- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

روزے کے ظاہری و باطنی آداب

اسلام میں صرف عبادت مطلوب نہیں ہیں، بلکہ ظاہر و باطن میں عبادت کا شریعت کے مطابق ہونا بھی مطلوب ہے، ایک مسلمان کے لیے تمام عبادات اور معاملات میں قابل اقتدا اور لائق اتباع ہستی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔
قرآن کریم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی اتباع کو آخرت کی کامیابی کا مدار قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا: ’’تم نمونہ موجود ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۲۱) آج ہم میں سے بہت سے مسلمان روزہ رکھتے ہیں، لیکن ان میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو روزہ رکھنے کے عمل کو سنت کے مطابق بنانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یاد رکھیے! دس پندرہ گھنٹے بھوکا پیاسا رہنے کا نام روزہ نہیں ہے، بلکہ روزہ ضبط نفس اور تقویٰ کی عملی تربیت کا ایک حصہ ہے جس کے کچھ ظاہری آداب بھی ہیں اور باطنی بھی۔ پھر ان آداب میں بعض آداب وہ ہیں جو واجب کے درجے میں ہیں، یعنی جن پر عمل نہ کرنے سے روزہ دار گناہ گار ہوتا ہے، بعض مستحب ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو روزہ کا اجر و ثواب بڑھ جائے گا، اور عمل نہ کیا جائے تو کوئی گناہ نہیں ہوگا، لیکن ان آداب پر عمل کرنے سے روزے کا درجہ بڑھ جاتا ہے، ذیل میں ایسے ہی کچھ آداب لکھے جاتے ہیں، اگر ان آداب کی رعایت کی جائے تو ہم صحیح معنی میں روزہ دار کہلانے کے مستحق ہوسکتے ہیں۔
روزہ کی قبولیت کی شرط اولین اخلاص ہے، یعنی روزہ دار کی نیت اللہ کی رضاجوئی اور آخرت کا اجر و ثواب ہونا چاہیے، دنیا کی واہ واہ لوٹنا یا روزہ دار کی حیثیت سے شہرت پانا مقصود نہ ہو۔ اخلاص ہر عمل کی روح ہے، اس کے بغیر نہ نماز قبول ہے نہ روزہ اور نہ کوئی دوسری عبادت۔ اسی کو حدیث شریف میں اس طرح تعبیر کیا گیا ہے: ’’جو ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاری: ۷؍۱۴۰، رقم الحدیث: ۱۸۵۷، صحیح المسلم: ۴؍۱۴۶، رقم الحدیث: ۱۲۶۸) ایمان و احتساب دراصل روزہ میں تقرب کی نیت کا استحضار ہے، ہم میں سے بہت سے لوگ محض عرف و عادت کے تحت روزے رکھتے ہیں، ہوسکتا ہے اس طرح کے روزوں سے فرض کی تکمیل ہوجاتی ہو، لیکن حدیث شریف میں جس ایمان و احتساب کی بات فرمائی گئی ہے، وہ حاصل نہیں ہوتی۔
روزہ دار کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ روزے کی حالت میں ذکر و تلاوت اور نوافل جیسی عبادتوں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام رکھے، اور جو وقت بھی ملے اس کو دعا و استغفار، حمد و ثنا اور تکبیر و تہلیل سے معمور رکھے، راتوں کو تراویح اور تہجد کی نمازوں میں مشغول رہے، حسب گنجائش صدقہ و خیرات بھی کرتا رہے، بہت سے روزہ داران چیزوں کا اہتمام نہیں کرتے، دن کا بیشتر حصہ سونے میں گزار دیتے ہیں اور راتوں کو لہو و لعب کی محفلیں سجا کر بیٹھ جاتے ہیں، انھیں ذرا خیال نہیں آتا کہ یہ مبارک اوقات خداتعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں کا سرچشمہ ہیں، انھیں لغویات میں گنوانا نہیں چاہیے بلکہ سے بچنا عام حالات میں بھی نہایت ضروری ہے، لیکن روزے کی حالت میں ان سے دور رہنا اور بھی اہم ہوجاتا ہے، طاعت اور معصیت کبھی یکجا نہیں ہوسکتے، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ روزہ رکھ کر اللہ کی اطاعت بھی کر رہے ہوں، اور جھوٹ بول کر یا غیبت کرکے اس کی معصیت میں بھی مبتلا ہو رہے ہوں۔
ایک حدیث میں ہے: ’’جو شخص فحش گوئی نہیں چھوڑتا اور فواحش پر عمل کرنا ترک نہیں کرتا، اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ کر بیٹھ جائے۔‘‘ (سنن ابی داود: ۶؍۳۱۶، رقم: ۲۰۱۵، سنن الترمذی: ۳؍۱۴۱، رقم: ۶۴۱)
معلوم ہوا کہ دن بھر بھوک اور پیاس کی مشقت میں مبتلا رہنا عبادت نہیں ہے یہ تو فاقہ کشی ہے۔ اصل چیز معاصی سے اجتناب کرنا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان، آنکھ اور زبان بھی جھوٹ اور گناہ سے رُکے رہیں، پڑوسی کو ایذا نہ دو، روزے والے دن تم وقار اور تحمل کے ساتھ رہو، تمہارے روزے اور بغیر روزے والے دن یکساں نہ ہونے چاہییں‘‘ (شعب الایمان للبیہقی: ۸؍۱۵۷ رقم ۳۴۹۱) ان دونوں حدیثوں میں ان لوگوں کے لیے دعوتِ فکر ہے جو روزہ تو رکھتے ہیں، لیکن ان کے تمام اعضا گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ ذراسی ذراسی بات پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، قوت برداشت کھو بیٹھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ روزے کے نتیجے میں ہورہا ہے، حالاں کہ روزے کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، روزہ دار کو چاہیے کہ وہ ہر ایسے عمل سے اجتناب کرے جس سے اس کا روزہ خطرے میں پڑجائے۔
بہت سے لوگ روزے کا دن بھی عام دنوں کی طرح گزارتے ہیں، اور کوئی گناہ ایسا نہیں ہوتا جو ان کی زبان، کان اور آنکھ سے سرزد نہ ہوتا ہو، روزہ دار کو تو انتہائی حلیم اور بردبار ہونا چاہیے، نہ کسی سے بدزبانی کرے، نہ کسی سے جھگڑے، نہ گالم گلوچ کرے بلکہ اگر کوئی دوسرا شخص اسے کسی جھگڑے میں ملوث بھی کرنا چاہے، یا بلاوجہ آکر الجھنے کی کوشش بھی کرے تو اس سے صاف صاف کہدے کہ بھئی اپنی راہ لگو، میں روزے سے ہوں، حدیث شریف میں ہے ’’اگر تم میں سے کوئی شخص کسی دن روزے سے ہو تو اسے چاہیے کہ وہ گالم گلوچ نہ کرے، نہ چیخ پکار کرے، اور اگر کوئی شخص اسے گالی دے یا لڑائی کرنا چاہے تو اس سے کہدے کہ میں روزے سے ہوں۔‘‘ (صحیح البخاری: ۶؍۴۷۴، رقم: ۱۷۷۱، صحیح مسلم: ۶؍۱۷، رقم: ۱۹۴۴)
عام حالات میں بھی وقت پر فرض نمازوں کی ادائی ضروری ہے، لیکن رمضان کے دنوں میں تو اس کا کچھ زیادہ ہی اہتمام کرنا چاہیے، بہت سے لوگ روزہ رکھ کر سوجاتے ہیں، انھیں نمازوں کی پرواہ بھی نہیں ہوتی، حالاں کہ قرآن کریم میں صاف طور پر فرمادیا گیا: ’’یقیناًنماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے‘‘ (النساء: ۱۰۳) مسلمان کے لیے ہر حالت میں ضروری ہے کہ وہ نماز کو وقت پر ادا کرے، کسی عذر شرعی کے بغیر نماز کو وقت متعین سے مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم ایک عبادت کے لیے دوسری عبادت میں کوتاہی کررہے ہیں، حالاں کہ ہر عبادت کا تقاضا ہے کہ اس کو صحیح وقت پر صحیح طریقے سے ادا کیا جائے۔ روزے کی حالت میں دعاؤں کا اہتمام بھی کرنا چاہیے، سحر و افطار کی دعائیں پڑھنے کا معمول بنائے، افطار سے پہلے اللہ کی طرف متوجہ ہو کر ضرور بیٹھے اور دعا میں مشغول رہے۔ حدیث شریف میں ہے، ’’ان للصائم عند فطرہ دعوۃ ما ترد‘‘ (ابن ماجہ: ۵؍۲۹۵، رقم: ۱۷۴۳) ’افطار کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی۔‘
حدیث شریف میں آنکھ، کان اور زبان کا ذکر ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی اعضائے جسم کے لیے کوئی پابندی نہیں، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ باقی اعضائے بدن کی حفاظت بھی ضروری ہے، مثلا ہاتھ کا ناجائز چیز کے پکڑنے سے، پاؤں کا ناجائز چیز کی طرف چلنے سے روکنا، پیٹ کا مشتبہ چیزوں سے محفوظ رکھنا، اسی طرح باقی اعضائے بدن کی محرمات سے حفاظت کرنا۔ حضرت شیخ نے روزے کا ایک ادب یہ بھی لکھا ہے کہ افطار کے وقت حلال مال سے کھائے اور اتنا نہ کھائے کہ شکم سیر ہوجائے، اس لیے کہ اتنا کھانے سے روزے کی غرض ہی فوت ہوجائے گی، کیوں کہ روزے سے مقصود قوت شہوانیہ اور بہیمیہ کا کم کرنا ہے اور قوت نورانیہ اور ملکیہ کا بڑھانا ہے، گیارہ مہینے تک بہت کچھ کھایا ہے۔ اگر ایک مہینے کچھ کم کھالیا تو کیا جان نکل جائے گی، مگر ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ افطار کے وقت تلافی مافات میں اور سحر کے وقت حفظ ماتقدم میں اتنا زیادہ کھالیتے ہیں کہ رمضان کے علاوہ دنوں میں اتنا کھانے کی نوبت نہیں آتی۔ (فضائل اعمال: ۵۹۰)