- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

روزِ قیامت سب اپنے اعمال کے جوابدہ ہوں گے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے چھبیس اکتوبر دوہزار اٹھارہ کے خطبہ جمعہ میں انفرادی و اجتماعی طورپر اعمال کی اصلاح پر زور دیتے ہوئے کہا ہر شخص کو قیامت کے دن اپنی حیثیت اور مقام و عہدہ کے مطابق جوابدہ ہونا ہوگا۔
زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کا آغازقرآن پاک کی سورت الانبیا کی پہلی اور دوسری آیتوں: «اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ*مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ» کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: انسان کو اجازت نہیں جو اس کا جی چاہے، وہ کر ڈالے۔ بلکہ ہر شخص کو شریعت کے دائرے میں رہ کر زندگی گزارنی چاہیے۔
انہوں نے کہا: انسان کے سارے اعمال اور باتیں ریکارڈ اور محفوظ ہوجاتے ہیں۔ قیامت کے دن اس سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اللہ تعالی ہمیں خبردار فرماتاہے کہ حساب وکتاب کا دن قریب ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ لوگ غفلت کی نیند میں سورہے ہیں۔ وہ سکرات موت، قبر کی تنہائی و وحشت اور روز محشر حساب و کتاب کے لیے کھڑے ہونے کو بھول جاتے ہیں۔ ارشاد الہی ہے کہ لوگ قیامت کو دور دیکھتے ہیں اور ہم اس کو قریب ہی دیکھتے ہیں۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: اللہ تعالی قیامت کے دن یہ نہیں پوچھے گا تم نے کیا کیا؟ یہ سب اللہ کے علم میں ہیں؛ سوال یہ ہوگا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ قبر میں بھی سوال جواب ہوگا۔
انہوں نے ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا: ہم سب اپنے بچوں اور ماتحت کے لوگوں کے حوالے سے ذمہ دار ہیں۔ ارشاد نبویﷺ ہے کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ چرواہے سے لے کر ملک کے اعلی حکام تک سب سے سوال ہوگا اور سب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: ہر شخص اپنی قوت، مقام اور پوزیشن کی حد تک معاشرے میں موجود برائیوں کے حوالے سے ذمہ دار ہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری سب کو پوری کرنی ہوگی۔ جس کی ذمہ داری اور مقام زیادہ ہے، اس سے اتنا ہی زیادہ سوال ہوگا۔ علمائے کرام اور خطبا اگر سستی کریں، ان سے سوال ہوگا کہ تم نے عوام کو برائیوں سے کیوں منع نہیں کیا۔
انہوں نے کہا: ہم سب کو ذمہ داری کا احساس رکھنا ہوگا۔ جو کرتے یا کہتے ہیں یا دیکھتے اور سنتے ہیں، سب سے سوال ہوگا۔ لہذا سوچ سمجھ کر بات کیا کریں۔ ذمہ داریوں کے حوالے سے غفلت و لاپرواہی کا مظاہرہ نہ کیا کریں۔خوف الہی کو دل میں بسادیں اور قابل قبول ایمان کے ساتھ زندگی گزاریں۔

حکام دوسروں کو خوشحال بنانے کے لیے زیادہ محنت کریں
نامور عالم دین نے نکتہ بیان کرتے ہوئے کہا: ہمارا مشن یہ ہونا چاہیے کہ دوسروں کی دنیا آباد کراکر انہیں خوشحال بنادیں۔ ہمیں اپنی دنیا بھی آباد کرنے کی اجازت ہے، لیکن ذمہ دار لوگ دوسروں کی دنیا آباد کرانے کے لیے زیادہ محنت کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ اور صدر اسلام میں عہدہ دار افراد کا رویہ یہی تھا کہ خود کو چھوڑکر دوسروں کو خوشحال بنانے کے لیے محنت کیا کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم کوشش کریں اپنی اور دوسروں کی آخرت آباد بنائیں۔ اپنے مستقبل کے علاوہ بچوں اور معاشرے کے مستقبل کو روشن و تابندہ بنانے کے لیے محنت کریں اور اولاد کو علم و تقویٰ کے زیور سے آراستہ کریں۔

علم سیکھنا اللہ کو پسند ہے
صدر دارالعلوم زاہدان نے علم سیکھنے پر تاکید کرتے ہوئے کہا: ماں باپ اپنے بچوں کے حوالے سے ذمہ دار ہیں؛ انہیں ماڈرن جامعات اور دینی مدارس میں داخل کرانا چاہیے تاکہ وہ علم حاصل کریں۔ علم انتہائی اہم ہے چاہے دینی ہو یا دنیاوی۔ اللہ کو دونوں قسم کے علوم پسند ہیں۔ اللہ تعالی کو سیکھنا سکھانا پسند ہے۔ جو معلم اور استاذ ذمہ داری کے احساس کے ساتھ شاگردوں اور طلبہ کا خیال رکھتاہے اور انہیں شفقت کے ساتھ پڑھاتاہے، اللہ کا محبوب بن جاتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم سے ہمارے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے سوال ہوگا۔ اپنے بچوں اور معاشرے کے مستقبل کے حوالے سے محنت کریں کہ انہیں دیندار، خداپرست بناکر علم و دانش کے زیور سے آراستہ کرائیں۔ اسی صورت میں وہ اپنی دنیا کو آباد کرکے اسے سنبھال سکتے ہیں اور اپنی ابدی زندگی کے لیے تیاری کرسکتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ ملنسار اور سماج دار بن جائیں، اپنے سے زیادہ سماج کے لیے سوچیں اور خودغرض اور مطلبی نہ بنیں۔ مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلبا و اساتذہ معاشرے کی ہدایت، اصلاح اور خدمت کے لیے سوچیں۔
انہوں نے کہا: صرف اپنی ہی آسائش کے لیے محنت نہ کریں، سماج کے دیگر افراد اور طبقوں کے لیے بھی سوچیں۔ بے روزگار اور غریبوں کے لیے روزگار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں ایسی تعلیم دلوائیں جس سے وہ کام کرکے کسی اور کے محتاج نہ بنیں۔ یہ ذمہ دارانہ رویہ ہی ہوگا۔
اپنے خطاب کے آخر میں خطیب اہل سنت نے ناظم زاہدان سمیت بعض بلدیاتی حکام کی موجودی اور ان کے خطاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: زاہدان ایک بڑا شہر ہے جس کے مضافاتی علاقے بطور خاص بعض مسائل سے دوچار ہیں۔ مہنگائی نے بھی سب کی کمر توڑدی ہے۔ لہذا بلدیاتی حکام بھی عوام کے مسائل کم کرنے کی محنت کریں اور شہر کو خوبصورت بنانے کے لیے مزید کوشش کریں۔