- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حصول تقویٰ میں روزے کا کردار کلیدی ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے روزہ کو حصول تقوی میں موثر عبادت یاد کرتے ہوئے رمضان المبارک کے سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا۔
مولانا عبدالحمید نے اٹھارہ مئی دوہزار اٹھارہ کے خطبہ جمعہ میں اپنے خطاب کا آغاز قرآنی آیت: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ» کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: قرآن پاک اور نبی کریم ﷺ کی سنت مطہرہ سے معلوم ہوتاہے کہ سب سے اہم قانون اور اصل تقوی و پرہیزگاری ہی ہے۔ اللہ تعالی کے تمام احکام کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ بندوں میں تقوی کی جڑیں مضبوط ہوجائیں۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ رب العزت نے روزے میں خاص اثر رکھا ہے جس سے بندہ متقی بن جاتاہے۔ رمضان کی آمد سے ایک مناسب فضا قائم ہوتی ہے تا کہ بندہ اپنی اصلاح کر ے اور گناہوں سے دوری اختیار کرے۔ اس فضا میں روزہ رکھنا، تلاوت کرنا، نماز پڑھنا اور غریبوں سے ہمدردی کرنا آسان ہوجاتاہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: روزے کی فرضیت کا فلسفہ یہی ہے کہ بندہ تقوی حاصل کرے۔ متقی انسان اللہ کے محبوب اور نبی کریم ﷺ کا مقرب بن جاتاہے۔ جنت متقی لوگوں کے لیے ہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اللہ تعالی نے رمضان میں نزول قرآن کو مناسب دیکھا اور اسی مہینے میں ہم پر روزہ بھی فرض ہوا۔ اللہ تعالی کی کتاب سے روزہ مناسبت رکھتاہے۔ نزول تورات سے پہلے اللہ تعالی نے حضرت موسی ؑ کو تیس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر دس دن مزید روزہ رکھنے کا حکم آیا۔ اس کے بعد تورات کی کتاب نازل ہوئی۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: جب بندہ روزہ رکھتاہے، کتاب کے احکام قبول کرنا اس کے لیے آسان ہوجائے گا۔ پرہیزگار افراد خدا کے حکم مانتے ہیں۔ اگر ہم نے اللہ کے احکام سے غداری کی، ہماری اصلاح و فلاح بھی ناممکن ہے۔ لہذا رمضان میں زیادہ سے زیادہ نیک کاموں میں لگ جائیں۔

تراویح نبی کریم ﷺ کی سنت اور صحابہ کے اجماع سے ثابت ہے
خطیب اہل سنت نے اپنے بیان میں تراویح کی حجیت واضح کرتے ہوئے کہا: نبی کریم ﷺ نے چند رات تراویح قائم فرمائی، پھر اس خوف سے تراویح ترک کردی کہ کہیں امت پر فرض نہ ہوجائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد النبی ﷺ میں مختلف جماعتوں کو ایک ہی امام کے اقتدا میں جمع کیا۔ چنانچہ اس پر اجماع صحابہ کی مہر بھی لگ گئی۔
انہوں نے تراویح میں قرآن کی تلاوت سننے کو حصول تقویٰ میں موثر یاد کرتے ہوئے کہا: رمضان ہر نیکی دراصل ستر نیکیاں بن کر کئی گنا زیادہ ثواب کے باعث ہوجاتی ہے۔ زکات بھی فرائض میں شامل ہے جس کا فائدہ رمضان میں یہی ہے کہ گویا شخص ایک لاکھ کے بجائے ستر لاکھ دیتاہے۔ لہذا اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ ثواب کمانے کی کوشش کریں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: رمضان صبر و استقامت کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں خواہشات اور گناہوں کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے۔ اگر کوئی روزہ رکھے، لیکن گناہوں اور لغو کاموں سے پرہیز نہ کرے، اس کے روزے سے کوئی تقوی حاصل نہیں ہوتا۔ لہذا منہ کے ساتھ ساتھ پورا جسم روزے کی حالت میں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا: رمضان مواسات و ہمدردی کا مہینہ ہے۔ غریبوں، ناداروں اور یتیموں سے تعاون کریں۔ دینی مدارس کے طلبہ کو بطور خاص نصرت کریں۔ یہ طلبہ قرآنی آیت کے مطابق بظاہر مالدار معلوم ہوتے ہیں، لیکن دراصل وہ غریب لوگ ہیں اور قرآن و سنت کی خاطر مدرسوں میں محصور ہیں۔ علم سیکھتے ہیں اور انہیں مال و پیسہ کمانے کی فرصت نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے رمضان کے بعض فضائل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی اس ماہ عظیم میں جنت کے دروازے کھولتاہے اور جہنم کے دروازے بند ہوتے ہیں۔ شیاطین بھی پابند سلاسل بن جاتے ہیں۔ اسی لیے مساجد میں لوگوں کا ہجوم نظر آتاہے۔ لہذا شیطان کی چالوں سے پورے سال میں محفوظ رہنے کے لیے شرایط و ضوابط کے ساتھ روزہ رکھنے کا اہتمام کریں۔ روزہ داروں کو افطاری دینے کی کوشش کریں تاکہ آپ بھی ان کے روزے کے ثواب میں برابر کے شریک ہوجائیں۔ اپنی زکات سے سب کو دیں، لیکن سب سے بڑا حصہ دینی مدارس کے لیے مختص کریں۔

بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی پر مسلمان خاموش نہیں رہیں گے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی کو ’جرم عظیم‘ اور ایک ’تلخ یاد‘ قرار دیتے ہوئے مسلم حکام کو دعوت دی توسیع طلبی اور دیگر ملکوں میں مداخلت کے بجائے عالم اسلام کے اتحاد کے لیے محنت کریں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کے افتتاح کی مذمت کرتے ہوئے کہا: القدس میں امریکی نمائندگی اور سفارتخانے کا افتتاح ناگوار، تلخ اور مکروہ واقعات میں ایک تھا جس سے تمام مسلمانوں اور آزادخیال لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا: بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جو گزشتہ کئی صدیوں سے مسلمانوں کے زیرانتظام چلا آرہاہے۔ مسلمان کسی بھی دوسری برادری سے بڑھ کر اس شہر کے مستحق ہیں، چونکہ آخری دین اور کتاب ان ہی کے پاس ہے اور انہوں نے آخری نبی ﷺ پر ایمان لایاہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی بہت بڑا جرم ہے جس کا ارتکاب امریکی حکام، خاص کر ڈنلڈ ٹرمپ نے کیا۔ اس اقدام سے مسلمانوں کے دینی جذبات مجروح ہوئے۔ اگرچہ امریکی حکام نے رمضان المبارک کی آمد پر مسلمانوں کو مبارکباد دے کر ان کی رنجش کم کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کے حالیہ اقدام ایسا گہرا زخم ہے جو کسی بھی مرہم سے علاج نہیں ہوتا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا: مسلمان کسی بھی صورت میں یروشلم میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی نہیں بھول سکتے اور ان شاءاللہ اس حوالے سے فیصلہ کرکے خاموش نہیں رہیں گے۔ مسلمان کسی بھی صورت میں بیت المقدس کو نہیں بھول سکتے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: ممکن ہے امریکی اقدام سے مسلمان حکمرانوں کی بے حسی ختم ہوجائے اور ان کی غیرت میں جوش آئے۔ افسوس کی بات ہے کہ اسلام دشمن عناصر اور عالمی صہیونی تحریک نے مسلم ممالک میں پھوٹ ڈالاہے اور ان اختلافات سے اپنے مفادات کے لیے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا: اب وقت پہنچاہے کہ مسلم حکمران توسیع پسندی، زیادہ طلبی اور دیگر ملکوں کے مسائل پر اثرانداز ہونے کے بجائے مسلم ممالک کی سرحدوں کا احترام کریں اور مسلمانوں کو اکٹھے رکھنے کی کوشش کریں۔ شیعہ وسنی اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے متحد ہوکر امریکا و اسرائیل جیسی استکباری قوتوں کے سامنے کھڑے ہوجائیں۔

جامع حکومتیں بنانے اور اقلیتوں کے حقوق یقینی بنانے سے عالم اسلام میں اتحاد پیدا ہوگا
خطیب اہل سنت زاہدان نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: عالم اسلام میں حقیقی اتحاد و یکجہتی کے حصول کے لیے ضروری ہے مسلم ممالک خاص کر بحرانوں سے دوچار ممالک میں جامع حکومتیں بنائی جائیں اور تمام عوام، خاص طورپر اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔
انہوں نے مزید کہا: مسلم ممالک میں قوموں کے درمیان پائے جانے والے امتیازی رویوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ہر قوم کے افراد کو برابر کے حقوق دیے جائیں۔ اسی سے قومیں متحد ہوکر ساتھ ہوجائیں گی۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: تمام مسلم ممالک کے سربراہوںکو میرا خطاب ہے کہ مسلکی مسائل کو ہوا دینے اور مسلکی اختلافات کو رنگ دینے سے امت مسلمہ کے کسی بھی درد و رنج کا علاج نہیں ہوتا اور عالم اسلام میں اتحاد پیدا نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کو چاہیے مشترکہ عقائد تھام لیں اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔
انہوں نے مزید کہا: اگر موجودہ حالات میں مسلمان متحد نہ ہوجائیں اور مذاکرات و باہمی گفت و شنید کی طرف واپس نہ آئیں، پھر کب اور کن حالات میں اتحاد و یکجہتی اور مفاہمت کی جانب لوٹیں گے؟ اب وہ وقت ہے کہ تمام مسلمان بشمول بوڑھے اور نوجوان، خواتین و حضرات بیدار ہوجائیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: عالم اسلام کے بحرانی حالات مسلمانوں کی غفلت، اختلافات اور لاپرواہیوں کے نتائج ہیں۔ لہذا تمام مسلمان، بشمول حکام، علمائے کرام، دانشور حضرات، لکھاریوں اور دیگر برادریوں سے چاہتاہوں عالم اسلام کی بحرانی کیفیت کو مدنظر رکھیں اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے کوششوں کو محور بنائیں ۔ یہ ان کی سرگرمیوں کا مرکزی مسئلہ ہونا چاہیے۔
اپنے خطاب کے آخر میں خطیب اہل سنت نے تمام شہریوں کو یاددہانی کرائی کہ پانی کے استعمال بہت زیادہ احتیاط کریں اور اسراف سے بچیں۔