- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ارشادات حکیم الامت حضرت مولانا محمداشرف علی صاحب تھانوی نوراللہ مرقدہ

حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا ارشاد
ملفوظ: ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ غالباً حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ: خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے بیٹھنے سے نگاہ بڑھتی ہے اور پشت کر کے بیٹھنے سے نگاہ گھٹتی ہے۔ اوروہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ چار چیزوں سے عقل بڑھتی ہے:
(۱) کم بولنے سے (۲) مسواک کرنے سے (۳) بوڑھوں کے پاس بیٹھنے سے اور (۴) علماء کے پاس بیٹھنے سے۔

صحبت اہل اللہ
ملفوظ: فرمایا کہ لوگوں کو اہل اللہ کی صحبت و نصیب نہیں ہوئی وہ بالکل بیکار ہیں اگرچہ اہل علم ہی کیوں نہ ہوں۔ محض پڑھنے پڑھانے سے کیا ہوتا ہے یعنی کفایت نہیں ہوتی، یہ نہیں ہوتا کہ نفع نہیں ہوتا۔

علماء میں استغناء
ملفوظ: فرمایا: جی چاہتا ہے کہ علماء میں دو چیزوں بالکل نہ ہوں ایک کبر اور ایک طمع۔ ان کی وجہ سے یہ بڑی دولت سے محروم رہتے ہیں۔ علماء کو اُمراء سے استغناء چاہئے، یہ لوگ ملانوں کو حقیر سمجھتے ہیں اور اس حقیر سمجھنے کا زیادہ سبب یہ ہے کہ سمجھتے ہیں کہ یہ طامع ہوتے ہیں۔ اس سے علم اور اہل علم کی تحقیر اور حقارت ان کے دلوں میں مرکوز ہوجاتی ہے۔ علماء کو ہر وقت اس آیت قرآنی کا مراقبہ رکھنا چاہئے: و للہ خزائن السموات و الارض۔ دین میں ضرور محبوبیت کی شان ہے، ضرور مطلوبیت کی شان ہے اگر علماء اپنی وضع پر رہیں ضرور محبوب رہیں۔ میں استغناء تو کیا ذرا استغناء کی نقل کرتا ہوں مگر کم فہم لوگ اس پر مجھ کو ملامت کرتے ہیں کہ سخت ہے، میں سچ عرض کرتا ہوں کہ میں سخت نہیں ہوں ہاں قلب میں غیرت ضرور ہے۔ اگر کوئی اس کو سختی سمجھے اس کا میرے پاس کوئی علاج نہیں۔ جب یہ لوگ ملانوں کو حقیر سمجھتے ہیں تو ان متکبروں کے ساتھ یہی برتاؤ مناسب ہے۔ آخر غیرت اور حیاء بھی کوئی چیز ہے لیکن اگر کسی کو حس ہی نہ ہو تو اس کا کیا علاج؟

فتنوں سے بھرا زمانہ۔۔۔۔۔ صحبت بزرگان
ملفوظ: ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ زمانہ نہایت ہی پُرفتن ہے۔ اس میں تو ایمان ہی کے لالے پڑے ہیں، اسی وجہ سے میں نے بزرگان دین کی صحبت کو فرض عین قرار دیا ہے۔ میں تو فتویٰ دیتا ہوں کہ صحبت، بزرگان دین کی اس زمانے میں فرض عین ہے، اور اس میں شبہ کیا ہوسکتا ہے اس لئے کہ جس چیز پر تجربہ سے تحفظ دین، تحفظ ایمان موقوف ہو اس کے فرض ہونے میں کیا شبہ کی گنجائش ہے؟ نیز فرمایا کامل کی صحبت اکسیر اعظم ہے دیکھ لیجئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کیا کچھ ہوگئے!

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت
ملفوظ: ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شخص خواب میں دیکھے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوتے ہیں، مگر ہیئات اور حالات کا اختلاف اس لئے ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئینہ بھی ہیں۔ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں حقہ پیتے دیکھا میں نے کہا کہ تم نے اپنی حالت دیکھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئینہ ہیں۔ اپنی حالت تم کو نظر آئی۔

ایمان پر خاتمہ
ملفوظ: ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت جس کو خواب میں ہوجاتی ہے اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ (ان شاء اللہ)

کفار کے لئے دوزخ جیل خانہ، مومنین کے لئے حمام
ملفوظ: ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ: وہ (اللہ تعالی) اہل ایمان کے ساتھ ایسے رحیم اور کریم ہیں کہ اگر کوئی مؤمن دوزخ میں بھی جائے گا تو وہ دوزخ بھی دوسری نوع کی ہوگی ۔ کیونکہ دوزخ میں دو حیثیتیں ہیں۔ وہ دوزخ مسلمانوں کے لئے اور طرح کی ہوگی، کفار کے لئے اور طرح کی ہوگی۔ یعنی کفار کے لئے تو وہ جیلخانہ ہے اور مسلمانوں کے لئے حمام ہے اور بعض مومنین کا نور ایمان تو اتنا قوی ہوگا کہ پل صراط پر ان کے گزرنے کے وقت آگ کہے گی کہ جزیا مؤمن فان نورک اطفا ناری، یعنی اے مومن جلدی گزرجا۔
تیرے نور ایمان کی وجہ سے میں ٹھنڈی ہوئی جاتی ہوں، اگر تو ذرا ٹھہر گیا تو میں پٹ ہوجاؤں گی، اور بعضے ضعیف الایمان جو دوزخ میں جائیں گے بھی، ان کا جانا تزکیہ و تطہیر کے لئے ہوگا۔ چنانچہ کفار کی وعید میں ارشاد ہے، حق تعالی فرماتے ہیں لایزکیھم اور وعید میں مفہوم مخالف معتبر ہوتا ہے۔ پس ثابت ہوگیا کہ مومن کے لئے دوزخ موجب تزکیہ ہوگا۔ حاصل یہ کہ کفار دوزخ میں تعذیب کے لئے بھیجے جائیں گے اور مسلمان تہذیب کے لئے۔ یعنی دوزخ میں مؤمن پاک صاف کرنے کے لئے جائے گا جو اس کے لئے مثل حمام کے ہوگا۔ جب یہ ہے تو تم کیوں میلے کچیلے ہوکر جاتے ہو، پاک صاف ہوکر جاؤ۔ پھر حمام کی صورت بھی نہ دیکھنے میں آئے گی۔ نیز ایک تفاوت دوزخ میں مومن اور کافر کا کشفی ہے۔ یہ کشف شیخ اکبر رحمہ اللہ کا ہے کہ:
مومن دوزخ میں سوئیں گے بھی اور خواب بھی دیکھیں گے کہ جنت ہے۔ حوریں ہیں، قصور ہیں اور یہ سونا ایسا ہوگا کہ جیسے کلورا فارم سنگھا کر آپریشن کیا جاتا ہے۔ اس لئے دوزخ میں مومن کو موت کی سی حالت دے دی جائے گی۔ البتہ جنت میں نیند نہ ہوگی کیونکہ یہ نیند مشابہ موت کے ہے اور جنت میں موت نہیں۔ بہرحال دوزخ مومن کے لئے مطہر ہے گو بعض اوقات تطہیر مولم بھی ہوتی ہے۔ دیکھئے بعض میل تو ایسا ہوتا ہے کہ ٹھنڈے پانی سے دور ہوجاتا ہے اور بعض گرم پانی سے اور بعض بدون صابن لگائے دور نہیں ہوتا اور بعض بھٹی پر چڑھائے بغیر نہیں جاسکتا۔ ٹھنڈے پانی سے مراد توبہ ہے۔ گرم پانی سے مراد بیماری و حوادث ہیں۔ صابن سے مراد موت ہے۔ بھٹی سے مراد دوزخ ہے۔ پس مومن کا دوزخ میں جانا میل کچیل، داغ دھبّہ سے پاک صاف ہونا ہے۔ یہاں کی آگ میں تطہیر کی خاصیت رکھی گئی ہے۔ دیکھو جیسے گوبر ناپاک مگر جل کر، راکھ ہو کر پاک ہوجاتا ہے۔ اسی طرح تم بھی خدا تعالی کی محبت اور عشق میں جل کر فنا ہوجاؤ، مٹ جاؤ، سوختہ افروختہ ہوجاؤ۔ بس پاک صاف ہوکر پہنچو گے۔ اسی کو فرماتے ہیں:
افروختن و سوختن و جامہ دریدن پروانہ زِ من، شمع زِ من، گل زِ من آموخت
(روشن کرنا، جلنا اور کپڑے پھاڑنا، پروانے نے، شمع نے اور پھول نے مجھ سے سیکھا ہے۔)
ملفوظ: ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ:
نفس ایمان پر بھی دخولِ جنت ہوجاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ دخول اولی نہ ہو۔