- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

میری ماں

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بندہ جب ۸۰ سال کا ہوجائے تو اس کی نیکیاں تو لکھی جاتی ہیں مگر گناہ نہیں۔ میری امی تو ۸۵ سال کی تھیں۔
وہ دسمبر ۲۰۱۶ء سے اتنی بیمار ہوگئی تھیں کہ ان کو بیت الخلا لے جانے کے لیے بھی مدد کی ضرورت ہوتی تھی۔ ہم سمجھے کہ امی کو پانی کے بہت زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے پیروں میں ٹھنڈ لگ گئی ہے اس لیے پیردرد کررہے ہیں، مگر پھر یہ حالت ہوگئی کہ امی کو بیت الخلا لے جانا بھی مشکل ہوگیا۔ صورت حال یہ ہوگئی کہ کھانا برائے نام ہوگیا جس کی وجہ سے بے حد کمزوری ہوگئی۔ الحمدللہ چڑچڑی تو نہیں ہوئیں، مگر میری اور زہرہ کی شکلیں دیکھ کر شاید بور پوگئی تھیں۔ ایسے مریض دراصل ہمارا امتحان ہوتے ہیں اور میں گناہ گاران آزمائشوں کے قابل نہیں ہوں اس لیے امی سے ہم بھی معافیاں مانگتے رہتے تھے۔ ہاں جب میری بیٹی اور اس کی فیملی آئے، باجی اور ان کی فیملی آئے یا کوئی اور عیادت کے لیے آجاتا تو امی بہت خوش ہوجاتی تھیں۔
دیکھا جائے تو امی کی خدمت کا فرض تو ہم بیٹیوں اور بیٹے حامد پر ہے، مگر امی کو اکلوتی بہوزہرہ نے دل و جان سے امی کی خدمت اس پورے عرصے میں کی اور گویا بغیر حق کے حق ادا کردیا۔ ہر وقت یہ فکر کہ امی یہ چیز نہیں کھا رہی ہیں تو کوئی اور چیز بنا کر کھلا دوں۔ اس طرح امی کو آرام نہیں مل رہا ہے تو اس طرف کروٹ دلا دوں، تکیہ اونچا کردوں۔ سنیے! امی کی حالت بہت خراب لگ رہی ہے۔ ڈاکٹر راشد سے پوچھیں کیا کرنا ہے؟ ابراہیم بیٹا دادی کو ہسپتال لے جاؤ شاید ڈرپ لگ جائے تو کمزوری دور ہوجائے۔ و غیرہ و غیرہ! اللہ تعالی اس کو اور اس کی اولاد کو ان خدمات کا بہترین اجر دے۔ اس کی تمام پریشانیاں دور کرے۔ آمین!
درمیان میں کئی بار امی کی حالت بگڑی پھر سنبھل گئی۔ ان کی طبیعت دھوپ چھاؤں کی طرح تھی، کبھی بالکل چہرہ فریش، لمحوں میں کراہنا شروع کردیتی تھیں۔ اپنی پسند کا کھانا نہ ملے تو غصہ آجاتا تھا، مگر لمحوں میں اتر بھی جاتا تھا۔ ہم پوچھتے امی سے کہ آپ بتائیں کیا کھانا چاہتی ہیں تو کہتی تھیں کچھ بھی دے دو۔ چند ماہ تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوب ہنسنے لگتیں۔ ہم وجہ پوچھتے تو مزید ہنسنے لگتی تھیں، اتنا کہ ہم کو بھی بلاوجہ ہنسی آجاتی۔ اسی دوران ۶ جون ۲۰۱۷ء کو میرے اباجی کی برسی جو کہ ۲۵ ویں برسی تھی آگئی۔ ہم بچوں اور ان کے بچوں نے قرآن مجید اور یٰسین شریف پڑھ کر ایصال ثواب کیا۔ باجی نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں آبا جی کے زرین اصولوں اور ان کی صبر و قناعت والی زندگی کی تصویر کھینچی گئی تھی۔ سب کو دعا بھی دی کہ اللہ تعالی ان کی جیسی سادہ مگر پروقار زندگی گزارنے کی اور ان سب باتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
اس دن امی سب کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت خوش تھیں۔ ہماری امی کی یہ بہت اچھی عادت تھی کہ سب کو دیکھ کر خوش ہوتی تھیں اور رات کو جب ہم سب ہلہ گلہ کرتے تو امی بھی ہم میں شامل ہوجاتیں۔
ہماری امی کی ایک بہترین خوبی یہ تھی کہ کچھ بھی کام کرتے ہوئے لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ کا ورد کرتی رہتی تھیں اور نماز بہت خشوع و خضوع سے پڑھتی تھیں۔ اپنی بہن زبیدہ، اپنی بہو مفراح اور اپنی بیٹی فاطمہ کو بھی میں نے خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے دیکھ کر رشک کیا ہے۔ اللہ تعالی مجھے بھی ایسی نماز پڑھنے کی توفیق دے۔ آمین!
امی نے آخر وقت تک کبھی نماز نہیں چھوڑی جب تک ہمت تھی خود پڑھتی تھیں پھر ہم لوگ پڑھادیتے۔ امی نماز پڑھنی ہے نا۔ فوراً ہاتھ بڑھا کر دوپٹا سر پر لے لیتیں اور ہم تیمم کرا کر نماز پڑھا دیتے صرف آخر کے ۲۴ سے ۴۸ گھنٹے غنود گی کے تھے۔ اس میں، میں نے نماز تو پڑھائی مگر امی کی آنکھیں بند رہیں۔ ورنہ ولاالضالین پر آمین ضرور کہتی تھیں الحمدللہ!
ان دنوں ویسے تو امی نے کبھی کوئی چیز کھانے کی فرمائش نہیں کی، مگر تین دفعہ ان کی بات فوراً پوری کرنے کی کوشش کی گئی۔ مئی ۲۰۱۷ء میں ایک دن امی نے پکوڑے کھانے کی خواہش کی۔ میں نے جلدی جلدی پکوڑے بنا کر امی کو کھلائے، امی نے دو چار ہی کھائے، مگر میرا دل خوش ہوگیا۔ ایک دفعہ مجھ سے اور ایک دفعہ باجی سے امی نے چائے کی فرمائش کی، جب کہ چائے کا وقت نہیں تھا۔ ہم دونوں نے جلدی سے بنا کردی۔ زہرہ سے تو اکثر کہتی تھی زہرہ چائے نہیں پلائی۔ زہرہ کہتی: امی ابھی تو آپ نے کپ بھر کے پی ہے۔ امی آپ کو ابھی توثمینہ باجی نے چائے پلائی ہے۔ پاپے یا بسکٹ کے ساتھ کبھی کہتی نہیں امی آپ کو ڈاکٹر نے منع کردیا ہے کہ چائے مت دینا۔ حالاں کہ امی پی چکی ہوتی تھیں۔ کیوں کہ آخری دنوں میں بہت شوق سے چائے پیتی تھیں۔
تیسری بار امی نے باجی سے سموسوں کی فرمائش کی۔ امی کی خواہش پر فاطمہ (میری بیٹی) حسن (میرے نواسے) کے ساتھ جا کر سموسے لائی اور ماشاء اللہ امی نے پورا ایک سموسہ مصالحے کے ساتھ کھایا ورنہ امی مصالحہ نکال کر اوپر کا خول ہی کھاتی تھیں۔ امی کو کھاتا دیکھ کر ہم سب کو بہت خوشی ہوئی۔
آخری ایک ماہ میں تو صرف دلیہ، ساگودانہ، کیلایا کیلے کا شیک اور چائے ہی سے ناشتہ اور کھانا چلتا رہا۔ کیوں کہ سخت چیز امی حلق سے اترتی ہے نہیں تھیں۔ الحمدللہ! آخری دن اور آخری وقت امی کے پاس صرف میں، زہرہ، حامد اور ابراہیم ہی تھے۔ عصر کے بعد امی کی حالت بگڑنے کی وجہ سے نیبولائز کیا، مگر سانس اکھڑتی جارہی تھی اور حلق سے آواز بھی خرخر سی آتی تھی۔ آخر میں، حامد اور ابراہیم پٹیل ہسپتال لے گئے۔ ابراہیم اپنی دادی کو ہمیشہ گود میں اٹھا کر گاڑی یا ایمبولینس میں لے جا کر لٹاتا تھا۔ کچھ دیر میں ہی ڈاکٹرز نے گھر بھیج دیا گرچہ حالت وہی تھی۔ جب زہرہ نے پوچھا امی دلیہ کھلاؤں؟ تو امی نے آنکھیں بند کیے کہا: ’’ہاں!‘‘ ہم نے ان کو بٹھا کر ذیابیطس کی گولی کھلائی پھر زہرہ نے دلیہ کھلایا۔ اس دوران ہم نے جیسے تیسے کر کے تھوڑا کھانا کھایا اور پھر سورۂ یٰسین پڑھنا شروع کردی۔ چوں کہ میں جب بھی سورۂ یٰسین پڑھتی تھی تو امی پرسکون نیند سوجاتی تھیں۔ حامد کلمہ پڑھ رہا تھا۔ زہرہ بھی پڑھ پڑھ کے پھونک رہی تھی۔ اس کی سہیلی کا گیارہ بجے فون آیا اس نے کچھ علامتیں بتائیں کہ اس طرح آواز آئے اور کان بالکل چپک جائے اور آنکھوں میں جالا آجائے تو وہ سکرات کا عالم ہوتا ہے۔ اس نے مجھے دیکھایا کہ باجی دیکھیں ایسا ہی ہورہا ہے۔
میں سورہ یٰسین پڑھ کے سلام قولا من رب رحیم پر امی کے دونوں کانوں پر دم کررہی تھی کہ ایسا لگا کہ خرخر کی آواز ہلکی ہوتے ہوتے بند ہوگئی اور سورۂ یٰسین کے ختم تک آنکھیں بھی بند ہوگئیں۔ میں سمجھی حسبِ معمول سورہ یٰسین سن کے سوئی ہیں۔۔۔ مگر پھر میں جان گئی اور میرا آنسوؤں پر قابو نہ رہا۔ تین دن سے جو اذیت امی کے چہرے پر ثبت ہوگئی تھی وہ ختم ہوگئی تھی۔ چہرے کی جھریاں ختم ہوگئیں، چھائیاں ختم ہوگئیں اور ایک جوان اور پرنور چہرہ دکھائی دینے لگا۔ میں نے روتے ہوئے زہرہ سے کہا: بیٹا ابراہیم سے کہو ڈاکٹر کو لے کر آئے۔ اس نے کہا کیوں باجی؟ میں نے کہا امی چلی گئیں۔ امی کا انتقال ہوگیا۔ زہرہ نے کہا نہیں باجی امی سورہی ہیں۔ میں نے کہا سانس بند ہوچکی ہے۔ اس کو یقین تو نہیں آیا۔ حامد جا کر ڈاکٹر کو لے آیا۔ انہوں نے انتقال کی تصدیق کردی۔
اللہ تعالی نے پتا نہیں ان کو جنت میں کیا اعلیٰ مقام دینا تھا کہ جب دیکھا کہ میرا بندہ عمل سے اس درجے تک نہیں پہنچ سکتا تو ان کو آزمائش میں مبتلا کردیا۔ معذوری، بے بسی اور بیماری کی آزمائش میں، امی کی زبان ہر آزمائش پر الحمدللہ علی کل حال رہا۔ پیر کے دن ۲۳ صفر ۱۴۳۹ھ ۱۲ نومبر ۲۰۱۷ء کی رات گیارہ بج کر ۴۵ منٹ پر امی کی روح عالمِ فانی سے عالم بالا کی طرف پرواز کرگئی۔ جب مفراح نے غسل کراتے وقت پانی کا پہلا ڈونگا امی کے سر پر ڈالا تو امی کے چہرے پر ایک حسین مسکراہٹ آئی اور امر ہوگئی۔ یااللہ! میرے والدین کی مغفرت فرما، ان کی قبروں کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادے۔ آمین۔