- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

افغانستان میں صدر ٹرمپ کی فضائی جنگ کی جانی قیمت کیا؟

ہیلی کاپٹرز دوپہر کے بعد آئے اور انھوں نے ہجوم پر اس جگہ راکٹ داغے جہاں بچے بیٹھے ہوئے تھے۔
عینی شاید نے بتایا کہ جیسے ہی لوگوں نے وہاں سے بھاگنا شروع کیا تو مشین گن کی گولیوں نے ان کا پیچھا کیا۔
یہ طالبان کے خلاف نئی مہک فضائی مہم کی تازہ ترین مثال تھی کہ کس طرح طالبان کے خلاف امریکہ اور افغان فورسز کی خوفناک فضائی کارروائیوں میں شہریوں کی جانیں جا رہی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ افغان فضائیہ کی جانب سے دو اپریل کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے قندوز میں کی جانے والی فضائی کارروائی میں کم سے کم 36 افراد جاں بحق اور 71 زخمی ہو گئے۔
واضح رہے کہ طالبان کے زیرِ انتظام ضلع دشت آرچی میں دینی مدرسے کے باہر سینکڑوں لوگ جمع تھے۔ یہ لوگ وہاں طالب علموں کے لیے اسناد کی تقسیم کے لیے ہونے والی روایتی تقریب دیکھ رہے تھے۔
ایک مقامی عینی شاہد نے اگلے دن بی بی سی کو بتایا ’میں نے ہر جگہ پگڑیاں، جوتے، بازو، ٹانگیں اور خون دیکھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا علاقے میں ہونے والی اس تقریب کے بارے میں ہر کوئی جانتا تھا اور اس میں بہت سے بچے اس لیے بھی شامل تھے کیونکہ تقریب کے بعد انھیں دوپہر کا مفت کھانا دیا جانا تھا۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ اگست میں افغانستان کے بارے میں اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔ نئی حکمتِ عملی کے تحت امریکی فورسز کے لیے فضائی حملے کرنا آسان ہو گیا ہے۔ عراق اور شام میں خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کے خلاف جنگ ماند پڑنے کی وجہ سے تمام وسائل ایک مرتبہ پھر افغانستان منتقل ہو گئے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے طالبان اور دولتِ اسلامیہ کے خلاف کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں گذشتہ برس زیادہ تر عام افغان شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔
رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں دشت آرچی واقعے سے پہلے امریکی فضائی حملوں میں 67 افراد جاں بحق اور 75 سے زیادہ زخمی ہوئے جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے تھے۔
اسی دوران امریکہ نے افغان فضائیہ کی صلاحیت بڑھانے کے لیے وسیع پیمانے پر مدد کرنے شروع کی جو ایک پانچ سالہ منصوبہ ہے۔ اس منصوبے میں اسے 159 بلیک ہاک ہیلی کاپٹر فراہم کرنا شامل ہے۔
افغانستان میں ایک اعلیٰ امریکی جنرل جان ڈبلیو نکلسن نے وعدہ کیا ہے کہ ’فضائی طاقت کی ایک بے لگام لہر‘ کو چھوڑا جائے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں کا مقصد طالبان کو مذاکرات کی میز کی جانب دھکیلنے کی ایک کوشش اور شاید امریکہ کی سب سے طویل جنگ کا خاتمہ ہے جو 17 برس سے جاری ہے۔
لیکن جب امریکی ہیلی کاپٹروں نے رواں برس تین اپریل کو طالبان کے زیرِ انتظام ضلع دشت آرچی میں دینی مدرسے میں جاری مذہبی تقریب پر بمباری کی تو اس نے واشنگٹن اور کابل دونوں کے لیے اہم سوالات اٹھائے اور طالبان کے لیے طاقتور پروپیگنڈا فراہم کیا۔
افغان حکومت کا کہنا ہے کہ فضائی کارروائی میں طالبان کے سینئیر رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا جو قندوز شہر پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
کابل میں اینالسٹ نیٹ ورک کی کیٹ کلارک کا کہنا ہے ’یہ نہیں ہو سکتا کہ ہیلی کاپٹروں کے پائلٹ کھلے مجمعے پر بمباری کریں اور ان کو نظر نہیں آیا ہو کہ وہ کس پر یعنی بچوں پر بمباری کر رہے ہیں؟
ان کا مزید کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ افغان فضائیہ ان لوگوں کو افغان عوام نہیں سمجھتے؟
افغانستان کے آزاد ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنی پانچ جون کی رپورٹ میں کہا کہ حملہ ایک ’جنگی جرم‘ تھا۔
افغان حکومت نے ابتدائی طور پر اس بات سے انکار کیا کہ اس حملے میں عام شہری ہلاک ہوئے۔ تاہم ایک ماہ بعد حکومت نے اس واقعے پر معذرت کی اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا۔ حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کرنے کا اعلان بھی کیا۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ‘حکومت اور باغیوں میں اہم فرق یہ ہے کہ ایک جائز حکومت اپنی غلطیوں کے لیے ہمیشہ معافی طلب کرے۔’
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت بھی افغانستان کی فضائیہ کی جانب سے کی جانے والی اس کارروائی کی ذمہ دار ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی سینئیر ریسرچر پیٹریشیا گراسمین کا کہنا ہے ’امریکہ افغان پائلٹوں کی تربیت کرتا اور انھیں تمام سامان فراہم کرتا ہے۔‘
افغانستان میں نیٹو مشن ریزولیوٹ سپورٹ کا کہنا ہے کہ دو اپریل کے حملے میں امریکہ اور بین الاقوامی افواج ملوث نہیں تھیں۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا ’افغان فضائیہ اور امریکی افواج دونوں بین جنگی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ ہم آپریشنل منصوبہ بندی پر عملدرآمد سے شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔‘
لیکن افغانستان کی سکیورٹی فورسز نے ہی غلطیاں نہیں کی ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق امریکی بمبار طیاروں کی بمباری سے 154 عام شہری مارے گئے جبکہ افغان فضائیہ کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی تعداد 99 ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی افواج نے ایک دہائی قبل افغانستان میں فضائی کارروائیوں کے ذریعے عام شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کی تدبیر کی۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی بھی امریکی بمباری کے سخت ناقد تھے۔ وہ اسے افغانستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے تھے۔
مس گوسمین نے کہا ’ان کے پاس عام لوگوں کی تکلیف میں کمی کے لیے خاص مقصد کے لیے وقف سویلین کیژوئلٹی ٹیم تھی جس نے ہر واقعے کا تجزیہ کیا۔ ان کے پاس ایسا عملہ تھا جس نے ان مقامات کا دورہ کیا۔ سنہ 2014 سے ریزولیوٹ سپورٹ میں سویلین کیژوئلٹی ٹیم کافی چھوٹی رہی ہے۔ اس ٹیم کے ارکان سائٹس کا دورہ نہیں کرتے۔ وہ متاثرہ افراد سے گفتگو کرتے ہیں اور نہ عینی شاہدوں یا دیگر مقامی ذرائع مثلاً طبی عملے سے بات چیت کرتے ہیں۔’
ریزولیوٹ سپورٹ کا کہنا ہے کہ وہ اور امریکی فوج صرف ایسے متاثر عام لوگوں کے معاملات کی تحقیقات کرتے ہیں جو ان کی وجہ سے متاثر ہوئے ہوں۔ یہ تحقیقات اس صورت میں کی جاتی ہیں اگر محفوظ رہتے ہوئے سائٹس کا دورہ کیا جا سکے اور اگر الزامات کی تصدیق یا تردید کے لیے دستیاب اطلاعات ناکافی ہوں۔
افغانستان میں بہت سے عام شہری اب بھی حکومت مخالف گروپوں کی وجہ سے نشانہ بنتے ہیں جن میں طالبان اور دولتِ اسلامیہ شامل ہیں۔ حالانکہ ان گروہوں پر شدید بمباری کی جاتی ہے لیکن ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ امریکہ عام لوگوں کو بچانے کے طریقۂ کار میں لاپرواہی کر رہا ہے۔ سنہ 2016 سے 2017 تک امریکی فضائیہ کے حملوں میں 226 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسی عرصے میں افغان اور امریکی فضائی حملوں کی وجہ سے عام شہروں کے نشانہ بننے میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تمام ذرائع کو سامنے رکھیں تو عام شہری کے نشانہ بننے میں کچھ کمی ہوئی ہے خصوصاً زمینی کارروائیوں میں متاثرہ افراد کی تعداد کم رہی ہے۔ کیٹ کلارک کے مطابق گو فضائی حملوں میں عام لوگوں کی ہلاکتوں کی تعداد زیادہ رہی ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ زیادہ فضائی کور نے طالبان کو آبادی والے علاقوں پر حملے کرنے سے روکا ہے۔
کسی بھی صورت میں دشتِ آرچی کا واقعہ افغان فضائیہ اور امریکی ماہرین کے ذمہ داران اور حکومت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔
بارنیٹ روبن سنہ 2009 اور 2013 کے درمیان امریکی محکمۂ خارجہ میں افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی ایلچی کے سینئیر مشیر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فضائی کارراوئیوں کا ‘کوئی سٹریٹیجک اثر نہیں ہے۔ یہ بار بار وہی جنگ لڑ رہے ہیں۔’
روبن کے مطابق بڑی طاقتوں اور افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان اتفاقِ رائے ایک مضبوط افغانستان کی اولین شرط ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال ‘زچ ہو جانے والی ایسی حالت ہے جسے پلٹا نہیں جا سکتا۔ اگر وسطی یا طویل مدت میں یہ حالات تبدیل ہوئے تو یہ تبدیلی ہمارے خلاف ہو گی۔’