- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

انڈونیشیا: مسافر جہاز سمندر میں گر کر تباہ، متعدد ہلاکتوں کا خدشہ

188 مسافروں اور جہاز کے عملے پر مشتمل انڈونیشی کمپنی ’لائن ایئر‘ کا بوئینگ 737 طیارہ ٹیک آف کے کچھ ہی لمحوں بعد انڈونیشیا کی سمندری حدود میں گر کر تباہ ہوگیا۔
سرچ اور ریسکیو ایجنسی کے ترجمان یوسف لطیف نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ جہاز سمندر میں 30 سے 40 میٹر گہرائی میں تباہ ہوا اور اس کی باقیات کی تلاش جاری ہے۔
بدقسمت جہاز بنگا جزیرے پرپنگکال پینانگ جارہا تھا جس کا پرواز کے محض 13 منٹ بعد ہی فضائی ٹریفک کنٹرول سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔
انڈونیشی وزارت ٹرانسپورٹ کے ڈائریکٹر جنرل آف سول ایوی ایشن سندھو رہایو نے بتایا کہ جہاز میں 178 افراد ایک بچہ اور 2 نومولود سوار تھے جبکہ جہاز کے عملے میں 2 پائلٹ اور 5 فضائی میزبان شامل تھے اس طرح مجموعی طور پر جہاز میں سوار افراد کی تعداد 188 تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جہاز کو ریڈار پر مکمل طور پر غائب ہونے سے قبل واپس آنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
فلائٹ ریڈار ویب سائٹ کا کہنا تھا کہ یہ جہاز بوئینگ 737 تھا ویب سائٹ کی ٹریکنگ کے مطابق اڑان بھرتےہوئے جہاز کا رخ جنوب کی جانب تھا جو بعد میں شمال کی جانب پرواز کرگیا اور سفر کا افسوسناک اختتام جاوا کے سمندر میں ہوا۔
خیال رہے کہ ہزاروں جزیروں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے انڈونیشیا میں فضائی سفر پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتا ہے لیکن یہاں فضائی حفاظتی اقدامت کی صورتحال انتہائی ناقص ہونے کے سبب حالیہ سالوں میں متعدد ہولناک حادثے ہوچکے ہیں۔
اس سے قبل اگست میں انڈونیشیا کے مشرقی پہاڑوں میں ہونے والے ایک فضائی حادثے میں صرف ایک 12 سالہ بچہ محفوظ رہا تھا جبکہ دیگر 8 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اسی طرح اگست 2015 میں انڈونیشی ایئر لائن ٹریگانا کا ایک کمرشل جہاز خراب موسم کے باعث پاپوا کے علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا تھا جس میں سوار تمام 54 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اسی طرح 2014 میں ایئر ایشیا کا ایک جہاز تباہ ہونے کے نتیجے میں 162 انسانی جانوں کا ضیاں ہوا تھا۔
واضح رہے کہ انڈونیشی فضائی سفری انڈسٹری گزشتہ ایک دہائی کے دوران مسافروں کی تعداد میں اضافے سے خاصی ترقی کرچکی ہے اس کے باوجود اس کے قواعد و ضوابظ ابھی ناقص ہیں۔
گزشتہ برس انڈونیشی ایئر ٹریفک کنٹرول ایسوسی ایشن نے یہ انکشاف کیا تھا کہ جکارتہ میں سرکاری ایئر نیوی گیشن کمپنی کی جانب سے پروازوں کو آمد اور روانگی کی اجازت دینے کی شرح ایئرپورٹ کی گنجائش سے کہیں زیادہ ہے جس کے باعث حادثوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔