی گئی، اسی طرح جب مسلمانوں کے مختلف گروہوں اور تنظیموں میں اختلاف کی صورت پیدا ہوجائے تو ایک ایسی درمیان راہ نکالی جا سکتی ہے کہ دونوں کا وجود باقی رہے، ایک دوسرے کے نظام میں دخل اندازی نہ کریں اور تقسیم کی کوئی صورت ایسی بن جائے کہ ٹکراؤ کے مواقع پیدا نہ ہوں۔
اتحاد ، اشتراک اور تقسیم کے علاوہ آخری راستہ یہ ہے کہ دونوں فریق اختلاف رائے کو برداشت کرنے پر آمادہ ہو جائیں، چاہے آپ کے خیال کے مطابق آپ حق پر اور دوسرا فریق غلطی پر ہو؛ لیکن آپ اپنی بات تو دلیل کے ساتھ پیش کریں اور اپنے طریقۂ کار کے مطابق کام کریں؛ مگر دوسروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں، جب کفر کے باوجود کسی کو غیر مسلم اپنے نقطۂ نظر کو ماننے پر مجبور نہیں کر سکتا تو یہ بات کیسے روا ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ دوسرے کو مجبور کرے، ہمیں یہ حق ہے کہ ہم اپنے نقطۂ نظر کو صحیح سمجھیں؛ لیکن ہمیں اس بات کا حق نہیں ہے کہ ہم چاہیں کہ ساری دنیا خواہی نہ خواہی ہماری بات کو قبول کرلے،یہاں تک کہ مفتی کی بھی ذمہ داری صرف اس قدر ہے کہ اگر اس سے کوئی بات دریافت کی جائے تو وہ اس کے بارے میںاپنے فہم کے مطابق شرعی نقطۂ نظر کو پیش کردے، اور اگر دو گروہوں اور تنظیموں کا اختلاف ہو تو بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ دونوں طرف کے ذمہ داروں کو بلا کر ان کو سمجھائے اور اگر دونوں یا کوئی ایک گروہ آنے پر آمادہ نہ ہو تو دین کے وسیع تر مفاد کے لئے دونوں فریق کے پاس جا کر اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلۂ بنو سلمہ کے دو خاندانوں میں پیدا ہونے والے اختلاف کی بنا پر خود تشریف لے گئے اور صلح کا راستہ نکالا؛ لیکن اگر فتویٰ دینا ہی ضروری ہو جائے تو مفتی کا کام صرف فتویٰ دینا اور شرعی نقطۂ نظر کو واضح کرنا ہے ،فتوے کو نافذ کرنا نہیں ہے۔
بہر حال جہاں نہ دونوں گروہوں میں مکمل اتحاد کا راستہ نکل سکے، نہ اشتراک وتعاون کا اور نہ قابل قبول تقسیم کار کا، تو وہاں ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے، اور وہ ہے اپنی رائے پر استقامت کے ساتھ دوسروں کو برداشت کر لینا، قرآن مجید نے اہل کفر کے بارے میں یہ بات فرمائی کہ اگروہ ایمان نہیں لا سکتے اور توحید کو قبول نہیں کرتے تو اب یہی راستہ ہے کہ اپنے اپنے طریقہ پر رہیں اور ایک دوسرے پر جبروتشدد سے بچیں: لکم دینکم ولی دین (کافرون: ۶) ایک اور موقعہ پر فرمایا گیا : ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، ایک شخص کو دوسرے شخص کے اعمال کا جواب دینا نہیں ہے، لنا أعمالنا ولکم أعمالکم (شوریٰ: ۱۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کی ہدایت کے لئے جس طرح بے قرار رہتے تھے، قرآن نے اس پس منظر میں کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام دعوت دینا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے: لست علیھم بمصیطر (غاشیۃ: ۲۲)
تبلیغی جماعت کی تحریک اس صدی میں اُٹھنے والی سب سے بڑی اسلامی تحریک ہے، جس کے اثرات پُر رونق شہروں سے لے کر دور دراز کے دیہاتوں تک، علماء سے لے کر جدید تعلیم یافتہ لوگوں تک، پڑھے لکھوں سے لے کر ناخواندہ اور ان پڑھ بھائیوں تک، شاہی درباروں سے لے کر غریبوں کی جھونپڑیوں اور ایک حد تک مسلمانوں سے لے کر غیر مسلموں تک وسیع ہیں، اور یہ اس تحریک کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ کے اخلاص اور جذبۂ دروں کا اثر ہے، اس کام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت ومدد دوپہر کی دھوپ کی طرح واضح ہے، جو لوگ اس کام میں عملی طور پر لگے ہوئے ہیں، وہ بہت مبارک اور خوش قسمت ہیں اور ہم جیسے تہی دامان عمل کے لئے سرمایۂ رشک بھی ہیں؛ لیکن ان احباب سے عرض ہے کہ اگر آپ کی تنگ نظری کی وجہ سے یہ کام بکھر جائے تو آپ جیسا کم نصیب بھی کوئی نہیں؛ اس لئے آپ کا فریضہ ہے کہ اتحاد کی طرف بڑھیں، اور یہ نہ ہو سکے تو اشتراک اور تقسیم کار کے ذریعہ کام کریں اور کم سے کم اتنا تو ضرور ہو کہ اپنا کام کرتے رہیں اور دوسرے بھائیوں کو بھی برداشت کریں، یہ اکرام مسلم کا کم سے کم تقاضہ ہے!
علماء سے بھی یہی درخواست ہے کہ آپ داعی بنیں داروغہ نہ بنیں، اگر آپ سے کوئی بات پوچھی جاے تو جو بات آپ کو سمجھ میں آئے، انہیں بتا دیجئے؛ لیکن بتانے میں غلو نہیں ہو، مُنکَر جس درجہ کا ہو، نکیر بھی اسی درجہ کی ہونی چاہئے، مثال کے طور پر بنگلہ دیش ان دو تین مسلمان ملکوں میں ہے ،جہاں سب سے زیادہ عیسائیت پھیل رہی ہے، جہاں قادیانی مشن پوری قوت کیساتھ سرگرم ہے اور ان ارتدادی سازشوں کے خلاف وہاں کی حکوت نے کبھی کوئی قدم نہیں اُٹھایا، اسی طرح وہاں لادینیت اور الحاد بھی روز بروز بڑھ رہا ہے، سودی نظام کو تقویت پہنچائی جا رہی ہے، کتنے روہنگیائی مسلمان ہیں کہ بنگلہ دیش کے اجازت نہ دینے کی وجہ سے وہ سمندر میں غرق ہو گئے، انہیں بنگلہ دیش کے ایک ایسے غیر آباد جزیرے میں آباد کرنے کی بات چل رہی ہے کہ سمندر کا ایک طوفان پوری آبادی کو غرق آب کر کے رکھ دے گا؛ مگر افسوس کہ ان فتنوں کے خلاف وہاں کے علماء نے کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی ،نہ جذبۂ حمیت نے جوش مارا، نہ ان کی رگِ غیرت پھڑکی؛ لیکن آپسی اختلاف میں اس قدر جوش کا مظاہرہ کیا گیا کہ گویا غزوۂ بدر اور غزوہ ٔ اُحد میں شرکت کے لئے جا رہے ہوں، یہ بے بصیرتی کی بات ہے کہ انسان اصل دشمن کا ادراک نہ کر پائے اور اپنے آپسی اختلافات میں الجھ کر رہ جائے۔
تبلیغی احباب کا فریضہ ہے کہ وہ ایسے معاملات میں فیصلے کے لئے چند ایسے علماء کا انتخاب کریں، جو دونوں گروہوں کے نزدیک متفق علیہ ہوں، علماء کا کام یہ ہے کہ وہ پوری درد مندی کے ساتھ اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کریں،خود فریق بننے سے بچیں، ضرورت پڑے تو لوگوں کی خوشامد کریں اور اگر اتفاق کی شکل پیدانہ ہو تو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی تلقین کریں اور اگر کسی خاص بات کے بارے میں سوال کیا جائے تو مستفتی پر اس کا جواب واضح کر دیں، ہمارے ملک میں اجتماعات صرف تبلیغی احباب ہی کے نہیں ہوتے ، مختلف جماعتوں کے ہوتے ہیں، دیوبندیوں کے بھی ہوتے ہیں ،بریلویوں کے بھی، جماعت اسلامی کے بھی ہوتے ہیں، اور اہل حدیث کے بھی، اس وقت جمعیۃ علماء ہند کے بھی دو حلقے قائم ہوگئے ہیں اور دونوں کے اجتماعات ہوتے ہیں، سوچئے کہ اگر مسلمانوں میں یہ ذہن بن جائے کہ ہمارے ہم فکر لوگوں ہی کا اجتماع ہو، دوسروں کا نہ ہو، اور اس کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے تو امت میں کیسا انتشار پیدا ہوگا، ملت اسلامیہ کس طرح بکھر کر رہ جائے گی؟ اور ہم بنیان مرصوص بننے کی بجائے ایک ایسی شکستہ دیوار بن جائیں گے، جس کی ہر اینٹ ایک دوسرے سے الگ ہو ۔ وباللہ التوفیق وھو المستعان

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)