- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بدکردار لوگوں سے مسلمان پرہیز کریں

اس میں شبہ نہیں کہ انسان ایک دوسرے کا اثر لیتا اور جن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے ان کے اخلاق اور عادات واطورا سے متاثر ہوتا ہے، جن لوگوں کے ارد گرد اچھے لوگ ہوتے ہیں ان میں اچھائی اور خوبی پیدا ہوتی او رجن کی بود وباش غلط کاروں وبد کاروں کے درمیان ہوتی ہے، ان میں برائی پیدا ہو جاتی ہے، انسان کتنا ہی دین دار کیوں نہ ہو صحیح راستے سے ہٹے ہوئے لوگوں سے تعلق رکھنے پر کم از کم اتنا ضرور ہوتا ہے کہ اس کی نگاہوں کے سامنے برائی ہوتی اور غلط کاری انجام دی جاتی ہے اور وہ اس پر نکیر نہیں کرتا، بلکہ اس سے مانوس ہو جاتا ہے ،اسی لیے ہمارے آقا ،خاتم الانبیاء والمرسلین صلی الله علیہ وسلم نے نیکوں کی صحبت اختیار کرنے کی تاکید کی اور بروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع کیا ہے، صحیح مسلم کی روایت ہے کہ بنو اسرائیل کا ایک شخص سو لوگوں کا قاتل تھا، اس نے جب اپنے گناہ ہوں سے توبہ کا ارادہ کیا او راپنے وقت کے عالم سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے، توبہ کر او راس سر زمین سے نکل کر فلاں مقام کو چلا جا، کیوں کہ وہاں کے لوگ نیک او رایمان کے تقاضوں پر عمل کرنے والے اور صدق دل سے الله کی عبادت کرنے والے ہیں اور واپس اس سر زمین میں مت آ؛ کیوں کہ یہاں کے لوگ بد ہیں، یعنی ان میں جائز وناجائز اور حرام وحلال کی تمیز نہیں ہے۔ابوداؤد کی روایت ہے کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان اپنے ساتھیوں اور ملنے جلنے والوں کے طریقہ پر ہوتا ہے، اس لیے اگر کسی سے تعلق رکھنا ہو تو دیکھو کہ وہ کیسا ہے؟ ایک اور روایت میں ہے کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”لاتصاحب إلا مومنا“ کہ جو ایمان کے تقاضوں اور الله کے حکم کی پیروی کرنے والے ہوں انہیں کے ساتھ رہو، جو اس کے خلاف ہوں ان سے میل جول مت رکھو کہ اس کی برائی تمہارے اندر بھی آجائے گی؛ اسی لیے سارے علمائے دین ہی نے نہیں، بلکہ الله تعالیٰ نے بھی اور خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بھی گناہ و معصیت کا کام کرنے والوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے سے منع فرمایا ہے؛ کیوں کہ اس تعلق کی وجہ سے آنے والی برائی کی خطرناکی کا براہ راست اثر انسان کے دین وایمان اور اخلاق واقدار پر پڑتا ہے، الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر لعنت وپھٹکار کی وجہ یہی بتائی ہے کہ وہ لوگ نگاہوں کے سامنے ہونے والی برائیاں او رناجائز کام او رحرام اعمال انجام دیے جانے کے باوجود اس پر نکیر نہیں کرتے تھے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” بنی اسرائیل کے کافروں پر حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کی زبانی لعنت کی گئی ہے، اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے، جو کچھ وہ کرتے تھے، روکتے نہ تھے، جو کچھ یہ کرتے تھے یقینا وہ بہت برا تھا“۔ (المائدة:78)

حضرت عبدالله بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ان اول ما دخل النقص علی بنی اسرائیل…“ بنی سرائیل میں سب سے پہلی کمی ( کم زوری وبرائی) جو داخل ہوئی وہ یہ تھی کہ ایک شخص جب دوسرے کو بُرا عمل اور خلاف شرع کام کرتے ہوئے دیکھتا تھا تو اس سے کہتا تھا کہ الله سے ڈرو اور حکم خدا وندی کے خلاف جو کام کر رہے ہو اسے چھوڑ دو کہ وہ حلال نہیں ہے، پھر دوسرے روز جب اس سے ملتا تو اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے او رکھانے پینے میں کوئی چیز اس کے لیے مانع نہیں ہوتی تھی، یعنی اس کی برائی کے باوجود وہ اس کے ساتھ تعلق استوار رکھتا، اٹھتا بیٹھتا اور کھاتا پیتا تھا، اس برائی کی نفرت اس کے دل سے نکل چکی ہوتی تھی، شریر اور بد قماش لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کے اعمال پر سکوت اختیار کرنے کی خطرناکی کو بیان کرتے ہوئے اور اس سے متنبہ کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے فرمایا ہے:”اور اس دن (قیامت کے دن حساب و کتاب کے وقت) ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا: ہاے کاش! کہ میں نے رسول صلی الله علیہ وسلم کی راہ اختیار کی ہوتی، ہائے افسوس! کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ہے ، اس نے تو مجھے اس کے بعد گم راہ کر دیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی اور شیطان تو انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے۔“ (الفرقان:27) اس سے پتا چلا کہ ناجائز ومعاصی کے کام انجام دینے والوں سے تعلقات استوار رکھنے سے اس کی برائی دوسروں میں سرایت کرتی ہے اور وہ دوسرا بھی گناہوں کا شکار بن جاتا ہے، حرام کھانے ، چوری کرنے، رشوت لینے دینے، گالی گلوچ کرنے، دوسروں کا مال غصب کرنے، یتیموں اور بیواؤں پر زیادتی کرنے، ان کی کم زوری کا فائد اٹھا کر ان کی جائیداد پر قبضہ کرنے اور اس طرح کے ناجائز وحرام کام انجام دینے کی اس میں بھی جرأت پیدا ہوسکتی ہے یا ہو جاتی ہے یا کم از کم دوسروں کو اس طرح حرام کام کرنے پر خاموشی اختیا رکرنے اور اس میں تہاون برتنے پر مجبور کرسکتی ہے، الله تعالیٰ نے ایسے بد کردار لوگوں کے ساتھ رہنے، ان سے ربط وضبط رکھنے، ان کی بات ماننے او ران سے تعلق قائم رکھنے سے خبردار کیا ہے اور وارننگ دی ہے کہ اس کی وجہ سے پورا سماج اور پورا معاشرہ الله تعالیٰ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے دو چار ہو سکتا ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

”اور تم ایسے وبال سے بچو کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جوتم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ جان رکھو کہ الله سخت سزا دینے والا ہے۔“ (الانفال:25)

ایسے حرام کاروں وحرام خوروں سے دوری اختیار کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ الله تعالیٰ نے نیکوں سے میل جول ودوستی رکھنے کی تاکید کی ہے، جو خود بھی نیکی وبھلائی کے راستے پر چلنے والے ہوں اور دوسروں کو بھی نیکی بھلائی کی تلقین کرنے والے اور برائیوں سے باز رہنے اور برائیوں میں مبتلا لوگوں کی اصلاح کرنے والے ہوں، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :” اور اپنے آپ کو انہی کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پرورد گار کو صبح وشام پکارتے ہیں اور اسی کی ذات کے ارادے رکھتے ہیں ( یعنی ان کے ہر کام، ہر عمل اور ہر قدم میں الله کی رضا وخوش نودی مقصود ہوتی ہے) خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں۔“ (الکہف:28)

الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے بے شمار احادیث میں برے لوگوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”انما مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء …“ اچھے ہم نشینوں اور برے ہم نشینوں کی مثال مشک(خوش بو) رکھنے والے اور بھٹی میں پھونک مارنے والے کی سی ہے۔مشک والا یا تو تمہیں تحفہ میں خو ش بو دے گا یا تم اس سے وہ خرید سکو گے یا کم از کم اس سے تمہیں ا چھی خوش بو حاصل ہو گی اور بھٹی میں پھونک مارنے والا یا تو تیرے کپڑے جلاد ے گا یا تم اس سے بد بوہی پاؤ گے۔ حکماء اور سلف صالحین نے کہا ہے کہ جو نیکوں اور اچھوں کے ساتھ ربط وتعلق رکھتا ہے اس کی برکت سے دوسرے بھی مستفید ہوتے ہیں، جو الله کے ولیوں اور صالحین کے پاس آئے گا وہ کبھی بد بخت نہیں ہو گا؛ اگر چہ آنے جانے والا وہ کتا ہی کیوں نہ ہو، جیسے اصحاب کہف کا کتا، اسی لیے ہمارے سلف صالحین نے احمقوں، چوروں، غاصبوں، حرام خوروں سے دُور رہنے کوو اجب قرار دیا ہے، امیر المؤمنین حصرت علی بن ابی طالب کرم الله وجہہ نے فرمایا:”فاسق وفاجر لوگوں کے ساتھ اٹھنا، نہ بیٹھنا اور نہ تعلق قائم رکھنا، اس لیے کہ وہ حرام پر جری ہو چکا ہے او رمعصیت اور غلط کاموں کو تمہارے سامنے بھی مزین کرکے پیش کرے گا اور چاہے گا کہ تم بھی اسی کی طرح ہو جاؤ اور غلط راستے پر چلنے لگو؛ انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اشرار وفسادی اور بدمعاش قسم کے لوگوں سے بھی دُور ہو، کیوں کہ ان سے اگر ملوگے جلو گے تو تیری طبیعت اس کی برائی چوری کر لے گی، جب کہ تمہیں اس کی خبر بھی نہیں ہو سکے گی۔“

رہا یہ سوال کہ وہ فاسق وفاجر او ربد کار لوگ کیسے ہوتے ہیں جن سے دور رہنے کے لیے الله نے، الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے، صحابہ وتابعین نے او رتمام سلف صالحین نے کہا ہے اور ان کی علامتیں کیا ہیں؟ ہم کیسے ان کی شاخت کر سکتے ہیں؟ تو اس کی علامتیں بھی ہمارے آقا محمد صلی الله علیہ وسلم نے کھول کھول کر بیان کر دی ہیں، جن میں سے ہم صرف چند کو بطورِ مثال پیش کرتے ہیں کہ یہ تفصیل کا موقعہ نہیں، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے ۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ ( بخار ی ایمان)

حضرت عبدالله بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار چیزیں جن میں ہوں گی وہ پکا منافق ہو گا اورجن میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو گی اس میں ایک دو نفاق کی خصلت ہو گی یہاں تک کہ وہ اسے ترک کر دے اور توبہ کر لے جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب معاہدہ کرے تو اسے توڑ دے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑے تو گالی گلوچ کرے“۔ نفاق بد ترین کفر ہے، اسی لیے اہل علم نے ان باتوں کو کبیرہ گناہ میں شمار کیا اور اس کا ارتکاب کرنے والے کو فاسق وفاجر کہا ہے، یعنی جو جھوٹ بولتا ہو، امانت میں خیانت کرتا ہو، وعدہ خلافی کرتا ہو، معاہدے کو توڑتا ہو اور لڑتا جھگڑتا اور گالی گلوچ کرتا ہو وہ فاسق وفاجر ہے، مسلمانوں کو اس سے دور رہنا چاہیے اور اس وقت تک اس سے ناطہ توڑے رہنا چاہیے جب تک کہ وہ اپنے جھوٹ، خیانت، وعدہ خلافی، بد عہدی، گالی گلوچ سے توبہ کرکے اس کے برعکس نیک صفات اختیار نہ کرلے۔

دوسروں کا مال غصب کرنا، یتیموں، غریبوں، کم زوروں پر زیادتی کرنا، ان کا مال ہڑپ لینا اور حرام طریقے سے مال کمانا بدترین فسق وفجور ہے، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی کی ایک بالشت زمین ناجائز طریقہ پر لے گا او رغصب کرے گا قیامت کے دن اس کی گردن میں ساتوں زمین کا بوجھ ڈالا جائے گا۔ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے، دوسروں پر زیادتی کرنے سے ڈرو کہ یہ قیامت کے دن زیادتی کرنے والوں کے لیے تاریکی ہو گی۔ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ الله اپنے حقوق تو جس سے چاہے معاف کرسکتا ہے، مگر بندوں کے حقوق کو معاف نہیں کرے گا، یہاں تک شہیدوں سے بھی اس کی بازپرس ہوگی اور بندوں کے حقوق معاف نہیں ہوں گے۔

خود الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:”آپ دیکھیں گے ان میں سے اکثر گناہ کے کاموں کی طرف اور ظلم وزیادتی کی طرف او رمال حرام کھانے کی طرف لپک رہے ہیں، جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ نہایت برے کام ہیں، انہیں ان کے عابدو عالم جھوٹ باتوں کے کہنے اور حرام چیزوں کے کھانے سے کیوں نہیں روکتے؟! بے شک برا کام ہے جو یہ کر رہے ہیں۔“(المائدة:62)

الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ سے سوال کیا، کیا تم جانتے ہو کہ سب سے بڑا مسکین کون ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ ہم تو مسکین اسے کہتے ہیں، جس کے پاس مال واسباب نہ ہوں، تو الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا مسکین وہ ہے جو نماز، روزے اور اس طرح کی عبادتیں وتلاوتیں لے کر قیامت میں آئے گا، مگر اس نے اس کا مال ہڑپا، اس کو گالی دی، اس کی چیز غصب کی، اس کاحق دبایا، اس کی، غیبت کی وغیرہ وغیرہ، تو قیامت میں ان اصحاب حقوق کو اس کی عبادتیں اور نیک اعمال دے دیے جائیں گے، پھر اصحاب حقوق کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے او ر وہ جہنم میں جھونک دیا جائے گا ۔اسی لیے اہل علم نے چوری، غصب ،ظلم وزیادتی وغیرہ وغیرہ کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے اور ا س کے مرتکب کو فاسق کہا ہے، جس سے دور رہنے کے لیے ہمیں ہمارے نبی نے کہا ہے، اسی طرح رشوت کا معاملہ کرنے والا بھی فاسق وفاجر ہے، الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں“ رشوت کی حرمت مسلم ہے اور افسران کو رشوت دینے کے بہانے صاحب ضرورت سے مال لینا اور رشوت کا دھندا کرنا حرام ہے؛ ایسا شخص فاسق وفاجر ہے، مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے پرہیز رکھنا چاہیے، ہاں حق المحنت کے طور پر کام کی اُجرت لینے کی اجازت ہے، مسلمانوں کے درمیان فتنہ پر وری اہل ِ کفر کا شیوہ اور کبیرہ گناہ ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اگر یہ تم میں مل کر نکلتے بھی تو تمہارے لیے سوائے فساد کے اور کوئی چیز نہ بڑھاتے، بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑاتے اور تم میں فتنے ڈالنے کی تلاش میں رہتے،ان کے ماننے والے خود تم میں موجود ہیں اور الله تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے، یہ تو اس سے پہلے بھی فتنے تلاش کرتے رہے ہیں، تیرے لیے کاموں کو الٹ پلٹ کرتے رہتے ہیں۔“ (التوبہ:48-47)

آج امت مسلمہ کی جو حالت ہے سبھوں پر عیاں ومنکشف ہے، مسلمانوں کا شیرازہ منتشر ہے، دشمنوں کے دلوں سے مسلمانوں کی ہیبت نکل چکی ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں دوسروں کی ہیبت بیٹھ چکی ہے، جس کی وجہ ایک تو ہماری بد اعمالی، موت سے نفرت اور دنیا کی محبت ہے، آج ہر جگہ مسلمان کیڑے مکوڑوں کی طرح مارے جارہے ہیں او راس پر کوئی آنسو بہانے والا نہیں اور نہ آواز نکالنے والا ہے، آج خود ہمارے مسلم سماج اور معاشرہ میں ہمارے پاس پڑوس اور محلوں میں ایسے فاسق وفاجر نظر آئیں گے جن کا مشن ہی مسلمانوں میں فتنے پھیلانا، مسلمانوں کو آپس میں لڑانا، دوسروں کے مال وجائیداد غصب کرنا، لوگوں کو گروہوں وخانوں میں باٹنا، فروعی مسائل میں الجھا کر آپس میں دست وگریبان کرنا، غیروں کے مظالم سے توجہ ہٹا کر آپس میں خوں ریزی کرانا دوسروں پر تور رعب ودبدبہ نہیں چل سکتا اس لیے خود اپنے مسلمان بھائیوں پر دبدبہ قائم کرنا، انہیں ڈرانا دھمکانا، طرح طرح سے خوف زدہ کرنا او رجوان کی حرام خوری پر نکیرکرنے والے ہوں ان کی پولیس میں شکایت درج کرنا،غریبوں، بے کسوں، یتیموں، بیواؤں پر مظالم ڈھانا اور ان کی کم زوری وبے سہارگی کا غلط فائداٹھانا، صحیح راستہ پر چلنے والے اور صاف ستھری زندگی بسر کرنے والے مسلمان بھائیوں پر جھوٹے مقدمات دائر کرکے انہیں پھنسانا، سرکاری محکموں سے کام کرانے کے لیے انہیں رشوت دینے کے نام پر مال جمع کرنا، غیر مسلم لیڈروں کی جوتیاں سیدھے کرکے ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو کر اور انہیں سلوٹ مار کر چاپلوسی کرکے کچھ کام نکالنے کے ذریعہ مسلمانوں پر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا او راسلام کو غیر مسلم افسروں ولیڈروں کے سامنے سرنگو ہو کر رسوا کرنا، مکاری وعیاری کے ذریعہ پاس پڑوس، محلے اور قرب وجوار کے لوگوں کا جینا حرام کرنا، ان کا شیوہ بنا ہوا ہے، جب کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس کی بدی سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ رہیں وہ مؤمن ہی نہیں، مسلمانوں کو ایسے بد کردار لوگوں سے ہو شیار اور دور رہنا چاہیے؛ ورنہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے اچھے برئے سب الله کی گرفت کا شکار بن سکتے ہیں، ہماری بڑی بدنصیبی ہے ہے کہ ہر زمانہ میں اسلام اور مسلمانوں کو خود اپنوں ہی سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، دوسروں سے کم، مجھے ملک کے مختلف صوبوں اور شہروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے، شمال وجنوب ہر جگہ مسلمانوں میں منافقین اور بد کردار عناصر موجود ہیں، بہت سی جگہوں پر تو یہ منافقین اور رشوت خور حرام کمانے والے دین داروں کے روپ میں ہیں ،جو اپنی حرام خوریوں اور چوریوں پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں، بہتوں کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ وہ سالہا سال سے بجلی چوری کرتے، دوسروں کی املاک پر قبضہ جماتے، معاملات میں نہایت گندے اور فرضی اداروں کے چندے جمع کرتے اور امامت بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سارے ناجائز، دھندے بھی کر رہے ہیں اور ہر جائز وناجائز طریقہ سے، حلال وحرام کی تمیز کو بالائے طاق رکھ کر مال جمع کرنے کی دھن میں لگے ہیں، الله تعالیٰ ایسے بد کردار اہل فسق وفجور سے مسلمانوں کی حفاظت کرے او رانہیں بھی اپنے گناہوں سے توبہ کی توفیق دے، مسلمانوں کوچاہیے کہ جہاں بھی اس طرح کے فتنہ پر ور مصلح کے روپ میں اسلام ومسلمانوں کے بد خواہ ہوں، عام مسلمان ان سے دور رہیں اور ان سے کسی طرح کے روابط وتعلقات نہ رکھیں، یہاں تک کہ وہ اپنی روش اور خلاف شرع سرگرمیوں سے توبہ کر لیں اور اپنی زندگی کتاب وسنت کے مطابق بنالیں۔