- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

سیرت نبوی اور عصر حاضر میں اس کی معنویت و افادیت

نوٹ: یہ تقریر ۲۱؍جون ۱۹۸۰ء کو بعد نماز عصر بمبئی کی ایک قدیم و کارگزار انجمن ’’انجمن اسلام‘‘ کے ایک وسیع و عریض ہال میں علم دوست احباب کے ایک عظیم مجمع کے سامنے ’’عصر حاضر میں سیرت نبوی کی اہمیت و معنویت اور منصب نبوت‘‘ کے عنوان پر کی گئی تھی۔
حضرات! عام مسلمانوں کے لئے مجموعی طور پر اور اہل بمبئی کیلئے خصوصی طور پر یہ بڑی مسرت، شکر اور فخر کا موقع ہے کہ سیرت نبوی ﷺ پر خطبات کا آغاز ہو رہا ہے میں اپنی محدود واقفیت اور مطالعہ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ سیرت نبوی پر سب سے زیادہ ٹھوس، سنجیدہ فکرانگیز اور معیاری کام ہمارے ملک ہندوستان میں انجام پایا ہے، ہم ہندوستانی مسلمانوں کو اس بات پر شکر آمیز فخر کا حق ہے کہ وہ نبی رحمت ﷺ جس کے متعلق قرآن شریف اعلان کرتا ہے۔ ’’قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا‘‘ جو مکانی حیثیت سے پوری کرۂ ارض اور زمانی حیثیت سے بعثت کے بعد سے پوری انسانی تاریخ کا نبی ہے، اس کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو عصر جدید کے اسلوب اور تقاضوں کے مطابق روشن کرنے کی سب سے بڑی سعادت ہندوستانی مسلمانوں کو حاصل ہوئی، قاضی محمد سلیمان صاحب منصور پوری رحمہ اللہ کی ’’رحمۃ للعالمین‘‘، علامہ شبلی نعمانیؒ کی کتاب ’’سیرۃ النبی‘‘ مولانا عبدالرؤف دانا پوری کی کتاب ’’اصح السیر‘‘ سیرت کے عالمگیر کتب خانے میں امتیازی شان رکھتی ہیں، لیکن اہمیت اور افادیت کے لحاظ سے شاید سب سے فائق، استاد محترم مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی ’’خطباتِ مدارس‘‘ ہے، دنیا کے مسلمان جو زبان بولتے ہیں، ان میں ان کتابوں کی کوئی نظیر نہیں، مختلف اسلامی زبانوں اور متعدد مغربی زبانوں میں ان کے ترجمے ہوئے ہیں۔
بہت سے حضرات یہ خیال کرتے ہوں گے کہ سیرت النبی ﷺ کی خدمت کا شرف جس ادارے کو حاصل ہوا، اس سے انتساب رکھنے والے فرد کے لئے اور خاص طور پر اگر اس کے قلم سے بھی کوئی کتاب سیرت پر نکلی ہو، بہت آسان ہے کہ وہ سیرت پر گفتگو کرے اور سیرت نبوی کو پیش کرے، لیکن ایک مصنف کے تجربے کی روشنی میں، میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بات سہولت کی باعث نہیں، بلکہ دشواری کی باعث ہے، اس لئے کہ جس کو سیرت پر قلم اٹھانے کی سعادت حاصل ہوئی وہ کسی ایسے ادارے سے تعلق رکھتا ہے، جس سے سیرت پر بلندترین اور منتخب ترین لٹریچر شائع ہوا، اس کا معاملہ سیرت نبویﷺ کے بارے میں وہی ہے جس کو فارسی شاعر نے اپنے مشہور شعر میں بیان کیا ہے:
دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
گلچین بہار تو، زداماں گلہ دارد
وہ سوچتا ہے کہ وہ اس مقدس داستان کو کہاں سے شروع کرے اور کہاں ختم کرے، اور کس چیز کو لے اور کس چیز کو چھوڑ دے، جس طرح کہ گلچیں کے لئے دشواری ہے کہ وہ کس پھول کولے اور کس پھول کو چھوڑ دے، اور پھر اس دامن کو جو بہت محدود اور تنگ ہے، اس چمن کے پھولوں سے کس طرح سجائے، بالکل اسی طرح کی آزمائش آج میرے لئے بھی ہے، میں یہ کوشش نہیں کروں گا کہ آپ کے سامنے سیرت نبوی ﷺ کو اول سے آخر تک سبق کی طرح سنادوں، آپ حضرات اہل علم ہیں اور آپ کی نظر سے سیرت کی کتابیں گزر چکی ہیں، اور گزرتی رہتی ہیں، میں اپنی سب سے بڑی سعادت یہ سمجھوں گا کہ آپ کے دلوں میں سیرت کے مطالعے کا نیا شوق پیدا ہوجائے، اور یہ احساس پیدا ہوجائے کہ ابھی آپ کو بہت کچھ پڑھنا ہے، ابھی آپ نے اس گلستاں کی سیر ہی نہیں کی ہے، اور یہ کہ آپ اس مکتب حسن، اس مکتب عشق، اس مکتب عقل و علم، اس مکتب انسانیت آموزی کے طالب علم ہیں، میں اپنے کو بہت خوش نصیب سمجھوں گا اور آپ کو مبارک باد دوں گا کہ سیرت کے مکتب میں ہمارا اور آپ کا نام لکھ لیا جائے، اس سے بڑھ کر میں ایک مسلمان کے لئے کوئی فخر کی بات نہیں سمجھتا کہ اس کو اس مکتب عشق میں طالب علم بننے کے لئے قبول کرلیا جائے، ہم آج سے سیرت کا مطالعہ کریں گے اور یقین ہے کہ یہ سلسلہ بڑا مبارک ہوگا، اور اس کے بانی صدہزار مبارک باد کے مستحق ہوں گے، اگر آپ کے اندر یہ جذبہ بیدار ہوجائے کہ اب ہم سیرت کا مطالعہ کریں گے اور ہم یہ سمجھیں گے کہ ابھی ہم نے کچھ نہیں پڑھا ئے۔
میں سب سے پہلے آپ کے سامنے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نبی کیا کام کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے اس کو یہ مقام بلند حاصل ہے، جو ذمہ داری اس کے سپرد کی جاتی ہے، اس کی نوعیت کیا ہے؟ او روہ نوع انسانی کے لئے اتنا کیوں ضروری ہے؟ رواں دواں قافلۂ انسانیت کے سفر کے لئے یہ بات کیوں خطرے کی ہے کہ اس کو اس سفر میں ایک پیغامبر کی رہنمائی حاصل نہیں، میں سب سے پہلے اس پر مختصر روشنی ڈالوں گا پھر یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ نبی کے کام کی نوعیت کیا ہے؟ نبوت کی حقیقت اور اس کا امتیاز کیا ہے اور اس اہم اور مقدس کام کے لئے کس طرح کی شخصیت درکار ہے؟ آنحضرت ﷺ کو انبیاء کرام کی صف میں اللہ تعالی نے کیا امتیاز عطا فرمایا اور کیا کامیابی آپ ﷺ کے حصے میں رکھی، میں یہ بتانے کے لئے کہ نبوت کا کام ضروری ہے کہ اس کے بغیر انسانیت کے سفینے کے لئے خطرہ ہے کہ وہ کس وقت ڈوب جائے، وہ کون سی مہم ہے، جو نبی ہی انجام دیتا ہے، اور وہ کون سا خلاء ہے جو وہ تنہا پُر کرتا ہے اس کے لئے میں ایک کہانی کا سہارا لوں گا، اور آپ جانتے ہیں کہ بعض اوقات کہانیوں سے بہت سے ایسے عُقدے اور ایسی گتھیاں سلجھ جاتی ہیں جو بڑی بڑی فلسفیانہ بحثوں سے نہیں سلجھتیں، خاص طور پر جب وقت کم ہو اور آدمی زیادہ گہرائی میں نہ جانا چاہے۔
آپ نے یہ کہانی سنی ہوگی کہ کچھ نوجوان کو سیر کا خیال آیا، وہ دریا کے قریب کسی بستی کے رہنے والے تھے، برسات کا موسم تھا، سہانا وقت تھا، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، اور فرصت کے دن تھے، ان کو شوق ہوا کہ وہ دریا کی سیر کریں اور موسم کا لطف اٹھائیں، ایک کشتی انہوں نے کرائے پر لی، اس پر سوار ہوئے، دریا بھی روانی پر تھا، اور ان کی طبعیت بھی موج پر تھی، وہ بے تکلفی سے آپس میں باتیں کرتے تھے، مگر اس وقت انہوں نے ملاح کو اپنا مخاطب بنایا، اس سے پوچھا (چچا یا دادا کہہ کر مخاطب کیا) آپ کی عمر کیا ہے؟ وہ بے چارہ بے پڑھا آدمی تھا، اس نے اپنی عمر بتائی ۶۰ سال کی عمر، ان میں سے ایک نوجوان نے کہا کہ چچا آپ نے کیا کیا پڑھا ہے؟ اس نے کہا کہ میری اوقات کیا؟ میں نے شروع ہی سے کشتی چلانے کا پیشہ اختیار کرلیا، اور مجھے پڑھنے کا موقع نہیں ملا، دوسرے تیز طرار صاحب زادے بولے کہ چچا! آپ نے جغرافیہ تو ضرور پڑھا ہوگا؟ بیچارے ملّاح نے کہا کہ میں نے اس کا نام ہی نہیں سنا، پہلے تو اس کو یہی سمجھنا مشکل ہوا کہ جغرافیہ کسی آدمی کا نام ہے، یا کسی علم کا؟ لوگوں نے کہا کہ اچھا آپ نے ہسٹری تو پڑھی ہوگی؟ پھر اس نے کانوں پر ہاتھ رکھا، پھر ان لوگوں نے جیومیٹری کو پوچھا اور ان کے کالج اور یونیورسٹی میں جو مضامین داخل تھے، ان تمام مضامین کا (SUBJECTS) انہوں نے باری باری سے نام لیا، اور اس بیچارے نے سب پر سر جھکادیا، وہ پشیمان اور شرمندہ ہوا، اس نے کہا کہ صاحب میں نے تو آج تک ایسے نام بھی نہیں سنے تھے، عمر تو پہلے پوچھ لی تھی، کہنے لگے کہ آپ نے اپنی آدھی عمر کھودی ہے، آپ نے کچھ کام کیا ہی نہیں، خیر دریااس وقت مزے میں تھا، موجیں اٹھ رہی تھیں، اور کہیں بارش بھی ہوئی تھی، اب دریا کی موجیں اس کشتی کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرنے لگیں، اور کشتی ڈانواڈول ہونے لگی، کبھی ادھر جھکتی تھی، کبھی ادھر جھکتی تھی، اب اس ملاح کی بن آئی، خدا کو اس کی عاجزی اور اس کی بے زبانی پر رحم آیا، اب ملاح کی باری آئی، اس نے کہا کہ صاحبزادو! ایک بات میں بھی پوچھتا ہوں کہ تم نے یہ سب کچھ پڑھا ہے، پیرنا بھی سیکھا ہے؟ اگر یہ کشتی الٹ گئی تو تم دریا کے پار کس طرح پہونچو گے؟ انہوں نے کہا کہ پیرنا تو ہم نے نہیں سیکھا ہے! ملاح نے کہا جاؤ تم نے اپنی پوری عمر ڈبوئی۔
انہوں نے تو یہ کہا تھا کہ تم نے اپنے آدھی عمر کھوئی، اور اس ملاح نے کہا کہ تم نے اپنی پوری عمر ڈبوئی، اگر کہیں کشتی الٹ گئی تو میں ہاتھ پیر مار کر کنارے پہنچ جاؤں گا یہ ندی دریا تو میرا گھر ہے، میں اس کی مچھلی ہوں، مگر تم نے جو بڑے بڑے ڈراؤنے نام لئے تھے (اتنی جلدی جاہل آدمی کو نام یاد نہیں ہوسکتے تھے) وہ آپ کے کیا کام آئیں گے؟ آپ اگر ڈوبیں گے تو ان میں سے کوئی چیز آپ کو نہیں بچا پائے گی، یہاں تو سیدھا سادھا پیرنا کام آئے گا، جس کو پیرنا آتا ہے یا آپ یوں کہہ لیں کہ جس کو پیرنے کی سائنس آتی ہے وہ کچھ نہ جانتے ہوئے بھی اپنی جان بچالے گا اور دریا پار کرلے گا، یا کشتی چلانا جس کو آتا ہے، وہ کشتی کنارے لگادے گا، لیکن اگر سب کچھ آتا ہے اور پیرنا ہی نہیں آتا ہے، زندگی کے اس طوفانی دریا کو جس نے عبور کرنا نہیں سیکھا اور جس نے اس کی موجوں سے جو منہ پھیلائے ہوئے بڑھتی ہیں، بچنے کا فن نہیں معلوم کیا تو اس نے یہ جو کچھ پڑھا ہے کچھ کام نہیں آئے گا۔
حضرات! ہماری اس پوری زندگی کی مثال یہی ہے، ہمارے تمام محسن، انسانی علوم کے بانی، بڑی بڑی کتابوں کے مصنف، دنیا کے دانش ور، فلسفی، حکیم، ریاضی داں اور سائنس داں یہ سب ہمارے شکریے کے مستحق ہیں، یہاں انجمن اسلام اور اس کے اسکول کے بالکل سایے کے نیچے بیٹھ کر یہ گزارش کررہا ہوں، ہم ان میں کسی کی تحقیر نہیں کرتے ہیں، خاص طور پر میرے جیسے طالب علم کی گردن ان کے احسانات کے بوجھ سے دبی جارہی ہے۔ اور میں جو آپ کے سامنے یہ دو حرف کہہ رہا ہوں اس کو بھی ان کا احسان سمجھتا ہوں، لیکن واقعہ اپنی جگہ پر واقعہ ہے، یہ وہ حقیقت ہے، جس کا اعلان امریکہ کی کسی بڑی یونیورسٹی کا لائبریری میں بھی، لیبارٹری میں بھی، بڑے سے بڑے دانش کدے اور بڑے سے بڑے ایوان علم میں بھی کیا جاسکتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے ادنی غلاموں نے بارہا اس حقیقت کا اعلان کی اہے اور ببانگ دہل کہا کہ اے دانشورو! علم کو وسعت اور ترقی دینے والو! اے انسانی عقل کے کمالات دکھانے والو! اے زمین کے خزانے کو اگلوا دینے والو! آسمان سے تارے توڑ کر لانے والو! اور اے چاند کی سطح پر پہنچ جانے والو! تم سب خطرے میں ہو، جب تک تم کو شناوری کا یہ علم نہیں آتا اور وہ حقائق اولین جن پر زندگی کی بنیاد ہے، اور یہ انسانی شیرازہ جس کی وجہ سے مجتمع ہے، اور وہ بڑے مقاصد جن کی وجہ سے اس زندگی اور اس دنیا میں معنویت پائی جاتی ہے، اگر ان پر نظر نہیں اور اگر تم نے زندگی گزارنے کا سلیقہ نہیں سیکھا جو تنہا پیغامبر سکھاتے ہیں، وہ بغیر کسی تواضع اور انکساری کے اور بغیر کسی ادنی خوف اور لحاظ کے صاف صاف کہتے ہیں ’’انما انا بشر مثلکم یوحی الی‘‘ (میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں، فرق مجھ میں اور تم میں یہ ہے کہ میری طرف وحی آتی ہے) زندگی کا سلیقہ کسی نے اگر نہیں سیکھا ہے، اور سب کچھ سیکھ لیا ہے، وہ اگر فرد ہے تو خطرے میں ہے، اگر قوم ہے تو خطرے میں ہے، اگر تمدن ہے تو خطرے میں ہے، تہذیب ہے تو خطرے میں ہے، علمی مرکز ہے تو خطرے میں ہے، کوئی تجربہ گاہ ہے تو خطرے میں ہے، قیادت کے مقام پر ہے تو خطرے میں ہے، میں نے ایک سیدھی سادی کہانی کا (جو نبوت اور نبیﷺ کے مقام سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی) سہارا لیا ہے، آج بھی دنیا کا حال یہ ہے کہ ہمیں اپنی حقیقت کا علم نہیں ہمیں معلوم نہیں کہ زندگی کیا ہے، کتنی وسیع کتنی عمیق، کتنی نازک، کتنی لطیف ہے، زندگی گزارنا کتنی بڑی ذمہ داری ہے، اس زندگی کے دریا کو عبور کرنے کے لئے اور اپنی کشتی کو پار لگانے کے لئے کن بنیادی حقیقتوں پر ایمان لانے اور ان پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے، ان کی حفاظت کرنے اور ان کو زندہ رکھنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ کیسے تعاون کی ضرورت ہے؟ آج ہمارے اس متمدن اور ترقی یافتہ دور کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کو زندہ رہنے کا فن معلوم نہیں بلکہ معلوم کرنے کی کوئی خواہش بھی اس کے اندر نہیں، پیغمبر خاص انکشافات کے مدعی نہیں ہوتے، وہ ادب اور شاعری کے دعوے دار نہیں ہوتے، وہ بہت بڑی ذہانت، موشگافی، بال کی کھال نکالنے کے مدعی نہیں ہوتے، وہ کہتے ہیں کہ زندگی کے دریا کو پار کرنے کا فن ہم سے سیکھا جاسکتا ہے، اگر تمہیں زندگی عزیز ہے، اور اگر تم انسانوں کی طرح اس دنیا میں رہنا چاہتے ہو، اگر تمہیں اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کرنا ہو، اگر تمہیں خالق کائنات کو صحیح طور پر سمجھنا، اس کا علم حاصل کرنا، اس کو راضی کرنا اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ہو تو ہم اس کے لئے حاضر ہیں، ہمیں خدا نے ا س خدمت کے لئے مامور کیا ہے، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ، نہ اس میں وہ کسی معذرت سے کام لیتے ہیں، نہ کسی فخر و تعلی سے، بالکل حقیقت پسندانہ اور عملی انداز میں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے کسی چیز کے مدعی نہیں، ہم تم سے یہ کہتے ہیں کہ زندگی گزارنے اور انسانوں کی طرح زندہ رہنے کا فن ہم سے سیکھو، سب سے پہلے یہ معلوم کرو کہ اس دنیا کو کس نے بنایا اور کس لئے بنایا، تم کہاں سے آئے تھے کہاں جاؤ گے؟ ہم نے مانا کہ تم کو سب کچھ آتا ہے مگر اپنے پیدا کرنے والے اور مقصد زندگی سے غافل ہو تو ان کمالات و ترقیات، اور تسخیر کائنات سے کیا حاصل؟ بقول اقبال ؂؂
جس نے سورج کی شعاوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں گا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
ہم مانتے ہیں کہ تم سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرسکتے ہو، چاند پر پہنچ سکتے ہو، تم سمندر کی تہ سے موتی نکال کر لاسکتے ہو، مگر سوال یہ ہے کہ تم کو آدمیوں کی طرح اس سطح زمین پر چلنا بھی آتا ہے؟ کسی مغربی فلسفی نے ایک مشرقی دانشور سے بہت فخر و ناز سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے ہماری مغربی تہذیب نے کیا کیا کمالات دکھائے ہیں، ہم نے بلند پروازی اور تیزرفتاری کے کیسے کیسے رکارڈ قائم کئے ہیں؟ مشرقی فلسفی نے جواب دیا کہ ہاں تمہیں فضائے آسمانی میں چڑیوں کی طرح اڑنا آگیا اور تمہیں دریا میں مچھلیوں کی طرح تیرنا آگیا، لیکن یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں زمین پر آدمیوں کی طرح چلنا بھی آیا؟ تو پیغمبر بغیر کسی کسر و انکسار کے یہ کہتے ہیں کہ ہم یہ بتاتے ہیں کہ خدا کے بنائے اور پیدا کئے ہوئے انسان کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح رہا جاتا ہے، دنیا ک اس سفر کو کامیاب طریقے پر طے کر کے کس طرح اپنے مالک کے پاس انعام لینے کیلئے جایا جاتا ہے، ہم یہ فن بتاتے ہیں، نہ کم نہ بیش، یہ ہے نبوت کا وہ کارِ خاص جو نبوت اور انبیاء انجام دیتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی عظمت اور آپ کی انفرادیت سمجھنے کے لئے سب سے پہلے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ کے کام کی نوعیت کیا ہے؟ آپْ ﷺ اور آپ کے مقدس رفقاء جن کو انبیاء کے نام سے ہم جانتے ہیں، (اللہ کا درود و سلام ان سب پر) وہ کیا کام انجام دیتے آئے ہیں، اس کے لئے میں نے ایک حقیر سے کہانی آپ کے سامنے رکھی ہے کہ وہ ملاح تھا تو دوٹکے کا آدمی، لیکن ان نوجوانوں کے مقابلے میں جنہوں نے اپنے دماغ میں لائبریوں کی لائبریریاں اتارلی تھیں، اور جنہوں نے فلسفے کے سمندر پی لئے تھے، جن کو دنیا کی تاریخ پوری یاد تھی، وہ اس کم سواد بلکہ بے سواد ملاح کے سامنے بے حقیقت انسان تھے، ان کی زندگی خطرے میں تھی، وہ کشتی پر سوار تھے، ان کی قسمت کشتی سے وابستہ تھی، اور کشتی کی قسمت اس فن ملاحی سے وابستہ تھی، اور وہ اس سے ناآشنا تھے، یہ ہے نبوت کا کارِ خاص جو نبوت ہی انجام دیتی ہے۔
اب میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نبی ﷺ کو دوسروں کے مقابلے میں کیا امتیاز حاصل ہوتا ہے، ان کو یہ کہنے کا حق کیوں حاصل ہے کہ اس زندگی کے بعد ایک زندگی ہے اور محسوسات اور مشاہدات کا جو عالم ہمارے اور آپ کے سامنے ہے، ان کے پیچھے اور کون سی طاقتیں کام کررہی ہیں، ہم ان کو دیکھتے نہیں ہیں، اس قانون تکوینی (NATURAL LAWS) کے پیچھے کوئی اور طاقت اور ارادہ ہے جو اس کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اور اس کے متضاد عناصر کو ایک دوسرے سے ٹکرانے سے بچا رہا ہے، سورج کی حرارت کو اس سے زیادہ بڑھنے نہیں دیتا جو کہ اس زمین کو خاک سیادہ کردے، زمین کی پرت کو اس سے زیادہ موٹا ہونے نہیں دیتا کہ یہ زمین ڈوب جائے، سمندر اور خشکی کے درمیان جو تناسب ہے، اس تناسب میں ذرا سا فرق آنے نہیں دیتا، اگر آپ کریسی کی کتاب MAN DOES NOT STAND ALONE (انسان اکیلا کھڑا نہیں ہے) کا مطالعہ کریں، (اور آپ میں سے بہت سے لوگوں نے اس موضوع پر مجھ سے زیادہ پڑھا ہوگا) تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اس دنیا کو کس تناسب کے ساتھ بنایا گیا ہے اور اس میں کتنے متضاد عناصر ہیں، آگ اور پانی کا مجموعہ کس طرح چل رہا ہے، سلبی اور ایجابی (POSITIVE AND NEGATIVE) مثبت اور منفی طاقتیں کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ مصالحت اور تعاون کے ساتھ کام کر رہی ہیں،ان میں کسی وقت ٹکراؤ نہیں ہوتا ہے، ان میں کسی وقت بغاوت نہیں ہوتی، ان میں کہیں برہمی، ناہمواری نہیں پیدا ہوتی، نشیب و فراز نہیں پیدا ہوتے، کوئی چیز اپنی حد سے آگے نہیں بڑھنے پاتی، اس کے حکام سے سرتابی نہیں کرنے پاتی ، اس حقیقت کے جاننے کا نبی کے پاس کیا ذریعہ ہے، اور یہ کہنے کا اس کو کیوں حق حاصل ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں، اور یہ جانتے ہیں، اور تم نہیں دیکھتے اور نہیں جانتے؟ اس کے لئے میں پھر ایک واقعے کا سہارا لوں گا مگر اس مرتبہ یہ واقعہ ہندوستانی کہانیوں اور ہماری نصابی کتابوں کا واقعہ نہیں ہوگا بلکہ سیرت نبویﷺ کا واقعہ ہوگا۔
واقعہ یہ ہے کہ جب یہ آیت ’’و انذر عشیرتک الاقربین‘‘ (اے محمدﷺ آپ قریبی لوگوں اور اپنے سے قریبی تعلق رکھنے والوں کو ڈرایئے) نازل ہوئی، مکہ معظمہ کی اس سادہ اور محدود زندگی میں جس میں ابلاغ و اطلاع کے ذرائع مفقود یا بہت محدود تھے، وقت کم اور مکہ کی آبادی پھیلی ہوئی او رکوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے پوری آبادی کو جو کہ مکہ کی وادی میں مکہ کے آگے پیچھے بکھری ہوئی تھی، سب کو کیسے جمع کیا جائے؟ صدیوں سے جس کے آباء و اجداد نبوت کے مفہوم اور غیبی حقائق سے ناآشنا تھے، ان کو کیسے ان غیبی حقائق سے مانوس کیا جائے، یہ وہ ایک عظیم امتحان تھا، جو بڑے سے بڑے دماغوں کو بھی شل کرسکتا تھا، اس کا حل کرنا آسان نہیں تھا، لیکن یہ بھی الہام کی بات تھی، اور اللہ کی تائید تھی کہ اللہ تعالی نے آپﷺ کو صحیح راستہ بتایا، آپﷺ صفا کی پہاڑی پر چلے گئے آپ ﷺ میں بہت سے بھائی حج کی سعادت سے مشرف ہوچکے ہوں گے، انہوں نے صفا کو دیکھا ہوگا، آج سے ۱۳۰۰ سال پہلے اس کی حالت دوسری تھی، آج سے پچاس سال پہلے بھی وہ کچھ اور تھا، کوہ صفا پر آپﷺ چلے گئے، وہاں آپ ﷺ نے ایک آواز بلند کی ’’یاصباحاہ‘‘ یہ ایک جملہ تھا جو اپنے اندر معانی کا ایک دفتر رکھتا تھا، اس جملے میں عرب کے لوگوں کے لئے ایک نوٹس تھا، اور وہ خطرے کی گھنٹی تھی، یہ ایک ایسا جملہ تھا، جس سے عرب کی ایک پوری تاریخ وابستہ تھی، وہ تاریخ یہ تھی کہ جب عرب کے کسی قبیلے کا حملہ ہوتا تھا، جو ان کا دن رات کا مشغلہ تھا، ایک شاعر کہتا ہے کہ ’’میرا گھوڑا جب جوان ہوجائے تو اللہ کرے کہ کہیں نہ کہیں لڑائی چھڑ جائے تا کہ میں اپنے گھوڑے کے جوہر دکھا سکوں‘‘ ان کا تو یہ کھیل تھا، اس موقع پر کوئی شخص کسی بلند جگہ پر چلا جاتا تھا، اور کہتا تھا کہ ’’یا صباحاہ‘‘ (خطرہ ہے! خطرہ ہے) لوگ جمع ہوجاتے تھے، چنانچہ یہی ہوا کہ جن لوگوں نے آپﷺ کے آوازی پہچانی انہوں نے کہا کہ ’’الصادق الامین‘‘ (یہ اس دنیا کے صادق ترین انسان کی آواز ہے) بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا! کی کہانی ہم لوگوں نے کتابوں میں پڑھی ہے، اور آخر میں اعتبار جاتا رہا اور سچ مچ بھیڑیا آیا اور کھا گیا، عرب کے لوگوں میں سب خرابیاں تھیں، لیکن یہ چالاکی ان کے اندر نہیں تھی، وہ سیاسی پروپیگنڈے سے ناآشنا تھے، تو کوئی شخص بھی چلا جاتا اور کہتا ’’یاصباحاہ‘‘ عربوں کی اصل فطرت دروغ بیانی سے بہت دور ہے، اسی بنا پر مفسرین نے کہا ہے کہ نفاق عربوں کا مرض نہیں، عربوں کی نفسیات سے اس کو مناسبت نہیں، یہ مرض وہاں پیدا ہوا جہاں غیرعرب عناصر (یہودی و غیرہ) معاشرے میں تھے، اس آواز کے سننے کے بعد کسی کو کوئی شک نہیں رہتا تھا، بہرحال آپ نے آواز لگائی ’’یاصباحاہ‘‘ اور سارا مکہ دوڑ کر کوہِ صفا کے دامن میں جمع ہوگیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا، کون ہے؟ پہچان تو لیا انہوں نے فورا اور یہ بھی یقین ہوگیا کہ یہ واقعہ بالکل صحیح ہے کوئی لشکر ہے جو ہم پر حملہ کرنے والا ہے، اب وہ منتظر تھے کہ وہ لشکر کہاں سے آنے والا ہے، کِدھر سے حملہ کرنے والا ہے؟ آپﷺ نے عجلت سے کام نہیں لیا، فرمایا لوگو! تم نے مجھے آج تک کیسا پایا، لوگوں نے کہا کہ ’’الصادق الامین‘‘ (سچ بولنے والا اور امانت دار) یہ پہلا اسٹیج تھا جو نبوت ہی کی تاریخ میں نہیں بلکہ ہر اصلاح کی تاریخ میں ضروری مرحلہ ہے کہ سب سے پہلے جو شخص اصلاح کا جھنڈا لیکر کھڑا ہو، وہ کسی قوم کی اصلاح اور نجات کا صحیح راستہ دکھانے کے لئے کھڑا ہو تو پہلے اس کے متعلق یہ اطمینان کرلینا چاہئے کہ وہ کیسا ہے، بے غرض ہے، مخلص ہے، اسی لئے فرمایا کہ تم نے آج تک مجھ کو کیسا پایا؟ لوگوں نے کہا کہ سچا اور امین، فرمایا کہ میں اگر تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر جو رات کے اندھیرے میں یہاں آکر چھپ گیا ہے، تم پر اچانک حملہ کرنے والا ہے تو تم باور کروگے؟ عرب کے لوگ زیادہ تر ناخواندہ تھے، اور فلسفے و غیرہ علوم سے ناآشنا، لیکن اللہ نے ان کو ایک دولت دی تھی، جس میں وہ دنیا کے قوموں میں (جو تمدن کی بیماریوں میں مبتلا ہوچکی تھیں اور جنہوں نے فلسفہ، شاعری اور ادب میں بڑی ترقی کی تھی) عربوں کو امتیاز حاصل تھا، وہ یہ تھا کہ وہ فطرت سلیم رکھتے تھے، اور فطرت سلیم یا عقل سلیم اللہ کی بڑی نعمت ہے، ذہانت سے بڑھ کر عقل سلیم (COMMON SENSE) چاہئے، انہوں نے فورا صورت حال کا جائزہ لیا، انہوں نے دیکھا کہ ہم پہاڑ کے نیچے ہیں، اور ایک شخص پہاڑ کے اوپر کھڑا ہوا ہے، پہاڑ کے نیچے کے حصے کو بھی دیکھ رہا ہے، سامنے کے حصے کو بھی دیکھ رہا ہے، تو اگر وہ یہ کہتا ہے کہ پہاڑ کے عقب (پیچھے) میں ایک لشکر چھپا ہوا ہے تو اس بنا پر اس کے جھٹلانے کی کوئی وجہ اور کوئی جواز نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ہم تو نہیں دیکھتے، ہمیں دکھلایئے! اس لئے کہ ہم پہاڑ کے نیچے ہیں اور وہ پہاڑ کے اوپر، ان کی عقل سلیم نے فوراً ان کی رہنمائی کی کہ اس شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ یہ دعوی کرے کہ پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر ہے، ہمیں یہ نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں۔
جب یہ مرحلہ طے ہوگیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم جو زندگی گزار رہے ہو، تمہارے جو عقائد ہیں، تمہارے جو اخلاق ہیں، تمہارا جو ایک دوسرے کے ساتھ سلوک ہے، تمہارے زندگی کے جو مقاصد بن گئے ہیں، تمہارا جو طرز زندگی ہے وہ حقیقی خطرہ ہے، اور ہزار دشمنوں اور ہزار لشکروں سے بھی زیادہ خطرناک ہے، تم کس دشمن سے ڈر رہے ہو؟ اس دشمن سے جو آئے گا اور سو دو سو اونٹوں کو ہنکا کر لیجائے گا، اور دس بیس آدمیوں کو مار دے گا، اور تھوڑا سا مالی نقصان اور جانی نقصان پہنچادے گا، میں تمہیں اس دشمن سے ڈرا رہا ہوں جو تمہارے دلوں کے اندر بیٹھا ہوا ہے، تمہارے دماغوں کے اندر اس نے اپنی چھاؤنیاں قائم کرلی ہیں، وہ تمہارے گھروں کے اندر موجود ہے، اس حقیقی اور جان لیوا دشمن سے ڈرو، یہ تمہارے غلط عقائد، تمہارے خطرناک جہالت، تمہارا قہر خداوندی کو بھڑکانے والا اور دنیا کو دوزخ کا نمونہ بنانے والا طرزِ زندگی ہے، یہ تمہاری نفس پرستی، ہوا و ہوس اور محض نائے و نوش اور ’’بعیش کوش‘‘ کے فلسفے والی زندگی ہے، یہ وہ زندگی ہے جسے خدا کی رہنمائی اور آسمانی تعلیمات منظم نہیں کرتیں، بلکہ خودساختی قوانین اور ذاتی معاملات چلا رہے ہیں، یہ نبوت کی حقیقت ہے، آپﷺ نے چند لفظوں میں اور ایک عملی مظاہرہ کر کے ثابت کردیا کہ نبی کہ یہ حق حاصل ہے کہ وہ اعلان کرے کہ اس عالم شہود اور اس عالم محسوسات سے پرے بھی دنیا ہے، اس کے پیچھے حقائق کی ایک دنیا ہے، موجد کائنات ہے، خالق کائنات ہے، اس کی ذات ہے، اس کی صفات ہیں، اس کا طریقہ کار ہے، اس کے افعال ہیں، اس کا انسانوں کے ساتھ معاملہ ہے اس کے مرضیات و نامرضیات کا ایک سلسلہ اور نظام ہے، اس تفہیم کے لئے اس سے بہتر اور کوئی عام فہم اور دل نشین طریقہ نہیں ہوسکتا تھا، نہ صرف عرب کی اس محدود زندگی اور معاشرے میں بلکہ میں سمجھتاہوں کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی نبوت کی حقیقت کو سمجھانے کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔
حضرات! وقت کم ہے اس لئے میں عرض کروں گا کہ یہ مسئلہ کہ انسانوں کی زندگی تبدیل ہو، انسانوں کے عقائد تبدیل ہوں انسانوں کے مسلمات (جن چیزوں کو انہوں نے سمجھ لیا کہ زندگی کے لئے ناگزیر ہیں) خواہ وہ معیار زندگی ہوں، خواہ وہ مقاصد زندگی ہوں، خواہ وہ دولت ہو، خواہ وہ طاقت ہو یا اقتدار کا حصول ہو، خواہ وہ نفس کے تقاضوں کی تکمیل ہو، خواہ وہ اپنی برتری کا اظہار ہو، ان چیزوں کو یکسر بدل دینا انسان کی قلب ماہیت کردینا، انسان کو اندر سے اتنا تبدیل کردینا کہ وہ بھی بدل جائے، اور دنیا کو بھی بدل کر رکھ دے، کھیل نہیں ہے، یہ ارادۂ الہی، خدائی فیصلے، خدا کی تائید اور نبوت کے منصب و مقام اور اس کے ساتھ جو خدا کی مدد ہوتی ہے اور نبی کی شخصیت کے بغیر نہیں ہوسکتا، ہندوستان کے عظیم ترین اور طاقتورترین شخصیتوں نے چاہا کہ چھوت چھات دور ہوجائے، نابرابری دور ہوجائے، اور مساوات و اشتراکیت کا دور دورہ ہو، یہ بھی نہ ہوسکا اور جہاں ہوا وہاں جبراً و قہراً ہوا ہے، اگر اس معاشرے کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تو ابھی بغاوت کرنے کے لئے تیار ہے کل آپ سن سکتے ہیں کہ وہ نظام الٹ کر رہ گیا اور پورے ملک میں انقلاب آگیا اور آتا رہتا ہے، چھوت چھات آج تک دور نہیں ہوئی، ملک کی رسم میں نہیں جانتا کہ آپ کے یہاں اس کے لئے کیا اصطلاح ہے اور میری دعا ہے کہ آپ کے یہاں یہ بیماری نہ ہو لیکن ہمارے ہندوستان میں کئی ریاستیں ہیں جہاں یہ بیماری اپنے پورے شباب پر ہے کہ لڑکیاں بیٹھی ہیں اور ان کو اس لئے بر نہیں مل رہے ہیں، جوڑا رشتہ نہیں مل رہا ہے کہ صاحبزادے اور صاحبزادے سے زیادہ ان کے ’’والدین ماجدین‘‘ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کے لئے یورپ جانے کا انتظام کیا جائے، امریکہ جا کر تعلیم حاصل کرنے کا انتظام کیا جائے، اس کے لئے بینک میں اتنا حساب جمع کردیا جائے، اس کے لئے کار، کم سے کم اس کے لئے اسکوٹر کا انتظام کردیا جائے، آج قانون بھی اس کے خلاف ہے، عقل بھی اس کے خلاف ہے، ہم اس کے نہایت مہیب اور نہایت منحوس نتائج دیکھ رہے ہیں، بڑے بڑے شریف لوگ خودکشیاں کررہے ہیں، اور گھروں کی زندگی جہنم بن گئی ہے، ماں باپ کو میٹھی نیند نصیب نہیں لیکن یہ رسم ہے کہ پورے طور پر موجود ہے۔
اسی طریقے سے امریکہ جیسے ملک نے شراب کو ختم کرنا چاہا، اس نے کوشش کی کہ شراب نوشی کی عادت ختم ہو، یہ مسٹر ہور (HOOVR) کے زمانے کا واقعہ ہے، اب تفصیلات دیکھ لیجئے کہ امریکہ نے گھٹنے ٹیک دیے اور اپنے پورے وسائل اس کے لئے استعمال کئے، لیکن شراب نوشی حد جنون تک پہنچ گئی، یعنی جو لوگ صرف شراب نوش تھے، ان لوگوں نے شراب نوشی پر کمر کس لی اور حکومت کو شکست تسلیم کرنی پڑی، حکومت نے مات کھالی، لیکن شراب پینا لوگوں نے نہ چھوڑا، وقت کم ہے، اس لئے اختصار سے کام لیتا ہوں، عہد جاہلیت کی چند رسمیں آپ کے سامنے مثال کے طور پر رکھتا ہوں، اس وقت دخترکشی کی رسم تھی، اور ایسی رسم تھی کہ اس کی جڑیں عربوں کے مزاج میں عربوں کی تاریخ، عربوں کے معاشرے میں اتنی گہری تھیں کہ تصور نہیں کیا جاسکتا تھا کہ عرب دخترکشی سے باز آسکتے ہیں، لیکن چند برسوں میں ایسا انقلاب ہوا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۷ھ میں عمرۃ القضاء کے لئے مکہ تشریف لے گئے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بچی امامہ گھر سے دوڑی دوڑی آئی اور بھائی بھائی کہہ کر آپ سے لپٹ گئی، اس وقت صحابہ کرام میں یہ مقابلہ شروع ہوگیا کہ یہ بچی پرورش کے لئے ہم کو دی جائے، یعنی جو مائیں بچیوں سے اپنی گودیں خالی کرتی تھیں اور جو باپ شقی اور سنگدل بچیوں کو اٹھا کر لے جاتے تھے، ایسے واقعات ہیں کہ آپ سنیں تو آپ تڑپ جائیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بچی مجھے ملنی چاہئے میری بہن ہے، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے عطا ہو کہ میں بھائی بھی ہوں اور اس کی خالہ میرے گھر میں ہے، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا حق ہے کہ مسلمان ہونے کے رشتے سے ان دونوں سے کم نہیں، آُ نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا کہ بچی کی خالہ ان کے گھر میں ہے، اس کو وہاں زیادہ آرام ملے گا، اسی طرح شراب جو اعراب کی گھٹی میں پڑی تھی، جب اس کی حرمت کا اعلان ہوا تو ہونٹوں سے لگائے ہوئے جام ہٹادیے گئے، شراب کے ظرف اس طرح لنڈھادیے گئے کہ وہ مدینے کی نالیوں میں بہتی تھی۔
سیرت محمدی ﷺ کا اصل پیغام یہی ہے، آپﷺ کو ایک کام کے لئے مامور کیا گیا، آپﷺ کے ساتھ اللہ کی تائید تھی، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ انقلاب عظیم دنیا میں رونما ہوا کہ اس کی مثال نہ اس سے پہلے کی تاریخ میں ملتی ہے، اور نہ اس وقت کی تاریخ میں ملتی ہے، آج لوگوں کو مطمئن کرنے کے ذرائع وافر مقدار میں موجود ہیں، لیکن ہم انسانوں کو مطمئن نہیں کرسکتے، معاشرے میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں لاسکتے۔
جہاں تک عام انسانی جذبات کا تعلق ہے، خلوص کا تعلق ہے، قربانی کا تعلق ہے، ان کی مثالیں دور تک نہیں ملیں گی، مگر ان کو کوئی ایسی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی، وہی نابرابری ہے، وہی طبقاتی تفریق ہے، وہی انسانی آبرو و عزت کی بے قیمتی ہے وہی انسان انسان کا بھکاری ہے، وہی انسان انسان کا شکار ہے، وہی دولت کی حد سے بڑھی ہوئی محبت ہے، وہی چھوت چھات ہے، وہی شراب نوشی کا جنون ہے، اور ہزاروں آدمیوں کی جانیں زہریلی شراب میں جاتی ہیں۔
میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ سنجیدگی کے ساتھ سیرت کا مطالعہ کریں، اور ہمارے ہندوستان میں اردو کا جو لٹریچر تیار ہوگیا ہے، اس کا بغور مطالعہ کریں، اگر اس مجلس سے اس کی ادنیٰ سے ادنیٰ تحریک پیدا ہوجاتی ہے تو یہ مجلس اور یہ اہتمام جو اس مبارک موقع کے لئے کیا گیا پورے طور پر وصول ہوا۔
و ماالتوفیق الا من عنداللہ

 

خطبات مفکر اسلام: جلد اول، ص ۲۰۹۔۲۲۸
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی