- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

عاشقانہ ومحبانہ عبادت!

بشریت کو قدم قدم پر ٹھوکریں لگتی ہیں، کبھی نفسانی خواہشات کی راہ سے اور کبھی عدوِ مبین شیطان لعین کے فریب وتلبیس کی راہ سے اور کبھی شیاطین الانس ( انسانی شیطانوں) کے وساوس اور غلط ماحول کے برے اثرات سے، لیکن ارحم الراحمین کی رحمتِ کاملہ قدم قدم پر اس کمزور فطرت انسان کی برابر دستگیری فرماتی رہتی ہے۔ عقل جیسی نعمت عطا فرمائی اور پھر عقل کی رہنمائی کے لیے انبیاء B کی بعثت ورسالت اور آسمانی تعلیمات کا نظام جاری فرمایا اور اُمتِ محمدیہ (l) کے لیے تو اس رحمتِ کاملہ کے مظاہرِرحمت کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ عبادت و عبودیت کے مظاہر، ( افعال و اعمال) میں انتہائی تیسیر وتسہیل (سہولت اور آسانی) اور پھر اس عبادت پر بے کراں اجر و ثواب اور قدم قدم پر قبولیت اور رضامندی کی بشارتیں، انہی بے کراں نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ماہِ رمضان المبارک ہے، جو سرتا پا ماہِ رحمت ہے اور ماہِ برکت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ حضرت سلمان فارسی q کی ایک طویل روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم a نے ایک مر تبہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخوں میں خطبہ دیا اور فرمایا:
’’ اے لوگو! تم پر ایک عظیم الشان برکتوں والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، جس میں ۱:… ایک رات (شب قدر) ایسی ہے کہ اس میں عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ ۲:… اس مہینہ کے دنوں میں روزے فرض ہیں اور اس کی راتوں میں نمازیں پڑھنا بہت زیادہ باعثِ خیر و برکت ہے۔ ۳:… اس مہینہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ہے۔ ۴:… اور فرض کا اجر وثواب ستر گنا ملتا ہے۔ ۵:… یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کابدلہ جنت ہے۔ ۶:… مسلمانوں خصوصاً فقراء کے ساتھ مواسات وہمدردی کا مہینہ ہے۔ ۷:… مومن کا رزق اس مہینہ میں بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ ۸:… ایک روزے دار کا روزہ افطار کر انے والے کے بہت سے گناہوں کی مغفرت ہوجاتی ہے اور دوزخ کی آگ سے رہائی نصیب ہوتی ہے اور خود اس روزہ دار کو اپنے روزہ کا ثواب الگ ملتا ہے اور لطف و کرم یہ ہے کہ روزہ دار کا ثواب بالکل کم نہیں ہوتا اور پھر آپa نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ روزہ کی یہ افطاری چاہے دودھ کی لسی ہو یا ایک کھجور کا دانہ یا پانی کا ایک گھونٹ ہو۔ ۹:… کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانے کے صلہ میں حوضِ کو ثرسے وہ سیرابی نصیب ہو گی جس کے بعد کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ ۱۰:… اس مہینہ کا پہلا عشرہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، درمیانی عشرہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت ہے اور آخری عشرہ دوزخ کی آگ سے رہائی کا پیغام ہے۔ ۱۱:… جس روزہ دار نے اپنے غلام ( یا نوکر یا مزدور) کا بوجھ ہلکا کردیا اس کے گناہ بھی معاف ہوجائیں گے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصوم، الفصل الثالث، ص:۱۷۳، ط:قدیمی)
احادیث ِنبویہ میں ماہِ رمضان کے فضائل وبرکات کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جس کے بیان کرنے کی ان صفحات میں گنجائش نہیں، اسی ایک روایت پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

ولیِ کامل بنانے کا آسمانی نسخہ

ماہِ رمضان درحقیقت مومن کو ولی کامل بنانے کا ایک عجیب آسمانی نسخہ ہے، قرآن حکیم میں ارشاد ہے :
’’أَلاَ إِنَّ أَوْلِیَائَ اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ، اَلَّذِیْنَ أٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ‘‘۔ (یونس:۶۲، ۶۳)
’’یادرکھو! بلاشبہ اللہ کے ولی اور دوست وہ ہیں جن کو نہ کوئی خوف (ودہشت) ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے ۔‘‘
اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کا ولی -جو ہر خوف وغم سے آزاد ہوتا ہے- ہر وہ شخص ہے جس میں یہ دو وصف موجود ہیں: ۱:… ایمان اور ۲:… تقویٰ، گویا کمالِ تقویٰ کا دوسرا نام ولایت ہے۔ اس ارشادِ گرامی کے بعد حسبِ ذیل آیتِ کریمہ ملاحظہ ہو:
’’یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْاکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَاکُتِبَ عَلٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۳)
’’ اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں حصولِ تقویٰ کا ذریعہ روزے کو قرار دیا ہے۔ دونوں آیتوں کو ملانے سے صاف نتیجہ نکلا کہ روزہ ولی اللہ بننے کا وسیلہ ہے۔

تقویٰ حاصل کرنے کا ذریعہ
اب ذراغور فرمائیں! روزہ رکھنے سے تقویٰ کیونکر حاصل ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ روزہ رکھنا ایک فرض حکمِ خداوندی کی تعمیل ہے، روزہ رکھنے سے منہیات (ممنوع کاموں) اور برائیوں سے اجتناب میسر آئے گا۔ برائیاں کچھ تو ایسی ہیں جن کا تعلق زبان سے ہے، کچھ کا تعلق پیٹ سے ہے، کچھ کا تعلق شرمگاہ سے ہے اور ان سب کا تعلق نفسِ انسانی کی خواہشات سے۔ نفسانی خواہشات بھی مختلف قسم کی ہیں: کچھ خصلتیں تو انسان میں در ندوں کی ہیں، دوسروں کو مارنا، پیٹنا، توڑنا، پھوڑنا اور غیظ و غضب کے تقاضوں کو پورا کرنا۔ کچھ خاصیتیں جانوروں کی ہیں: شکم پروری، تن پروری، کھا نے پینے اور سونے وغیرہ کے مشاغل اور اس کے نتیجہ میں حوائجِ ضروریہ۔ کچھ نفسیاتی تقاضے شرم گاہ سے متعلق ہیں جن کو ہم عرف میں نفسانی خواہشات کہتے ہیں۔ یہ تینوں نفسانی قوتیں اور ان کی خواہشات جب تک قابو میں نہ آئیں‘ تقویٰ کا حصول ممکن نہیں۔
اسلام یہ چاہتا ہے اور تمام علماء اخلاق کا کہنا بھی یہی ہے کہ ان تینوں قوتوں کی تہذیب واصلاح‘ مجاہدہ اور ریاضت کے ذریعہ ہوجائے، یعنی ان کا رُخ صحیح ہوجائے، ان کا استعمال بروقت اور برمحل ہو، بے جا اور ناوقت استعمال اور غلط راہ روی سے کلی طور پر اجتناب ہوجائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے حکماء وعقلاء میں ہمیشہ سے چند اُصولی اُمور پر اتفاق رہا ہے: ’’۱:… تقلیلِ طعام (کم خوری)، ۲:… تقلیلِ کلام (کم گوئی)، ۳:… تقلیلِ منام (کم خوابی)، ۴:… تقلیلِ اختلاط مع الانام ( لوگوں سے کم ملنا جلنا)۔‘‘
ماہِ رمضان کے روزے ان تینوں مقاصد کو پورا کرتے ہیں: روزہ دار کو ۔۔۔۔ ۱:۔۔۔۔۔ دن میں طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات پورا کرنے سے بالکل رو ک دیا گیا ہے۔ ۲:۔۔۔۔۔ رات میں تراویح، قیامِ لیل، شب بیداری کے ذریعہ نیند پر کنٹرول کر نے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ ۳:… تلاوتِ کلام اللہ اور ذکر اللہ واستغفار کی کثرت کی تر غیب دے کر قلتِ کلام (کم گوئی) کی تدبیر کی گئی ہے۔ ۴:… رمضان کے عشرۂ اخیرہ میں اعتکاف کو مسنون قر ار دے کر لوگوں سے کم ملنے جلنے اور بلاضرورت میل جول ترک کر نے کی عادت پید اکرنے کی تدبیر کی گئی ہے۔
پورے ایک ماہ یہ ریاضت کرانے کا مقصد یہی ہے کہ یہ خصلتیں مستقل عادات و اخلاق بن جائیں، چنانچہ پورے تیس دن سحری کا حکم دے کر سحرخیزی کی عادت ڈالی جاتی ہے اور پورے ایک ماہ تراویح کا حکم دے کر شب میں کثرت سے نفلیں پڑھنے کی عادت ڈالنا مطلوب ہے۔
یہی روزہ کے مقاصد ہیں، ان کی اہمیت کا اندازہ کر نے کے لیے نبی کریم a کے حسبِ ذیل ارشاداتِ عالیہ کامل غور و فکر اور تو جہ کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں اور ان پر عمل کیجئے:
۱:۔۔۔۔۔۔’’ من لم یَدَعْ قولَ الزورِ و العملَ بہٖ فلیس للّٰہ حاجۃٌ فی أن یَّدَعَ طعامَہٗ وشرابَہٗ۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب من لم یدع قول الزور و العمل بہ، ج:۱، ص:۲۵۵، ط: قدیمی)
’’ جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور جھوٹے (بڑے) کام کرنے نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس سے بھی کوئی سر وکار نہیں ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑے (جب روزہ کا مقصد پورا نہیں کرتا تو بھوکا پیاسا مرنے کی کیا ضرورت ہے ؟)۔
۲:۔۔۔۔۔۔’’وإذا کان یوم صوم أحدکم فلا یرفث ولایصخب فإن سابَّہٗ أحدٌ فلیقل إنی صائم۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب ھل یقول إنی صائم إذاشتم؟، ج:۱، ص:۲۵۵، ط:قدیمی)
’’ اور جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو تو اس کو نہ کوئی بے شرمی وبے حیائی کی بات کرنی چاہیے اور نہ شور وشغب کر نا چاہیے۔ اگر اس سے کوئی سخت کلامی یا گالم گلو چ یا ہاتھا پائی کرے تو اس کے جواب میں بس اتنا کہہ دے میرا روزہ ہے۔‘‘
۳: ۔۔۔۔۔۔’’ کم من صائم لیس لہٗ من صیامہٖ إلا الظمأ و کم من قائم لیس لہٗ من قیامہٖ إلا السَھر۔‘‘ (سنن الدارمی، کتاب الصوم، باب فی المحافظۃ علی الصوم، ج:۲، ص:۳۹۰، ط:دارالکتاب العربی، بیروت)
’’ بہت سے روزہ دار ہیں جن کے روزہ کا حاصل بجز بھوک پیاس کی مصیبت جھیلنے کے اور کچھ نہیں اور کتنے ہی راتوں کو نماز پڑھنے والے ہیں جن کی نمازوں کا حاصل بجز مفت کی جگائی کے کچھ نہیں۔‘‘
۴:…’’ لیس الصیام من الأکل والشرب ، إنما الصیام من اللغو والرفث، فإن سَابَّکَ أحدٌ أوجھل علیک فقل: إنی صائم۔‘‘ (صحیح ابن خزیمۃ، کتاب الصیام، باب النہی عن اللغوفی الصیام، ج:۳، ص:۲۴۲، ط:المکتب الاسلامی، بیروت)
’’ روزہ صرف کھا نے پینے سے رُکنے اور بچنے کا نام نہیں، روزہ تو حقیقت میں صرف بے ہودہ اور بے حیائی کی باتوں سے رُکنے اور بچنے کا نام ہے، پس اگر کوئی تمہیں گالی دے یا تمہارے ساتھ بد تمیز ی کرے تو تم کہہ دو! میاں! میرا روزہ ہے۔‘‘
۵:…’’رُبَّ صائمٍ لیس لہٗ من صیامہٖ إلا الجوع۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، ابواب ماجاء فی الصیام، باب ماجاء فی الغیبۃ والرفث للصائم، ص:۱۲۱، ط:قدیمی)
’’ بہت سے روزے دار ہوتے ہیں جن کے روزوں کا حاصل بھوکے مرنے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
۶:…’’ من لم یدَعِ الخنا و الکذب فلا حاجۃ للّٰہ أن یدعَ طعامَہٗ وشرابَہٗ۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی، ج:۴، ص:۶۵، ط:دارالحرمین، قاہرۃ)
’’جو روزہ دار فحش کام ( گالی گلوچ، بے شرمی کی باتیں) اور جھوٹ نہیں چھوڑتا اللہ کو اس کے کھا نا پینا چھوڑنے سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘
۷:…’’ الصیام جُنَّۃٌ مالم یخرقھا قیل: و بم یخرقھا؟ قال: بکذب أو غیبۃ۔‘‘ (سنن النسائی، کتاب الصیام، باب فضل الصیام، ج:۱، ص:۳۱۱، ط:قدیمی)
’’روزہ (گناہوں سے بچانے والی) ایک سَپَر (ڈھال)ہے جب تک روزہ دار اس کو نہ توڑے، عرض کیا گیا: اس ڈھال کو توڑنے والی کیا چیز ہے؟ آپ aنے فرمایا: جھوٹ اور غیبت۔‘‘
ان احادیث کو اپنے روزوں کا جائزہ لینے کی غرض سے دوبارہ غور سے پڑھئے اور دیکھئے کہ نبی کریم a نے کیسی کیسی تدبیروں سے اپنی اُمت کی تربیت اور ان کے روزوں کی حفاظت فرمائی ہے، تاکہ روزوں کا خاطر خواہ فائدہ تقویٰ اور پرہیز گاری کی تربیت حاصل ہو۔

مجاہدۂ نفس اور روزہ
الغرض اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان المبارک کو مجاہدۂ نفس کا مہینہ بنایا ہے، تاکہ اُمت کی ظاہری وباطنی تربیت اور اصلاح ہوسکے اور ان کو یہ موقع اس لیے دیا ہے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور گزشتہ پورے سال میں جو کوتاہی کر چکے ہیں اس کا تدارک کریں اور آئندہ کے لیے بھی ایسی تیاری کرلیں کہ جلد نفس وشیطان کے اثرات سے متأثر نہ ہوں۔ دن کو روزہ جیسی مبارک عبادت فرض کی جو عجیب وغریب اصلاحی تدابیر پر مشتمل ہے اور یہاں تک حکم دیا ہے کہ روزہ دار کسی سے سخت کلامی بھی نہ کرے اور کوئی بے حیائی کی بات زبان پر نہ لائے، بلکہ اگر کسی نے سخت کلامی کی اور کوئی تکلیف پہنچائی تو بغیر روزہ کے اگرچہ اتنی ہی مقدار میں بدلہ لینے کی اجازت ہے، لیکن روزے کی حالت میں اس کی بھی اجازت نہیں، صرف اتنا کہہ دے کہ میرا روزہ ہے، یعنی جواب سے معذور ہوں۔ افطاری وسحری میں اگر اعتدال سے کام لیا جائے اور شرعی ہدایات اورنبوی ارشادات کے مطابق روزہ رکھ لیا جائے تو درحقیقت انسانی زندگی میں انقلاب پیدا ہوجائے گا اور روحانیت ترقی کر کے ایسی منزل پر پہنچ جائے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت قلب میں جلوہ گر ہوجائے اور محبتِ الٰہی کا وہ اثردل میں پیدا ہوجائے گا کہ کسی اور تد بیر سے ممکن ہی نہیں ۔ رات کو تراویح کی عبادت مقرر کر دی، تاکہ نماز اور اللہ تعالیٰ کے کلام پاک سے نفسِ انسانی پر وہ نقوش مرتسم ہوجائیں جو کسی اور تد بیر سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ قرآن کریم زبان سے خود پڑھتا ہے یا کانوں سے سنتا ہے، قیام ورکوع وسجود سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں عبادت میں مشغول ہے، کبھی دعا میں سربسجود ہے اور کبھی تسبیح وتہلیل وردِ زبان ہے۔ قدرت کیسے روحانی عجیب و غریب سیر وسلوک سے منازل عشق کا سفر طے کر ارہی ہے، سبحان اللہ!
تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد کا جو مختصر وقفہ ہے، اس میں تسبیحات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی تقدیس وبزرگی کی جاتی ہے اور بندہ اپنے خدا کے حضور میں حاضر رہتا ہے اور بر کاتِ روحانی سے مالامال ہوتا ہے، یہ بڑا قیمتی وقت ہے، اس میں توجہ الیٰ اللہ سے غفلت نہیں ہونی چاہیے، کلمۂ تمجید تو ہر شخص کو یاد ہوتا ہے، یعنی: ’’سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلٰہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر و لاحول ولا قوۃ إلا باللّٰہ العلی العظیم‘‘ وہ پڑھ لیا کرے، یا ’’سبحان اللّٰہ وبحمدہٖ سبحان اللّٰہ العظیم‘‘ کاوِر دجاری رکھے اور فقہاء نے ایک خاص تسبیح جو بہت ہی جامع ہے لکھی ہے، وہ یہ ہے: ’’ سبحان ذی الملک والملکوت، سبحان ذی العزۃ والعظَمۃ والقدرۃ والکبریاء والجبروت، سبحان الحی الذی لا ینام ولا یموت، سبوح قدوس ربنا ورب الملائکۃ والروح ، لا إلٰہ إلا اللّٰہ ، نستغفر اللّٰہ ، نسألک الجنۃ ونعوذبک من النار‘‘ اس کو تین مرتبہ ہر ترویحہ میں اور وتر اور تراویح کے وقفہ میں پڑھا کریں۔
غرض اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان میں شرعی احکام کا ایسا پروگرام بنایا کہ انسان چاہے تو اپنی پوری زندگی میں صالح ومتقی بن جائے۔ نیز ماہِ صیام میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب دے کر متقی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو سخی بنانے کی بھی تدبیر فرمائی اور اس کے طبعی بخل کی اصلاح اس طرح کی۔ الغرض پورے مکارمِ اخلاق، تقویٰ وصلاح، نیکو شعاری اور نیک گفتاری، جود و سخا اور کرمِ نفس کی ایسی تلقین کی گئی اور اس کے لیے ایسا پروگرام بنایا گیا کہ عقلِ انسانی حیران رہ جاتی ہے اور اس سے بہتر تدبیر کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ قرآن کریم کے ایک لفظ میں ان سب باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا، ارشاد ہے: ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ یعنی ’’تم پر روزہ اس لیے فرض کیا گیا تاکہ تم متقی وصالح بن جاؤ۔‘‘

دینی تربیت اور ماہِ رمضان
آج کل والدین اپنی اولاد کی دینی تربیت میں بے حد کوتاہی کرتے ہیں، حالانکہ جس طرح ان کے ذمہ فرض ہے کہ خود نماز پڑھیں، صالح اور متقی بنیں، اسی طرح ان کے ذمہ یہ بھی فرض ہے کہ اپنی اولاد کو اور گھر والوں کو نماز سکھائیں اور پڑھائیں، چنانچہ حکم ہے کہ جب بچہ سات برس کا ہوجائے تو اس کو نماز پڑھنے کا حکم دیں، گویا نماز سکھانا اس سے بھی پہلے ہوگا اور اگر دس سال کا ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو والدین اس کو پیٹیں اور نماز پڑھائیں۔ الغرض دینی تربیت دینا اور صالح بنانا بھی ان کے ذمہ فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں تاکیداًفرمایا ہے: ’’یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا‘‘(التحریم:۶) یعنی’’ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ ۔‘‘ ماہِ رمضان سے یہ فائدہ بآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے، اس لیے کہ ان دنوں مغرب اور عشاء کی نماز میں بچوں کو آنے کا طبعاً شوق رہتا ہے، اسی طرح سحری میں اُٹھنے کا بھی شوق ہوتا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قدرتی روشنی ان کے دل میں ہوتی ہے۔ اگر بچے کے اس فطری جذبہ اور شوق وصلاحیت سے کام لیا جائے تو نہایت آسانی سے نماز وسحرخیزی کا عادی بنایا جاسکتا اور یوں رمضان کی بر کت سے اپنی اولاد کو صالح بنانے کی بھی تدبیر کی جاسکتی ہے۔ اگر انسان خود ان باتوں پر عمل کرے تو خود بخود اولاد کو صالح و نیک بنا نے کی صورتیں نکل آتی ہیں، نیز چونکہ حدیث میں اس مہینہ کو ہمدردی کا مہینہ فرمایا گیا ہے، اس لیے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات اور محبت قائم کر نی چاہیے۔ ایک دوسرے کے ہاں تھوڑا سا ہدیہ بھیجنے میں بھی بہت ساثواب ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے دلوں میں محبت بڑھادیتے ہیں اور نیکی کا ذریعہ بنادیتے ہیں، اپنے چاروں طرف نیکی کی یاد دلانا اور نیکی پھیلانے کی کوشش کرنا اللہ تعالیٰ نے مسلمان پر فرض کیا ہے، لہٰذا محض اللہ تعالیٰ کے لیے باہمی محبت اور نیک برتاؤ ضروری ہے۔ رمضان کے مہینے سے اس کا م میں بھی بڑی مد دملتی ہے اور بہت بر کت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تو فیق عطا فرمائے کہ ہم رمضان کی بر کتوں سے مالا مال ہوں اور اس عاشقانہ ومحبانہ عبادتِ الٰہی کے ثمرات وآثار سے بیش از بیش حصہ نصیب ہو، آمین۔
وصلی اللّٰہ علٰی خیر خلقہٖ حبیب رب العالمین وخاتم النبیین محمد وآلہٖ وصحبہٖ أجمعین