- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے لیے حجاب کے خصوصی احکام

’’الشریعہ‘‘ کے اگست ۲۰۰۷ء کے شمارے میں جناب ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی کا مضمون ’’امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے لیے حجاب کے خصوصی احکام‘‘ اور ستمبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں اس مضمون پر محمد رفیق چودھری صاحب کی تنقید بعنوان ’’امہات المومنین اور آیت حجاب کا حکم‘‘ نظر سے گزرے۔ اس سلسلے میں سورۃ احزاب کی آیت ۳۳ کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں، اس آیت کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
’’اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو، دور جاہلیت کی عورتوں کی طرح اپنی زینت کی نمائش کرتی نہ پھرو، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اللہ چاہتا ہے یہ کہ تم اہل بیت سے آلودگی کو دور رکھے اور تمہیں اچھی طرح پاک کردے۔‘‘ (احزاب: ۳۳)
اس آیت کے حوالے سے بہت سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں اللہ تعالی نے عام عورتوں کے لیے بے شمار احکامات دیے ہیں اور ان میں سے بہت سے احکامات تو خالص نسوانی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں، پھر کسی ایک جگہ بھی اللہ تعالی نے یہ اسلوب کیوں اختیار نہیں کیا جو مذکورہ آیت میں اختیار کیا ہے کہ مخاطب تو امہات المومنین کو کیا جائے مگر حکم میں شامل ہوں تمام خواتین؟ آخر صرف اس آیت میں یہ منفرد اسلوب اختیار کرنے میں کیا حکمت ہے؟ خاص طور پر ایک سورت کے اندر جس میں کئی احکامات تو انتہائی واضح اور غیر مبہم انداز میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے لیے خاص ہیں۔ مثلاً رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خصوصی ازدواجی قوانین، تخییر کے بعد آپ پر اپنی ازواج کو طلاق دینے پر پابندی، ازواج رسول کے لیے امت کی مائیں ہونے کا شرف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ان کے کسی اور سے نکاح پر پابندی و غیرہ۔ اپنے سیاق و سباق میں ایسا منفرد انداز بیان اختیار کرنے میں کوئی مضبوط حکمت اور رعلت ہونی چاہیے۔ صرف یہ وجہ کہ چونکہ امہات المومنینؓ عام عورتوں کے لیے، خاص طور پر نسوانی معاملات میں اسوہ حسنہ اور نمونہ عمل ہیں، اس لیے ان کو مخاطب کرکے دیے جانے والے احکامات خواتین کے لیے عام ہیں، کوئی مضبوط وجہ نظر نہیں آتی کیوں کہ پھر دوسرے مقامات پر بھی، یا کم از کم کسی ایک دو مقامات پر تو، یہی اسلوب اختیار کیا جانا چاہیے تھا۔
جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ چونکہ اس آیت میں مثلاً نماز، زکوۃ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کے احکامات بھی دیے گئے ہیں اور وہ بالبداہت تمام عورتوں کے لیے ہیں اس لیے ’’و قرن فی بیوتکن‘‘ کا حکم بھی تمام عورتوں کے لیے ہونا چاہیے، تو اس سلسلے میں گزارش ہے کہ نماز، زکوۃ اور اللہ اور رسول کی اطاعت عام عورتوں پر محض اس آیت میں بیان ہونے کے نتیجے میں لازم نہیں ہوئے بلکہ ان پر یہ احکامات قرآن میں دوسرے بے شمار مقامات پر ان ہی کو مخاطب کرکے دیے جانے کی وجہ سے لازم ہوئے ہیں۔ یعنی اگر نماز، زکوۃ اور اللہ و رسول کی اطاعت کا ذکر صرف اس آیت میں ہوتا تو ہم پورے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے تھے کہ یہ احکامات بھی صرف امہات المومنین کے لیے ہیں لیکن چونکہ ایسا نہیں ہے اس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ احکامات دوسری جگہوں پر بیان ہونے کہ وجہ سے تمام عورتوں کے لیے خاص ہیں اور ’’و قرن فی بیوتکن‘‘ کا حکم صرف اس آیت میں بیان ہونے کی وجہ سے امہات المومنینؓ کے لیے خاص ہے۔
اس بات کو بلاتشبیہ اس طرح سمجھیں کہ مثلا ایک فٹ بال ٹیم کا کوچ اپنے کھلاڑیوں کو مخاطب کرکے یہ ہدایات دے کہ: ’’تم عام نوجوانوں کی طرح نہیں ہو، تمہیں چاہیے کہ رات میں جلدی سو، صبح جلدی اٹھو، پانچ وقت نماز ادا کرو، اچھی خوراک لو اور کم از کم پانچ گھنٹے کھیل کی پریکٹس کرو۔‘‘ تو اگرچہ کہ پہلی چار ہدایات تو عام نوجوانوں کے لیے بھی اسی طرح ہیں لیکن کیا آخری ہدایت کو بھی ان عام ہدایات کے ساتھ بیان ہونے کی وجہ سے تمام نوجوانوں کے لیے لازمی سمجھنا چاہیے؟ ظاہر ہے کہ جو اب نفی میں ہوگا کیوں کہ آخری ہدایت انتہائی غیرمبہم طور پر صرف کھلاڑیوں کے ساتھ خاص ہے۔
پھر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ’’وقرن فی بیوتکن‘‘ کے حکم کو نماز، زکوۃ اور اللہ و رسول کی اطاعت کے احکامات کے ساتھ بیان ہونے کی وجہ سے تمام عورتوں کے لیے عام مانا جائے کیونکہ موخرالذکر احکامات تمام عورتوں کے لیے عام ہیں تو یہ موخرالذکر احکامات تو مردوں کے لیے بھی عام ہیں، تو تمام مردوں کو ’’و قرن فی بیوتکن‘‘ کے حکم میں بھی داخل کیوں نہ سمجھا جائے؟ جب نماز، زکوۃ اور اللہ و رسول کی اطاعت کے احکامات مردوں کے لیے بھی ہیں تو ’’و قرن فی بیوتکن‘‘ کا حکم ان کے لیے کیوں نہ ہو؟ کیا اس آیت کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ صرف عورتیں ہی گندگی سے پاک ہوں اور اللہ تعالی مردوں کو گندگی سے پاک نہیں کرنا چاہتا؟ کیا صرف عورتوں کے لیے حکم ہے کہ وہ جاہلیت کے طور طریقوں سے پرہیز کریں اور مردوں کو اس بات کی اجازت ہے؟ کیا صرف عورتوں کے لیے نماز اور زکوۃ کا حکم ہے اور مرد اس سے مستثنی ہیں؟ کیا صرف عورتوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور مردوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی نافرمانی کیا کریں؟ ’’و قرن فی بیوتکن‘‘ کے حکم سے مردوں کے استثنا کی آخر کیا دلیل ہے؟ اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ اس میں مخاطب ہی عورتوں کو کیا گیا ہے اس لیے یہ حکم عورتوں تک محدود ہوگا تو یہی تو بات ہو رہی ہے کہ جب مخاطب عورتوں کے بھی ایک خاص طبقے ’’امہات المومنین‘‘ کو کیا جارہا ہے، تو حکم بھی انہی تک خاص رہنا چاہیے۔
جہاں تک بات عام مردوں اور عورتوں کے تعلقات کے موقع پر ان کے دلوں کی پاکیزگی کی ہے تو اس کا طریقہ اللہ تعالی نے سورۃ نور کی آیات ۳۰۔۳۱ میں انتہائی واضح طور پر بتادیا ہے، اس لیے یہ طریقہ بھی امہات المومنین کے لیے مخصوص احکامات کی آیات سے اخذ کرنے کے بجائے سورۃ نور کی مذکورہ آیات سے اخذ کرنا چاہیے۔ ہم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آکر اس میں پریشان ہونے یا نہ سمجھ میں آنے والی کون سی بات ہے کہ اگر اللہ تعالی کسی فرد، گروہ یا طبقہ کو کوئی مخصوص ذمہ داری اور منصب عطا کرے تو اس ذمہ داری کی مناسبت سے کچھ مخصوص احکامات، کچھ اضافی پابندیاں اور کچھ حدود و قیود کا اضافہ بھی کردے۔ عقل تو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایسا ہونا چاہیے اور سورۃ احزاب میں ایسا ہی ہوا ہے۔