- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

صبر وشجاعت کی ضرورت

آج کے حالات میں جب کہ دشمنان اسلام ہر طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کرنے کی ہمہ تن کوششیں کر رہے ہیں، ضروری ہے کہ ہر مومن صبر وشجاعت سے کام لے، کیوں کہ الله تعالیٰ پر ایمان ویقین رکھنے والا شخص ابتلا وآزمائش، مشکل ومصائب پر صبر کرتا ہے، پیش آمدہ پریشانیوں پر نہشکوہ کرتا ہے اور نہ گلہ، اس لیے وہ اپنے پروردگار کے نزدیک صبر کرنے والا اور صابرین کی صف میں شامل ہو جاتا ہے۔

صبر جمیل یہ صبر کی اعلی اور عمدہ قسم ہے، رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بھی الله تعالی نے صبر جمیل کا حکم دیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم الہٰی کے مطابق صبرجمیل کیا ،برضا ورغبت الله تعالی کے مطیع وفرماں بردار رہے، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے انبیاء ورسل نے بھی صبر کیا ہے، حضرت یوسف علیہ السلام کو جب ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تو اس عظیم حادثہ پر حضرت یعقوب علیہ السلام نے صبر کیا، قرآن مجید میں الله تعالیٰ تعالی کا ارشاد ہے:﴿قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ﴾․ (سورہ یوسف:18)
ترجمہ:” یعقوب نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ یہ بات تم نے اپنے دل ہی سے بنالی ہے تو صبر ہی بہتر ہے۔“

نیز جب حضرت یعقوب علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام کے علاوہ اپنے دوسرے بیٹے بنیامین کی علیحدگی کا غم لاحق ہوا تو اس موقع پر بھی فرمایا:﴿قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ عَسَی اللَّہُ أَن یَأْتِیَنِی بِہِمْ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ﴾․(سورہ یوسف:83)
ترجمہ:” یہ تو نہیں، بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنائی ہے، اب صبر ہی بہتر ہے قریب ہے کہ الله تعالیٰ ان سب کو میرے پاس پہنچا دے، وہی علم و حکمت والا ہے۔“

قرآن مجید کے مختلف مقامات پر متنوع تناظر میں تقریباً 104 مرتبہ صبر کا لفظ وارد ہوا ہے، اگر غور کریں گے تو معلوم ہو گا کہ دین اسلام صبر اور شکر کا نام ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله نے صبر کو تین قسموں میں منقسم کیا ہے، الله کی اطاعت پر صبر کرنا، الله کے نواہی کو ترک کرکے صبر کرنا، ان مصائب پر صبر کرنا جن سے خلاصی بندہ کے اختیار میں نہیں ہے۔

مصیبت اور خطرہ کے وقت انسان کا گھبرانا، صبر کرنا اور ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرنے کا نام ہی دراصل شجاعت ہے، صبر شجاعت ہی کی ایک قسم ہے، اس لیے کہ انسان کسی مصیبت میں گھر کر بھی حواس باختہ نہ ہو، بلکہ اسے پوری قوت کے ساتھ برداشت کرے تو یہ بھی اس کی بہادری اور شجاعت ہے، آدمی کے اندر جتنا زیادہ الله کا خوف او راس کی ذات پر یقین ہو گا، اسی قدر اس کے اندر صبر واستقلال کا مادہ ہو گا، اس لیے شجاعت بھی مردمومن کی صفت صبر کی طرح ایک اہم صفت ہے۔

شجاعت کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی ہر وقت تلوار لے کر کھڑا رہے اور بغیر سمجھے بوجھے اپنی بہادری جتانے لگے اور کسی خطرہ سے خائف نہ ہو، آدمی کی فطرت ہے کہ کوئی ڈر کا موقع ہوتا ہے تو اس کو ڈر لگتا ہے، کوئی خطرہ سامنے آتا ہے تو اس کا اثر طبیعت پر ضرور ہوتا ، ایسا ہونا شجاعت کے خلاف نہیں، شجاعت یہ ہے کہ خطرہ کو خطرہ سمجھتے ہوئے اس کو جھیل جانا، تکلیف کو تکلیف سمجھ کر اس پر صبر کرنا، کسی نقصان پر یا کسی حادثے کی شدت کو خاموشی سے برداشت کر لینا، کوئی کتنا ہی زبردست دشمن اور مخالف سامنے پڑ جائے، لیکن اس کے مقابلے سے نہ گھبرانا او رجم کر اس کو شکست دینے کی تدبیر کرنا اور اس کے وار کو مردانگی اور بہادر کے ساتھ روک دینا، اسی کا نام شجاعت ہے، خدا چاہتا ہے کہ ایک مسلمان کے اندر بہادری کی یہ صفت زیادہ ہو، تاکہ وہ ایک طرف خدا کی راہ میں پیش آنے والے ہر خطرے کو برداشت کر سکے اور دوسری طرف دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے جن جن مشکلات سے اسے دو چار ہونا پڑے، وہ ان کے مقابلے سے ہراساں نہ ہو، اس طرح ان مشکلات کے ہجوم سے نکل آئے کہ دوسرے لوگ اس کے طرز عمل کو اپنے لیے نمونہ بنالیں، دراصل شجاعت جو اسلام ایک مسلمان کے اندر پیدا کرتا ہے وہ حق بات پر قائم رہنا ہے، جو چیز حق اور صحیح ہو اس کو ماننا اور اس کا اظہار کرنا، خواہ لوگ اس کے کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں اور زمانہ کی رفتار سے مختلف ہی ہو، لیکن ایسے سخت اور نازک ماحول میں اعلان حق کی جرأت ہی شجاعت کہلاتی ہے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بلند جہاد اس شخص کا ہے جس نے ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہا۔ چناں چہ صحابہ کرام اور بزرگان دین کی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے کہ انہوں نے کبھی حق بات کہنے میں کسی مصلحت کا خیال نہیں کیا، کسی حکومت کی پروا نہیں کی، ہر موقع پر حق کا اظہار کیا اور بے خوفی کے ساتھ ڈٹے رہے، ان پر کتنے ہی مصائب آئے، مگر انہوں نے ان کا بڑی حکمت اور ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کیا اور صبر وشجاعت کے ذریعہ ان کو فتح نصیب ہوئی او ران کے دشمنوں کی ذلت ورسوائی ہوئی، آج بھی ہمیں صحابہ کرام کے ان ہی اوصاف سے متصف ہونے کی ضرورت ہے۔