- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

زبان کی آفتیں

’’باجی! میں مدینہ طیبہ سے بات کر رہی ہوں نعیمہ عتیق (فرضی نام)، مسئلہ معلوم کرنا تھا امام صاحب سے‘‘
’’کیسا مسئلہ بہن جی؟‘‘
’’وہ باجی! بڑا مسئلہ ہوگیا ہے۔ میری ’’اُن‘‘ سے یہاں لڑائی ہوگئی، بات بڑھ گئی انہوں نے غصے میں کہہ دیا کہ تم نے مدینہ میں رہتے ہوئے اگر اب مجھ سے بات کی تو مجھ پر حرام ہوجاؤ گی۔‘‘
’’اچھا پھر؟‘‘
’’جی! وہ میں نے پھر بھی بات کرلی (کیوں کہ زبان قابو میں جو نہ تھی) اب مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے باجی۔‘‘
بہن صاحبہ کا یہ مسئلہ جب مولانا صاحب کے سامنے رکھا تو پتا چلا کہ محترمہ کو طلاق بائنہ پڑ چکی ہے۔
’’ہائے اب کیا ہوگی باجی؟۔۔۔ کچھ کیجیے باجی!‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
مجبوراً مدینہ طیبہ میں ہی بندی کے پھوپھی زاد بھائی مفتی محمداکبر مدنی سے بات کی گئی۔ انہوں نے گواہ ڈھونڈھے اور پھر تجدید نکاح ہوا۔
اب دوسری کارگزاری بھی سن لیجیے:
میری بھانجی ساجدہ اسلم صبح نماز کے لیے اٹھی۔ نل میں دیکھا تو پانی ندارد۔۔۔ نیچے والی منزل میں بھانجی کی نند رہتی ہیں۔ جو بے بے کے نام سے موسوم ہیں۔ بھانجی نے آواز دی کہ موٹر چلاؤ۔ بے بے نے سنا ہی نہیں۔ بھانجی صاحبہ نے چیخ کر کہا: ’’ائے بے بے ہم نے تمہارے جنازے نہیں پڑھنے اور نہ ہی تمہاری فاتحہ پڑھنی ہے۔ موٹر چلاؤ کہ پانی آئے۔‘‘
بس جی یہ ’’شیریں‘‘ کلام سن کر بے بے صاحبہ کا پارا جو ہائی ہوا تو نیچے ہی سے چلائیں۔
’’جنازہ پڑھ تو اپنے باپ کا۔۔۔ اور فاتحہ پڑھ تو اپنی ۔۔۔‘‘ اس کے ساتھ ہی نیچے سے اوپر آکر دہاڑتے ہوئے بھانجی کے سر کے بال پکڑ لیے۔ بھانجی صاحبہ نے بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، جھٹکے سے بال چھڑائے اور برتنوں میں پڑی ہوئی ہنڈیا اٹھا کر بے بے کے سر پر جو ماری تو ٹھاہ کر کے مٹی کی ہنڈیا ذرہ ذرہ ہوگئی۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ تفصیل سنا کر ہم آپ بہنوں کو مزید خوف زدہ نہیں کرنا چاہتے۔ بس اتنا جان لیجیے! کہ جو ہوا زبان کے کڑوے بول بولنے کی وجہ سے ہی ہوا۔ اے کاش کہ ہم گوشت کے اس لوتھڑے کو قابو میں کرلیں تو بہت سارے گناہوں سے بچا جاسکتا ہے۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ:
’جسمُہ صغیر و جُرمہ کبیر‘
’’کہ زبان کی جسامت تو چھوٹی ہے، لیکن اس کے جرم بہت موٹے (نقصان دہ) ہیں۔‘‘
چناں چہ غیبت زبان سے ہی کی جاتی ہے جس کے بارے میں حدیث پاک میں فرمایا گیا:
’الغیبۃ اشد من الزنا۔۔۔‘
’’غیبت زنا سے بھی بدتر ہے۔‘‘
زبان سے ہی انسان جھوٹ بولتا ہے، اسی زبان سے بہتان لگتے ہیں، چغل خوری ہوتی ہے، طعن و تشنیع ہوتی ہے اور گالم گلوچ کی جاتی ہے۔ اب زبان تو چھوٹی سی ہے، لیکن یہ کتنے بڑ ے بڑے گناہوں کا باعث بنتی ہے۔
سیدنا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھلے ہوں گے۔ اکثر اپنی زبان کو پکڑ کر فرماتے تھے کہ: ’’اے زبان! اکثر لوگ تیری وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔‘‘
ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ آدمی نیک اعمال کرتا رہتا ہے اور جنت کے بالکل قریب ہوجاتا ہے، لیکن پھر وہ زبان سے ایسا کوئی ناشکری کا لفظ بولتا ہے کہ اللہ تعالی اسے جہنم میں الٹا پھینک دیتے ہیں۔ آج کسی کو کمینہ کہنا آسان، ذلیل کہنا آسان، بے ایمان کہنا آسان، لیکن کل قیامت کے دن اللہ تعالی اپنے جلال میں ہوں گے تو اس وقت اگر ہم سے پوچھ لیا کہ تم نے میرے فلاں بندہ یا بندی کو یہ اور یہ کیوں کہا تھا؟ تو جواب دینا کتنا مشکل ہوگا۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’مومن کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہوتی ہے جب وہ بولنے کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اپنے دل سے سوچتا ہے اور منافق کی زبان دل کے سامنے ہوتی ہے جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے زبان سے کہہ دیتا ہے پہلے دل میں نہیں سوچتا۔‘‘ (بحوالہ: احیاء العلوم)
عزیز قاریات بہنو! آج گھروں کی لڑائی ہو یا خاندانوں کی رنجشیں، امت مسلمہ میں فرقہ وارانہ فسادات کی پھیلی ہوئی آگ ہو یا موجودہ سیاست میں حریفوں کی آپسی تو تو، میں میں۔۔۔ ان کے پیچھے ایک سو ایک فیصد زبان کا غلط منفی استعمال ہی ہے۔ اگر شوہر کو غصہ آرہا ہے اور بیوی کی طرف سے مسکرا کر اس موقع پر دو میٹھے بول بول دیے جائیں تو کسی لڑائی جھگڑے کی نوبت ہی نہ آئے۔
امام غزالی رحمہ اللہ نے زبان کی بے شمار آفتیں تحریر فرمائی ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں:
* لایعنی کلام (فضول گوئی)۔ * زیادہ بولنا۔ * باطل کا ذکر کرنا (جس کا تعلق معاصی سے ہو)۔ * بات کا کاٹنا اور جھگڑا کرنا۔ * غیبت کرنا اور بہتان لگانا۔ * تصنع بازی کرنا (یعنی باتوں کو مصالحہ لگا کر پیش کرنا)۔ * فحش گوئی یا سب و شتم (گالم گلوچ)۔ * لعنت کرنا۔ * راگ یا ناجائز شاعری۔ * مذاق کرنا (جو شرعی حدود سے متجاوز ہو)۔ *مذاق اڑانا (دوسروں کی تضحیک کرنا)۔ * افشاءِ راز (یعنی مسلمانوں کے راز آشکار کرنا)۔ * جھوٹا وعدہ کرنا۔ * جھوٹ بولنا اور قسم کھانا۔
یہ سب زبان کی وہ آفتیں ہیں جو امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب احیاء العلوم میں تفصیل سے ذکر فرمائی ہیں۔
عزیز قاریات! آپ یہ بھی بخوبی جانتی ہیں کہ اسی زبان سے کلمہ طیبہ، درود شریف اور قرآن پاک کی تلاوت بھی ہوتی ہے۔ اسی زبان سے اللہ کا ذکر ہوتا ہے اور دین کی دعوت دی جاتی ہے۔ دیگر ہزاروں خیر کے کلام اسی زبان ہی سے منسوب ہوتے ہیں۔ اسی زبان سے دلوں کو جوڑا جاتا ہے اور توڑا بھی جاسکتا ہے۔ بس بات تو صحیح یا غلط استعمال کی ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی زبان کو بولنے سے روکنے کے لیے منہ میں کنکریاں ڈال لیا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، زبان کے علاوہ کوئی چیز (منہ میں) لمبی قید کی محتاج نہیں۔
حضرت طاؤس رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ: ’’میری زبان درندہ ہے۔ اگر میں اسے آزاد چھوڑ دوں تو خطرہ ہے کہ کہیں یہ مجھے کھا نہ جائے۔‘‘
حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’زبان کی حفاظت درہم و دینار کی حفاظت سے افضل ہے۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے: ’مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید۔‘ (سورۂ ق آیت نمبر ۱۶)
’’وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا، مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لیے) تیار رہتا ہے۔‘‘ اپنی بات کو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک بات پر ختم کرتی ہوں۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس کا کلام زیادہ ہوتا ہے اس کی لغزشیں زیادہ ہوتی ہیں اور جس کی لغزشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں اور جس کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں وہ آگ کا زیادہ مستحق ہوتا ہے۔‘‘ (بحوالہ: بیہقی، احیاء العلوم)