- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

دعا اللہ تعالی کا حکم، انبیا کی سنت اور مسائل کا بہترین حل ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے دعا میں ’حضور قلب‘ اور ’تضرع‘ کی حالت اپنانے پر زور دیتے ہوئے اسباب اختیار کرتے ہوئے رب الاسباب کو یاد رکھنے کی ضرورت پر تاکید کی۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے دو نومبر دوہزار اٹھارہ کے خطبہ جمعہ میں قرآنی آیت: «وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ» کی تلاوت کے بعد کہا: اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں دعا کو بہت بڑی عبادت یاد کرتے ہوئے اسے اپنی پسندیدہ عبادت قرار دی ہے۔ اس آیت میں ایک حکم اور ایک وعدہ دیا گیا ہے؛ حکم ہے کہ اپنی درخواستیں اللہ ہی کے سامنے رکھو اور وعدہ ہے کہ جب دعا دل کی گہرائیوں سے ہو، ضرور قبول ہوگی۔ اگر ہم اللہ کی اطاعت کرکے اس کے احکام مان لیں، یقین کرلیں دعا رد نہیں ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا: دعا کرتے ہوئے پورا دھیان خدا کی طرف ہونا چاہیے۔ تمام خیالات اور وسوسوں کو دفع کرکے یکسوئی کے ساتھ دعا کیا کریں۔ ارشاد نبوی ہے کہ غافل اور بدحواس دل والے کی دعائیں قبول نہیں ہوتی ہیں۔ غفلت سے عبادت کو نقصان پہنچتاہے اور ایسی صورت میں دعا کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ دعا عاجزی اور انتہائی تواضع کے ساتھ ہونی چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: اچھی اور بری دعا دونوں کی بازگشت کا امکان ہے۔ دوسروں کے لیے نیک دعا کریں تو آپ کو بھی ثواب ملے گا۔ لیکن ناجائز بددعا کی صورت میں وہی بددعا تمہارے ہی کھاتے میں آئے گی۔
انہوں نے کہا: دعا اس یقین کے ساتھ کریں کہ ضرور قبول ہوگی۔ چوں کہ یہ اللہ تعالی ہی کا وعدہ ہے کہ میں دعا کی اجابت کروں گا۔ ہوسکتاہے اس اجابت میں وقت لگے، لیکن کوئی دعا ضائع نہیں ہوگی۔ ممکن ہے فوری اجابت کسی کی مصلحت کے خلاف ہو اور اللہ تعالی اس دعا کو اس کی آخرت کے لیے بچاتاہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: دیگر عبادتیں چھال اور غلاف کی مانند ہیں، لیکن دعا تضرع کے لحاظ سے تمام عبادتوں کا خلاصہ اور مغز ہے۔ انبیا علیہم السلام خوف و رجا کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے۔ انہیں ڈر تھا کہیں شرائط چھوڑنے کی وجہ سے ان کی دعائیں مسترد نہ ہوں۔

دعا صبر کی منافی نہیں ہے
مولانا عبدالحمید نے صبر اور دعا کے باہمی تعلق واضح کرتے ہوئے کہا: دعا صبر کی منافی نہیں ہے، بلکہ یہی چارہ کار ہے۔ جب ایوب علیہ السلام بیمار ہوئے اور ان کی بیماری بظاہر لاعلاج تھی، تو انہوں نے دعا کرتے ہوئے عافیت مانگی۔ بوقت مصیبت صبر کا دامن بھی پکڑیں اور دعا بھی کریں۔
انہوں نے مزید کہا: ہر حال میں دعا کیا کریں۔ جس طرح نبی کریم ﷺ کی عادت مبارکہ تھی۔ غزوہ بدر کے موقع پر آپﷺ نے اس قدر دعا فرمائی کہ آپﷺ کی چادر گرگئی۔ حضرت یونس علیہ السلام بھی مچھلی کے پیٹ زندہ بچ گئے، یہ دعا اور اقرار جرم کی برکت تھی۔

اسباب پر مکمل بھروسہ اور اللہ کو چھوڑنا غفلت و جہالت کا نتیجہ ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: اسباب پر اعتماد اور دعا کے حوالے سے غفلت دکھانا غفلت و جہالت کی نشانی ہے۔ دوا سے زیادہ اہم دعا ہے۔ اسباب سے ضرور کام لیں، لیکن رب الاسباب کو بھی مت بھولیں۔ یہ نادانی کی انتہا ہے کہ بندہ صرف اسباب کو دیکھے اور اللہ تعالی کو بھول جائے۔
انہوں نے مزید کہا: اسباب کو چھوڑنا اللہ تعالی کے حکم کے خلاف اور سیرت نبویﷺ اور حکمت کی مخالفت ہے؛ اسباب سے کام لیں، لیکن پورا اعتماد اور بھروسہ اللہ ہی پر کریں۔ مثلا اولاد کو نصیحت کیا کریں، انہیں اچھی تعلیم گاہوں میں داخل کروائیں، لیکن نتیجہ کے حوالے سے تمہارا اعتماد اللہ رب العزت پر ہو۔ اللہ سے دعا کریں یا اللہ ہماری اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیجئے اور ان کا مستقبل روشن و تابندہ بنائیے۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے اس حصے کے آخر میں کہا: ہمیشہ تمہاری نظریں اللہ تعالی کی قدرت پر ہوں جس کے ہاتھوں میں تمام اسباب ہیں۔ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا ہمیشہ عاجزی اور تضرع کے علاوہ پوری توجہ کے ساتھ دعا کیا کریں۔

جمال خاشقجی کے قاتلوں کو سزا دی جائے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومتوں کو مشورہ دیا اپنے مخالفین سے بات چیت کریں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے زاہدانی نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: سعودی عرب کے معروف صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور سعودی حکومت کو اس واقعے سے شدید نقصان پہنچا۔
انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا: سعودی حکومت کو چاہیے سنجیدگی سے اس مسئلے کی پیروی کریں اور اس قتل میں ملوث تمام افراد کو عدالت کے سپرد کرکے انہیں سزا دلوائیں تاکہ دنیا کے لوگوں کو تسلی ہوجائے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے دیگر ملکوں میں ایسے مشابہ واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ بعض ملکوں میں یہ پالیسی پائی جاتی ہے کہ حکومتیں اور ریاستیں اپنے مخالفین کو کسی نہ کسی صورت میں ختم کرنا چاہتی ہیں؛ مخالفین سے ٹکرانے کا یہ سب سے برا طریقہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: سب سے بہترین طریقہ مخالفین اور ناقدین سے بات چیت اور مذاکرات کرنا ہے۔ ہمارے خیال میں مذاکرات اور بات چیت کا فائدہ یہ ہے کہ دنیا میں اختلافات کم ہوجاتے ہیں اور مخالفین کی مخالفت میں اصلاح و تبدیلی آجاتی ہے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: اگر دنیاوالے بات چیت اور مذاکرات کی جانب آئیں اور میانہ روی کی راہ پر چل پڑیں، شاید تمام مشکلات پوری طرح حل نہ ہوجائیں، لیکن بڑی حد تک مسائل قابو میں آئیں گے اور ان سے نمٹنا آسان ہوجائے گا۔
ممتاز عالم دین نے انصاف کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا: دنیا میں پائیدار امن، دوستی اور اتحاد قائم کرنے کا بہترین راستہ نفاذ عدل اور انصاف کی فراہمی ہے۔ نفاذِ عدل سے سماج میں انفرادی اور اجتماعی سکون حاصل ہوجاتاہے۔ قیام امن اور اتحادکے لیے نفاذ عدل سے بہتر کوئی نسخہ تجویز نہیں ہوسکتا۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں چار نومبر سے ایران پر عائد نئی معاشی پابندیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایسی پابندیوں کو ’ظالمانہ‘ قرار دیا۔
انہوں نے ملک کے معاشی مسائل کے حل کے لیے عوام سے دعا کی اپیل کی اور حکام کو ’فوری اور جامع حل‘ پیش کرنے کا مشورہ دیا۔