- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

رزق حلال کمانے کی ضرورت

جس طرح رزق حلال کا اثر نسلوں تک باقی رہتا ہے، اسی طرح حرام لقمے کا اثر بھی کئی نسلوں تک جاتا ہے۔ دعا کی قبولیت میں بھی رزق حلال کا بہت اہم دخل ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ آخر ہماری دعائیں رد کیوں ہوجاتی ہیں؟ اور وہ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے حلال کے اہتمام اور حرام سے مکمل اجتناب میں ہماری دعاؤں کی قبولیت کا راز مضمر ہے۔ واضح نصوص ہیں کہ رزق حلال کا عبادت کی قبولیت کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ ذیل میں اس بات کا ذرا تفصیل سے عرض کرنا چاہیں گے، کیونکہ ہمارے دور کے تمام تر مسائل کی سب سے بڑی وجہ ’’حرام خوری‘‘ ہے۔ اس حوالے صرف تین آیات، چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
قرآن و حدیث میں پاکیزہ چیزوں کے کھانے اور حرام سے بچنے کا حکم واضح دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ‘‘ (البقرة:168)۔۔۔ ’’اے لوگو! جو چیزیں زمیں میں موجود ہیں، اُن میں سے حلال پاک چیزوں کو کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم مت چلو، یقیناًوہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ ایک اور جگہ اپنے پیغمبروں کو اللہ نے اس بات کا حکم دیا ہے وہ پاک حلال کھائیں: (يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ) {المؤمنون:51} ’’اے پیغمبرو! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو، یقیناًمیں تمہارے اعمال سے خوب واقف ہوں۔‘‘ دوسری جگہ ارشاد ہے: «يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّـهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ » ’’ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کیا کیا جانور ان کے لیے حلال کیے گئے ہیں؟ آپ فرمادیجیے تمہارے لیے حلال جانور حلال رکھے گئے ہیں اور جن شکاری جانوروں کو تعلیم دو اور تم ان کو چھوڑو بھی اور ان کو اس طریقہ سے تعلیم دو جو تم کو اللہ تعالی نے تعلیم دی ہے، تو ایسے شکاری جانور جس شکار کو تمہارے لیے پکڑیں، اس کو کھاؤ اور اس پر اللہ کا نام بھی لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو! بے شک اللہ جلدی حساب لینے والے ہیں۔‘‘
حدیث میں آتا ہے: طلب حلال ہر مسلمان پر فرض و واجب ہے۔ ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ تعالی پاک ہے، پاک کے علاوہ کسی چیز کو قبول ہی نہیں کرتا۔ اللہ نے مومنوں کو اسی چیز کا حکم فرمایا ہے جو حکم اس نے اپنے رسولوں کو فرمایا ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے اس حکم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھاؤ اور نیک عمل کرو۔‘‘ (مسلم: ۱۰۱۵) اس حدیث کی تشریح میں مفسرین نے لکھا ہے کوئی بھی عمل حلال کھانے کے علاوہ دوسرے طریقے سے نہ پاک ہوتا ہے نہ ہی قبول ہوتا ہے، جبکہ حرام کھانے سے اعمال فاسد ہوجاتے ہیں اور قبولیت سے محروم ہوتے ہیں۔
ہر غذا کی تاثیر ہوتی ہے۔ حلال غذا کھانے سے نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے، جبکہ حرام کھانے سے نیک اعمال کی توفیق سلب ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے: ’’حرام کا ایک لقمہ کھانے والے کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں، جبکہ چالیس روز تک اس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔‘‘ شریعت میں حلال وہ ہے جسے اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت نے مباح قرار دیا ہے، یعنی جس کا حلال ہونا اللہ کی طرف سے ثابت ہے۔
حلال کے مقابل حرام ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ آیت تلاوت کی گئی: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا) (البقرۃ: ۱۶۸) ترجمہ: ’’اے لوگو! جو کچھ زمین میں ہے، اس میں سے حلال اور پاک کھاؤ۔‘‘ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: یا رسول اللہ! دعا کیجیے اللہ تعالی مجھے ’’مستجاب الدعوات‘‘ بنادیں۔ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سعد! ’’اطب مطعمک تکن مستجاب الدعوۃ‘‘۔۔۔ ’’اے سعد! تو اپنی خوراک کو پاکیزہ بنالے تو ’’مستجاب الدعوات‘‘ بن جاؤ گے۔‘‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، جب کوئی آدمی حرام کا ایک لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے چالیس دن کے اعمال قبول نہیں ہوتے اور بندے کے گوشت کا وہ ٹکڑا جو حرام یا سود سے پیدا ہو تو اس کے لیے جہنم ہی سب سے زیادہ لائق ہے۔ (معجم الاوسط للطبرانی: ۶۴۹۵)
علامہ ابنِ رجب حنبلی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے، حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: اصحاب رسول میں سب سے زیادہ آپ کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، کیا وجہ ہے؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’میں نے آج تک اپنے منہ کی طرف کوئی لقمہ نہیں اٹھایا، مگر یہ مجھے پتا ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے آیا ہے یعنی حلال ہے یا حرام؟ وہب بن منبہ کہتے ہیں: ’’جو آدمی چاہے اس کی دعائیں قبول ہوں تو اس کو چاہیے کہ اپنی خوراک کو پاک کرے۔‘‘ سہل بن عبداللہ کہتے ہیں: ’’جو آدمی چالیس دن تک حلال کھائے، اس کی دعائیں قبول ہوں گی۔‘‘ یوسف بن أسباط کہتے ہیں: ’’بندے کی دعا حرام کھانے کی وجہ سے قبولیت سے رک جاتی ہے۔‘‘ امام ابن کثیر فرماتے ہیں: ’’اکلِ حلال عبادت و دعا کی قبولیت کا سبب ہے جیسا کہ اکل حرام عبادت و دعا کی قبولیت سے مانع ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لا ورع کالکفّ‘‘ (ابن ماجہ: ۴۲۱۸) حرام سے بچنے کی مانند اور کوئی تقوی نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’چار خصلتیں ایسی ہیں، جب وہ تمہارے اندر موجود ہوں تو پھر دنیا میں کچھ حاصل نہ ہو تو بھی تمہارے لیے کافی ہیں۔ وہ چار خصلتیں یہ ہیں: ایک امانت کی حفاظت، دوسرے سچ بولنا، تیسرے حسنِ اخلاق، چوتھے کھانے میں حلال کا اہتمام۔‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی: ۱۴۱) حلال کھانے سے دلوں کو سکون جبکہ حرام سے دل بے قرار ہوجاتا ہے۔ لہذا اپنی صحت کی حفاظت اور ایمان کی سلامتی کی خاطر حرام سے بچیے۔ پاکیزہ اور رزق حلال کا خوب خوب اہتمام کیجیے اور دوسروں کا حق ہرگز نہ دبایئے۔ اگر کسی نے کسی کا حق دینا ہے تو وہ فوراً دے، کیونکہ اس بارے میں سخت وعید ہے۔ حدیث قدسی ہے: ’’اللہ جل شانہ نے مجھے وحی کی اور فرمایا: ’’اے انبیاء کے بھائی! اے اللہ سے ڈرانے والوں کے بھائی! اپنی قوم کو ڈراؤ کہ وہ میرے کسی گھر مسجد یا کعبہ میں داخل نہ ہوں، اس حال میں کہ میرے کسی بندے کا حق ان کی گردن پر ہو، اس لیے کہ جب تک وہ نماز کی حالت میں رہیں گے، میں ان پر لعنت بھیجتا رہوں گا، یہاں تک کہ وہ اس حق کو ادا کردیں۔‘‘(الجوہر السنیۃ فی الاحادیث القدسیۃ، صفحہ ۳۲۵)
تو میرے بھائیو! اور بہنو! رزق حلال کھانے کا خوب خوب اہتمام کیجیے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ تجربے سے یہ ثابت ہے کہ رمضان میں اپنائے گئے اعمال کا اثر گیارہ مہینے تک رہتا ہے۔ جو کوئی اس میں کوئی نیکی بہ تکلف کرلیتا ہے اس کے بعد اس پر بآسانی قادر ہوجاتا ہے اور جو کوئی کسی گناہ سے اس میں اجتناب کرلے تمام سال بآسانی اجتناب کرسکتا ہے۔