- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

آیئے آج ایک کام کریں!

کتنے ہی لوگوں کو ہم جانتے ہیں جو ایک ’بھرپور‘ زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوچکے۔
کچھ نے طویل عمر پائی اور کچھ نے مختصر۔۔۔ کچھ نے اچھی گزاری اور کچھ نے بری۔۔۔ آج ان کی ساری حیات محض ایک یاد (خوشگوار یا ناخوشگوار) بن کر ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں موجود ہے۔۔۔ سمٹ کر، کسی زِپ فائل کی طرح۔
ان میں کچھ وہ تھے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بطریق احسن نبھانے کی کوشش میں لگے رہے۔ اپنی ذات، اعمال، صلاحیتوں، مال اور وقت کے بہترین استعمال سے ہر کسی کو نفع، سکون اور فائدہ پہنچانے کی سعی کرتے رہے۔ ان کا ساتھ ہر ایک کے لیے مثبت توانائی کا باعث تھا۔ مسائل تو ان کو بھی بہت سے درپیش رہے کیوں کہ دنیا ہے ہی دارالامتحان، ہر اگلا سوال پہلے سے زیادہ پیچیدہ، مگر وہ صبر، شکر، رضا، دعا اور درگزر کی راہ پر گامزن رہے۔
پھر کچھ وہ تھے جنہیں نہ کبھی اللہ کی کسی نعمت نے اس کے شکر پر متوجہ کیا، نہ انسانوں سے ان کی بن سکی۔ ہر ایک سے شکایت، ہر ایک کی غیبت، ہر ایک سے گلے شکوے، ہر ایک سے بدظن۔ اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے رہے۔ وہ اپنے ہر برے عمل کو ردعمل کہتے رہے اُس ’برے‘ سلوک کا جو ان کی دانست میں دنیا نے ان کے ساتھ کیا۔ یوں اپنے ہر کیے دھرے سے خود کو بآسانی بری الذمہ قرار دے لیتے۔ زندگی کو کوستے رہے۔ اس طرزِ عمل سے اپنی زندگی کو خود اپنے ہاتھوں ایک بے تربیت و غیرمنظم شے بنالیا۔ ان کا ساتھ ہر ایک کے لیے منفی و غیرتعمیری احساسات کا ذریعہ بنا رہا۔ زندگی کا جہاں ایک آغاز ہے، وہیں انجام بھی یقینی ہے۔
آیئے آج ایک کام کریں:
تھوڑا سا وقت نکال کر کم از کم پانچ ایسے لوگوں کو (جو اب اس دنیا میں نہیں رہے) جنہیں آپ خود ذاتی طور پر جانتے تھے، اپنے ذہن میں لائیں جن کا تعلق پہلے گروپ سے ہے۔
پھر کم از کم پانچ ایسے لوگوں کو جن کا تعلق دوسرے گروپ سے ہے۔
اب سوچیں دونوں طرح کے لوگ زندگی گزار کر چکے گئے۔ موازنہ کریں، فرق کیا ہے؟ دنیا میں ان کے گزارے گئے وقت کے اُن پر اور دوسروں پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ وہ جاتے ہوئے اپنے ساتھ کیا لے گئے؟
پھر ہم اپنی اپنی ذات کو محاسبے کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور سوچیں میرا تعلق کس گروپ سے ہے؟ گرد و نواح پر کیا اثرات مرتب کررہا ؍ رہی ہوں؟ پیچھے کیا چھوڑ رہا؍رہی ہوں؟ آگے کیا بھیج رہا؍رہی ہوں؟
دونوں گروپس کے لیے مغفرت کی دعا کریں کیوں کہ ان کے اعمال کا دفتر بند اور توبہ کی مہلت ختم ہوچکی، سوائے ان اچھے یا برے اثرات کے جن میں سے ان کا حصہ انہیں بعد از وفات بھی ملتا رہے گا۔
ہمارے پاس مہلت ابھی باقی ہے۔۔۔ اسے غنیمت جانیں۔
کل کو داناترین شخص بھی اللہ تعالی سے یہی کہے گا کہ دنیا میں تو میں نے محض ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ہی گزارا ہے۔ دنیا کی زندگی متاع الغرور ہے، کہیں ہم اس کے دھوکے میں نہ آجائیں؟
خلاصہ موت و حیات بس یہی ہے جو اللہ رب العزت نے سورہ الملک میں بیان کردیا: ’’ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ‘‘۔
جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔