- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ہمارے اعمال دنیا و آخرت کو جنت یا جہنم بنادیتے ہیں

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں خطبہ جمعہ (انیس اکتوبر دوہزار اٹھارہ) میں نیک اور برے اعمال کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے دنیا کے تمام بحرانوں اور خاندانی و قبائلی اور معاشرتی مسائل کو بری حرکتوں کا ثمرہ قرار دیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کا آغاز قرآنی آیت: «مَنْ عَمِلَ صالِحاً مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى‌ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَياةً طَيِّبَةً وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ ما كانُوا يَعْمَلُونَ؛ اور تم اس فتنہ سے بچتے رہو جو تم میں سے خاص ظالموں پر ہی نہ پڑے گا اور جان لو کہ بے شک الله سخت عذاب کرنے والا ہے» کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے انسان کی سعادت و شقاوت اور کامیابی و ناکامی کو اس کے اعمال سے وابستہ کیا ہے؛ دراصل یہ ہمارے نیک اعمال ہی ہیں جو جنت کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ جبکہ برے اعمال خود جہنم کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: نیک اعمال سے آخرت میں تو جنت مل ہی جاتی ہے، لیکن اس فانی دنیا کو بھی اللہ تعالی نیک اعمال کی برکت سے لذتوں اور نعمتوں سے مالامال فرمادیتاہے۔ خاندانی، علاقائی اور ہر قسم کے اختلافات ختم ہوجاتے ہیں۔ اگر قوموں کے اعمال ٹھیک ہوں، ان کے حکمران بھی نیک اور عادل و منصف ہوں گے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: آج اگر دنیا میں ہرسو فساد پھیلا ہواہے اور لوگ اعتقادی، اخلاقی اور عملی فساد سے دوچار ہیں اور یہ دنیا ان کے لیے جہنم بن چکی ہے، یہ سب ہمارے اعمال کے نتائج ہیں۔ یہ درست ہے کہ دنیا دارالجزا نہیں ہے اور جزا و سزا آخرت ہی میں مل جاتی ہے، لیکن نیک یا برے اعمال کی بو اسی دنیا میں بھی پہنچ جاتی ہے۔ بری حرکتوں کی وجہ سے اختلافات و فرقہ واریت، قحط و خشکسالی اور مختلف قسم کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ چنانچہ بندہ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی عذاب سے دوچار ہوتاہے۔
انہوں نے کہا: ضرورت اس بات کی ہے کہ سب اپنے اعمال کی اصلاح کریں؛ مختلف قسم کے گناہوں اور ناانصافیوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ورنہ دنیا بھی جہنم بن جائے گی اور آخرت کی ابدی زندگی بھی۔ ہم اپنی تقدیر اپنے ہی ہاتھوں سے متعین کرتے ہیں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: جب دل میں گناہ کا وسوسہ پیدا ہوتاہے، فورا اللہ کی طرف متوجہ ہوں، استغفار کرکے اسی سے پناہ مانگیں۔ عذاب قبر اور آخرت کی ہولناکیوں کو یاد رکھیں۔ ایسی حالت میں اگر گناہوں کو پاؤں تلے روندلیا تو ایمان کی لذت نصیب ہوجائے گی۔
انہوں نے مزید کہا: تمام مصیبتوں کا واحد علاج استغفار اور توبہ ہے۔ گناہوں کو چھوڑدیں اور ظاہر وباطن کو کفرو شرک، نفاق اور ریا جیسی گندگیوں سے پاک و صاف سے رکھیں۔ ظلم نہ کریں تاکہ تم پر ظلم نہ ہو۔ انصاف اللہ کو بہت پسند ہے۔ عدل و انصاف سے دنیا امن کا گہوارہ بن جاتی ہے۔ افراد، خاندان، معاشرے اور اقوام سب امن سے رہیں گے۔
مولانا عبدالحمید نے اولاد میں عدل سے کام لینے پر تاکید کرتے ہوئے کہا: بچوں اور بچیوں میں فرق نہ کریں اور سب کے ساتھ انصاف کا معاملہ کریں۔ تمام بچے ماں باپ کے لخت جگر ہیں۔ بیٹیوں کو میراث سے محروم کرنا بڑی زیادتی ہے اور ایسے افراد اپنے ہی ہاتھوں سے جہنم خریدتے ہیں۔

مساجد و مدارس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا آئین کی خلاف ورزی ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ایران کے طول و عرض میں اہل سنت کی بعض مساجد اور مدارس کے لیے سرکاری حکام کی جانب سے مسائل پیدا کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسے اقدامات کو آئین اور اتحاد بین المسلمین کے خلاف قرار دیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اس حوالے سے کہا: ہمیں مسلسل رپورٹس مل رہی ہیں کہ بعض مدارس کے لیے رکاوٹیں پیدا کی جارہی رہیں اور مساجد میں اقامہ نماز سمیت مذہبی جلسوں کے انعقاد کے لیے کمیٹیوں اور نمازیوں پر دباو ¿ ڈالاجارہاہے۔
انہوں نے مزید کہا: ایسی خبریں سن کر ہمیں حیرت بھی ہوتی ہے اور شرم کا احساس بھی ہوتاہے کہ کس طرح ایک دینی مدرسے کی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے یا کسی مسجد کے داخلی امور میں مداخلت ہورہی ہے۔ یہ سب اتحاد اور یکجہتی کے تقاضوں کے خلاف ہے۔
ممتاز سنی عالم دین نے ایسے اقدامات کو ’بچگانہ‘ یاد کرتے ہوئے کہا: کچھ افراد جو خود کو حاکم و ذمہ دار سمجھتے ہیں، ایسی بچگانہ حرکتوں کا ارتکاب کررہے ہیں۔ مذہبی و تعلیمی امور میں مداخلت اور رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں آئین کے خلاف ہیں؛ قانون کی رو سے ہمیں تعلیم اور عبادت کے مسائل میں آزادی حاصل ہے۔
مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: موجودہ حساس حالات میں جب ہر سو لوگ معاشی بحرانوں سے نالاں ہیں اور معاشی پابندیوں کی وجہ سے شدید شکایات پائی جاتی ہیں، کچھ عناصر لوگوں پر مذہبی دباو ¿ ڈالتے ہیں جو نہایت بے وقوفی کی نشانی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارے ملک اور صوبہ (سیستان بلوچستان) میں کچھ ڈائریکٹرز اور حکام لسانی و مسلکی تعصب رکھتے ہیں؛ ایسے لوگ کمزور شمار ہوتے ہیں جو صرف اپنے ہی لوگوں کو دیکھتے ہیں اور پوری قوم کا خیال نہیں رکھ سکتے ہیں۔ لسانی و مسلکی تعصبات کسی بھی ملک اور معاشرے کے لیے خطرناک ہیں۔ ہمیں فراخدل اور معتدل حکام اور افسروں کی ضرورت ہے۔

اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے ہفتہ ’بیمہ سلامت/صحت انشورنس‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عوام کی صحت کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی خدمات کو سراہا۔
نیز انہوں نے امید ظاہرکی میرجاوہ کے سرحدی علاقے سے اغواہونے والے اہلکار جلد ازجلد رہا ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔