- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

شام کی موجودہ صورتحال کا تاریخی پس منظر

۲۵ مارچ اتوار کو جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے سالانہ جلسے کی آخری نشست میں حاضری ہوئی، تحریک خدام اہل سنت کے امیر حضرت مولانا قاضی ظہورالحسین اظہر میر مجلس تھے، جبکہ جمعیت علمائے برطانیہ کے قائد مولانا قاری تصورالحق مہمان خصوصی تھے۔ اس موقع پر جو گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بعدالحمد و الصلوۃ: یہ ہمارے بزرگوں کی جگہ ہے جہاں حاضر ہو کر بہت سی نسبتیں اور یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ یہاں ایک دور میں حضرت مولانا قاضی مظہرحسینؒ ، حضرت مولانا عبداللطیف جہلمیؒ ، حضرت مولانا حکیم سیدعلی شاہؒ ، حضرت مولانا نذیراللہ خانؒ اور مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ جیسے حضرات کی زیارت و ملاقات ہوتی تھی۔ آج وہ یہاں موجود نہیں ہیں، مگر ان کی نسبتیں اور برکات بدستور قائم ہیں۔ اس سال ہمارے ایک اور بزرگ دوست مولانا حکیم مختار احمد الحسینیؒ بھی نظر نہیں آرہے، جو چند ماہ قبل انتقال فرما گئے ہیں۔ اللہ تعالی ان سب بزرگوں کی مغفرت فرمائیں اور ہمیں ان کی یاد اور مشن کو زندہ رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔
ہم دورہ حدیث سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کرام اور قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے والے حفاظ اور قراء کی دستاربندی کے لیے جمع ہیں اور ان کی خوشی میں شریک ہیں۔ ہمارے لیے خاندانی طور پر ایک اور خوشی کی بات بھی ہے کہ حضرت مولانا عبداللطیف جہلمیؒ کے پڑپوتے، میرے مرحوم بہنوئی مولانا قاری خبیب احمد عمر کے پوتے اور عزیز بھانجے قاری محمدابوبکر صدیق کے فرزند حافظ محمداسید نے حفظ قرآن کریم مکمل کیا ہے اور آج اس کی بھی دستاربندی ہے، اللہ تعالی ان سب علماء و قراء اور حفاظ کے پڑھنے کو اپنی بارگارہ میں قبول فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
آج مجھے شام کے حالات پر گفتگو کے لیے کہا گیا ہے، جو تفصیلی گفتگو کے متقاضی ہیں اور وقت ناکافی ہے، اس لیے مختصراً چند باتیں عرض کررہا ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ آج جس خطہ کو شام کہا جاتا ہے، یہ پورا شام نہیں ہے بلکہ اس ملک شام کا صرف ایک حصہ ہے، جس کا تذکرہ ماضی کی تاریخ میں ملتا ہے۔ وہ شام اب پانچ مستقل ملکوں میں تقسیم ہوچکا ہے: (۱) موجودہ شام، (۲) فلسطین، (۳) اردن، (۴) لبنان اور (۵) اسرائیل اسی شام کے خطے میں ہیں، جس کا قرآن و حدیث اور تاریخ میں ذکر کیا گیا ہے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق شام کے سرزمین بابرکت اور مقدس مقامات میں سے ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج میں ’’الارض التی بارکنا فیہا‘‘ کا جو ذکر ہے، وہ اسی شام میں شامل ہے۔ قرآن کریم کی دیگر بہت سی آیات میں بھی اسے ارض مقدسہ اور بابرکت زمین قرار دیا گیا ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق زمین کے محترم اور مقدس مقامات میں حرمین شریفین یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ ارض فلسطین بھی ارض مقدسہ ہے، جبکہ کوہ طور کو بھی قرآن کریم نے ’’بالواد المقدس طویٰ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
تیسری گزارش یہ ہے کہ یہ علاقہ بہت سے مذاہب کی باہمی کشمکش کی جولان گاہ ہے۔ یہودی یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ یہ ان کا مذہبی مرکز اور قبلہ ہے اور ان کے بقول ’’ہیکل سلیمانی‘‘ اسی خطے میں تھا۔ عیسائیوں کا قبلہ بیت اللحم بھی یہیں ہے، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تھی اور جس کاتذکرہ قرآن کریم نے ’’اذانتبذت من اہلھا مکاناً شرقیاً‘‘ کی صورت میں کیا ہے، جبکہ مسلمانوں کے لیے یہ قبلہ اول، مسجد اقصی اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کی ایک منزل کے طور پر قابل احترام ہے اور عقیدت و محبت کا مرکز ہے۔ ان تین بڑی قوموں کے علاوہ بابیوں اور بہائیوں کا قبلہ بھی فلسطین میں ’’عکہ‘‘ نامی شہر ہے، جہاں مرزا بہاء اللہ شیرازی کی قبر ہے اور بتایا جاتا ہے کہ فلسطین کے موجودہ صدر جناب محمود عباس اسی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح فلسطین اور خاص طور پر بیت المقدس مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی مستقل کشمکش اور تنازع کو جولانگاہ ہے اور اس کے پیچھے دو ہزار سال کی تاریخ کا پس منظر موجود ہے، جس میں ان تینوں کے درمیان بڑی بڑی جنگیں اور خوفناک تصادم شامل ہیں۔
چوتھی گزارش ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیت المقدس، فلسطین اور شام اسلامی دائرے میں شامل ہوئے اور ہم نے جہاد کے ذریعے عیسائیوں سے یہ علاقے حاصل کیے تھے۔ اس کے بعد کم و بیش تیرہ سو سال تک بیت المقدس کے قبضے کی جنگ انہیں دو قوموں کے درمیان رہی اور صلیبی جنگوں کے کئی دور ہوئے، جبکہ یہودیوں کا اس میں براہ راست کوئی کردار نہیں تھا۔ یہودیوں کو جب حضرت عمرؓ نے خیبر سے جلاوطن کیا، اس کے بعد بیسویں صدی عیسوی کے آغاز تک یہودیوں اور مسلمانوں کی کوئی باہمی جنگ تاریخ کے صفحات میں مذکور نہیں ہے، بلکہ اس دوران یہودیوں اور عیسائیوں کا تصادم چلتا رہا، جس میں عیسائی یہودیوں کو قتل کرتے تھے اور جلاوطن کرتے تھے، جبکہ مسلمانوں کی اندلس اور ترکی کی حکومتیں یہودیوں کو پناہ دیا کرتی تھیں۔ دوسری طرف مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان صلیبی جنگوں کا ایک طویل دور ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے موقع پر یہودیوں نے عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی سے فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت مانگی، انہوں نے انکار کیا تو یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں سے صلح کرلی اور برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے ان کے ساتھ معاہدہ کر کے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور جنگ عظیم اول کے بعد فلسطین پر قبضہ کرکے برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں آکر بسنے کا موقع فراہم کیا اور اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کرائی۔ اس دوران دیگر عرب ممالک کے ساتھ ساتھ شام بھی اس محاذ آرائی کا حصہ تھا، جس کا مقصد خلافت عثمانیہ کو ختم کرکے عالم اسلام اور عرب دنیا کو الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم کرنا تھا، جس میں انہیں کامیابی ہوئی اور خلافت کا وجود ختم ہوگیا اور صرف شام کا علاقہ پانچ مستقل ملکوں میں تقسیم کردیا گیا۔
یہ ایک صدی قبل کی بات ہے، لیکن اب امریکا اور اسرائیل دونوں مل کر اس خطے کو ایک نئی تقسیم سے دوچار کرنا چاہتے ہیں جس کا مقصد خلافت کے دوبارہ قیام کے امکانات کو روکنا ہے۔ سو سال پہلے کی جنگ خلافت کو ختم کرنے کے لیے تھی اور موجودہ جنگ کا اصل ہدف خلافت کی بحالی کو روکنا ہے، جس کی ایک جھلک سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے اس اعلان میں دکھائی دیتی ہے کہ ہم دنیا کے کسی خطے میں نہ خلافت قائم ہونے دیں گے اور نہ ہی شریعت نافذ ہونے دیں گے۔
خلافت کا قیام اور شریعت کا نفاذ تو نوشتۂ دیوار ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مہدی کے ظہور پر مکمل ہوگی، یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اسی کو روکنے کے لیے یہ ساری قوتیں زور لگا رہی ہیں، لیکن توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے گروہوں کی جذباتیت اور غلط طریق کار بھی ان کا معاون بنا ہوا ہے اور خلافت و شریعت کے عنوان سے ہونے والا بہت سا کام انہیں استعماری قوتوں کی تقویت کا باعث بن گیا ہے۔ اس صورتحال کو سمجھنے اور صحیح راستہ اور طریق کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جس کی طرف امت کے سنجیدہ علماء کرام کو توجہ دینی چاہیے۔