- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

کسی بھی محکمہ کو ایرانی قوم کی آزادی چھیننے کا حق نہیں ہے

نوٹ: گزشتہ کئی سالوں سے اہل سنت ایران کے ممتاز دینی رہ نما شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نامعلوم وجوہ کی بناپر صوبہ سیستان بلوچستان اور تہران شہر کے علاوہ ایران کے کسی بھی علاقے کا دورہ نہیں کرسکتے۔ چنانچہ صوبہ خراسان کے خواف اور تایباد میں انہیں نماز جنازہ میں شرکت سے روک دیا گیا۔ نیز حال ہی میں صوبہ کرمان کے رمشک شہر میں جو چند سال پہلے تک بلوچستان ہی کا حصہ تھا، انہیں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ مولانا عبدالحمید کو متعدد غیرملکی اسفار سے بھی منع کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ایران کے بعض دیگر سنی علمائے کرام اندرون ملک اسفار کے سلسلے میں غیرقانونی پابندیوں کا سامنا کرتے چلے آرہے ہیں۔ مولانا عبدالحمید نے زاہدان کے چار مئی دوہزار اٹھارہ کے خطبہ جمعہ میں حساس اداروں کی جانب سے عائد کیے جانے والی غیرقانونی پابندیوں کے خاتمے پر زور دیا۔

خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ہم بیک وقت اسلامی، قومی اور بین الاقوامی کنونشنز اور معاہدات کے پابند ہیں۔ اسلامی معاہدہ تمام مسلمانوں کو اسلامی شریعت اور قرآن و سنت کے پابند بناتاہے۔ جبکہ بین الاقوامی معاہدات ملکوں کے درمیان طے ہوتے ہیں اور ان کے مطابق شہری حقوق کا خیال رکھنا ہر ملک کی ذمہ داری ہے۔
’قومی قرارداد‘ کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے کہا: قومی قرارداد وہی آئین ہے جس پر قوم کے تمام افراد اور برادریوں کا اتفاق ہے اور سب پر اس کی پاسداری ضروری ہے۔ قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور یہاں کسی کا استثنا نہیں ہے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے مزید کہا: آئین کے مطابق، تمام شہریوں کو ان کے جائز حقوق فراہم ہونے چاہییں۔ دینی و مذہبی، سیاسی، معاشرتی، انفرادی اور ہر قسم کی آزادی کا حق آئین میں ہے۔
انہوں نے کہا: قانون کے مطابق عقیدے میں سب کو آزادی حاصل ہے اور محض عقیدے کی وجہ سے کسی شہری سے پوچھ گچھ نہیں ہوسکتی۔
مولانا عبدالحمید نے بعض اداروں کی ماورائے آئین حرکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا: یہ بالکل قانون کے خلاف ہے کہ کوئی شخص یا ادارہ محض اپنی قوت کے بل بوتے دوسروں کی آزادیوں اور حقوق پر شبِ خون مارے۔ یہ قومی قرارداد کے خلاف ہے۔ تمام سرکاری اداروں کو چاہیے اس قومی میثاق سے وفادار رہیں۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: عوام کے حقوق میں سفر کا حق شامل ہے۔ ہر ایرانی شہری جہاں بھی چاہے سفر کرسکتاہے، کسی کو سفر سے روکنا غیرقانونی اقدام ہے۔ اس حوالے سے کسی مذہب اور مسلک کے پیروکاروں کے لیے خاص قانون نہیں ہے۔

معاشرے کے فکری امن ’قانونی آزادیوں کی فراہمی‘ میں ہے
مولانا عبدالحمید نے زور دیتے ہوئے کہا: یہ انصاف کے تقاضوں کے سراسر خلاف ہے کہ ایک مسلک کے پیروکار پوری طرح آزاد ہوں اور دوسرے مسلک والوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے؛ ایسے اقدامات آئین اور قومی معاہدوں کے خلاف ہیں۔ سب کو یکساں آزادی ملنی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: عوام کی آزادی سے مت ڈریں۔ ایرانی عوام کو ان کی قانونی آزادیاں فراہم کریں؛ اس سے امن قائم ہوگا۔ فکری اور ذہنی امن اس وقت حاصل ہوسکتاہے جب عوام کے پاس قانونی اور جائز آزادیاں ہوں۔ملک سے تنگ نظری کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ مختلف ادارے اپنی سوچ بڑھادیں۔اسلامی جمہوریہ آزادی کے حوالے سے اسوہ بن جائے۔
ممتاز دینی و سماجی رہ نما نے کہا: ایرانی قوم نے سابق رجیم کی تنگیوں اور سختیوں سے جان چھڑانے کے لیے انقلاب کیا اور آزادی و خودارادیت عوام کے نعرے تھے۔ میں یقین دلاتاہوں کہ قانونی اور جائز آزادیوں کی فراہمی سے کوئی خطرہ پیش نہیں آتا، خطرہ اس وقت ہوتاہے جب قوم کی جائز آزادیوں پر پابندیاں لگائی جائے۔
انہوں نے کہا: خیرخواہ لوگوں کے اندرون و بیرون ملک اسفار سے ڈرنا بلاوجہ ہے۔ ہم حکام اور عوام دونوں کی بھلائی چاہتے ہیں؛ یہ ہماری سوچ اور عقیدہ ہے، کوئی عارضی پالیسی نہیں ہے۔ہمارے مطالبات آئین سے بالاتر نہیں ہیں۔ ہم صرف آئین کے دائرے میں موجود قوانین کو مانتے ہیں۔ لہذا آئین کا مکمل نفاذ ہونا چاہیے۔

اہواز اور آبادان کے عوام کے مسائل میں نظرثانی کریں/شیعہ اگر سنی ہوجائیں، انہیں ہراساں نہ کریں
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے بیان کے ایک حصے میں جنوب مغربی صوبہ خوزستان کی سنی برادری کے مسائل پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا: بعض سرحدی علاقوں میں عوام کی آئینی آزادی کی خلاف ورزی ہوجاتی ہے اور لوگ اپنے عقیدے اور مسلک کی وجہ سے ہراساں اور تنگ کیے جاتے ہیں۔ حکام اس حوالے سے اپنے رویوں میں نظرثانی کریں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: بعض اوقات ایسا ہوا ہے کہ سرکاری ٹی وی سمیت کچھ سیٹلائیٹ ٹی وی چینلوں میں کسی فرد کو سابق ’سنی‘ مسلمان ظاہر کرکے بتایا گیا کہ یہ شیعہ بن کر اب ’ہدایت‘ پاچکاہے۔ ہم نے خاموشی اختیار کرکے کہا اگر ایسا کرنا پیسہ اور دولت بٹورنے کی خاطر نہ ہو، یہ اس شخص کا حق ہے۔
انہوں نے مزید کہا: جس طرح اگر کوئی ’سنی‘ شخص شیعہ عقائد اختیار کرے، اسے آزادی حاصل ہے، بالمقابل شیعہ شہریوں کوئی بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ سنی عقائد اختیار کریں۔ سنی بننے والے شہریوں کو ہراسان کرکے تنگ کرنا اور ان کا پیچھا کرنا قانونی اقدام نہیں ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: عالمی تنظیم تقریب بین المسالک کی ایک کانفرنس میں شریک علمائے کرام کا فیصلہ ہے کہ عقیدے کے مسئلے میں سب کو آزادی حاصل ہے۔ خوزستانی عوام بھی اس فیصلہ سے مستثنی نہیں ہیں۔ انہیں تنگ کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔