- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

انتہاء پسندی کی روک تھام

حضرت مولانا امداد اللہ صاحب دامت برکاتہم (ناظم تعلیمات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور رکن اسلامی نظریاتی کونسل ) نے یہ مقالہ مؤرخہ ۷؍ دسمبر ۲۰۱۷ء کو اوقاف ، مذہبی امور اور زکوٰۃ و عشر ڈِپارٹمنٹ (حکومتِ سندھ) کی جانب سے منعقدہ’’صوبائی سیرت النبیؐ کانفرنس‘‘ میں پیش کیا۔ موضوع کی اہمیت اور حساسیت کے پیشِ نظر افادۂ قارئین کے لیے بطور ’’بصائر وعبر‘‘ پیشِ خدمت ہے۔ (ادارہ)
معزز مہمانانِ گرامی اور محترم حاضرین ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
انتہاء پسندی کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں اپنی اُمت کو کیا تعلیمات ارشاد فرمائی ہیں؟ اس پر کچھ عرض کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انتہاء پسندی کی تعریف اور اس کی حدودِ اربعہ پر کچھ بات کی جائے۔
انتہاء پسند (جسے انگریزی میں ’’Extremist ‘‘کہتے ہیں) لغت میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کام یا چیز کی انتہاء چاہتا ہو، یہ اعتدال پسند ’’Moderate‘‘ کی ضد ہے، لفظ کے ظاہر سے اس کا مفہوم و معنی بہت وسیع ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ لفظ صرف مذہب کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے، حالاں کہ اس لفظ کے دامن میں مذہب ، سیاست، معاشرت، اخلاق، عقائد و اعتقادات اور کئی دیگر شعبے بھی آسکتے ہیں۔
ہمیں ان اسباب اور وجوہات پرغور کرنا چاہیے جو انتہاء پسندی کا باعث بنتی ہیں، کوئی بھی انسانی اور اسلامی معاشرہ ایک خاندان کی طرح ہوتا ہے، جس کے افراد ایک دوسرے سے باہمی تعاون، تحمل وبرداشت اور بھائی چارے کی بنیاد پر منسلک ہوتے ہیں۔ جب کسی معاشرے میں طبقاتی تقسیم شروع ہوجائے، معاشی عدم مساوات عام ہوجائے اور ذاتی مفادات کی خاطر ملی وقومی مفادات کو پامال کیا جانے لگے تو نتیجتاًانتہاء پسندی کی وبا پھیلتی ہے۔ آج دنیا میں انتہاء پسندی کا لفظ زبان زد عام وخاص ہوچکا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو طاقتیں اس انتہاء پسندی کے حوالے سے زیادہ غیرمعمولی حساسیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں، انہی طاقتوں کی غیرمساویانہ بلکہ میں صاف کہوں گا کہ انتہاء پسندانہ پالیسیوں نے دنیا کو تباہی کے دَہانے تک لا کھڑا کیا ہے۔ آج چوں کہ ’’میڈیا وار ‘‘ اور ’’ڈپلومیسی‘‘ کا دور دورہ ہے، اب میدانوں سے زیادہ دیگر محاذوں پرجنگیں لڑی جارہی ہیں، اس لیے اسلام دشمن قوتیں اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا سہارا لے کر سارا ملبا مظلوم مسلمانوں پر ڈال دیتی ہیں۔
حالاں کہ یہ حقیقت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اور نظام کا مقصد پوری انسانیت کی فلاح اور ترقی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرے کو ایک ایسی عمارت سے تشبیہ دی ہے جس کا ہر حصہ باقی اجزاء کو سہارا دیتا ہے اور مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا ہے، جس کا ہر عضو دوسرے اعضاء کی تکلیف کو محسوس کرتا اور اُسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔
چوں کہ فرقہ بندی، علاقائیت، قومیت ، صوبائیت اور لسانیت کی سوچ سے ایک اسلامی معاشرے کو بے حد نقصان پہنچتا ہے، اور اغیار کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے باہمی اختلافات پیدا کرکے مسلمانوں میں انتشار پھیلائیں۔ تعلیماتِ نبویہ((علی صاحبہا الصلوۃ والسلام)) نے ان سارے راستوں کو بند کردیا ہے جن سے انتہاء پسندانہ سوچ جنم لیتی ہے۔ حکمرانوں کی اطاعت اورمسلمانوں کی جماعت کے ساتھ جڑے رہنے کے سلسلے میں ارشاداتِ نبویہ((علی صاحبہا الصلوۃ والسلام)) مشعلِ راہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعصب پسندی کی حوصلہ شکنی فرمائی، مسلمانوں اور مسلمانوں کے ملکوں میں رہنے والی اقلیتوں کے قتل و قتال میں ملوث لوگوں کے لیے انتہائی سخت الفاظ بیان فرمائے، چنانچہ ارشادِ نبوی ہے:
’’عن أبی قیس بن ریاح عن أبی ہریرۃؓ عن النبی – صلی اللّٰہ علیہ وسلم – أنہٗ قال: من خرج من الطاعۃ وفارق الجماعۃ فمات ، مات میتۃً جاہلیۃً ، ومن قاتل تحت رأیۃ عمیۃ یغضب لعصبیۃ أو یدعو إلٰی عصبیۃ أو ینصر عصبیۃ ، فقتل فقتلۃ جاہلیۃ ومن خرج علٰی أمتی یضرب برہا وفاجرہا ولا یتحاش من مؤمنہا ولا یفی لذی عہد عہدہٗ فلیس منی ولست منہ ۔ ‘‘
(صحیح مسلم ، کتاب الإمارۃ، باب الأمر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن ، ج:۶ ، ص: ۲۰، ط:دار الجیل)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جو شخص حکمرانِ وقت کی اطاعت سے باہر نکل آئے اور مسلمانوں کی جماعت سے علیحدہ ہو اور اسی حالت میں اُسے موت آئے تو یہ شخص جاہلیت کی موت مرا۔ جوشخص عصبیت کی خاطر اندھا دھند کسی کے جھنڈے تلے لڑے، عصبیت کی طرف بلائے یا عصبیت کے لیے معاون بنے اوراس دوران وہ قتل ہوجائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ جو شخص میری اُمت کے خلاف برسرِپیکار نکلے، نیک و بد کی تمیز کیے بغیر ہر شخص کو قتل کرتا پھرے ، کسی مؤمن سے اپنی تلوار کو نہ بچائے اور نہ ہی کسی ذمی کے عہد کو پورا کرے تو نہ اُس کا مجھ سے کوئی تعلق اور نہ میرا اُس سے کوئی تعلق ہے۔ ‘‘
اسلام کی اعتدال پسندی یہ ہے کہ وہ اپنی جان ومال، دین ووطن کے دفاع اور تحفظ کے لیے سینہ سپر رہنے کی تلقین بھی کرتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی فرد یا قوم سے کسی دوسرے فرد یا قوم کو بلاقصور کوئی تکلیف نہ پہنچے، اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری آسمانی دین کو جن بے شمار خصوصیات اور امتیازات سے نوازا اُن میں ایک وصف ِ خاص اور ایک طرّۂ امتیاز یہ ہے کہ اس کا ہر حکم معتدل اور متوسط ہے اور اِفراط وتفریط سے پاک ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
’’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا ۔ ‘‘ ( البقرۃ : ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تم کو متوسط اور معتدل اُمت بنایا ہے۔ ‘‘
وسط اور اعتدال دونوں کا مفہوم تقریباً ایک ہی ہے۔ لغت کی تصریحات کے مطابق اعتدال اور توسط کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ کسی چیز کے دو متضاداور بالمقابل پہلوؤں کے درمیان کا حصہ اس طرح اختیار کیا جائے کہ ان دونوں پہلوؤں میں سے ہر ایک دوسرے پر غالب نہ آئے اور کسی بھی مرحلے میں افراط یا تفریط کا احساس نہ ہو۔ اسلام کا یہ وصفِ اعتدال ہمیں تمام تعلیمات میں نظر آتا ہے، خواہ وہ تعلیمات عملی ہوں یا اعتقادی، خواہ اُن کا تعلق عبادات سے ہو یا معاشرت سے، ہر معاملے میں اسلام یہی کہتا ہے کہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو۔
گزشتہ اُمتیں عقائد کے باب میں ہمیں دو انتہاؤں پر نظر آتی ہیں: بعض اُمتوں نے اپنے نبی کے بالکل واضح اور روشن معجزات دیکھنے کے باوجود اُن کا انکار کیا ، دوسری طرف کچھ اُمتیں وہ تھیں جنہوں نے اپنے پیغمبر کو اللہ کا بیٹا بنادیا۔ اُمتِ مسلمہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ صرف کامل ایمان لاتی ہے ، بلکہ اُن کے لیے اپنی جان، مال ، عزت و آبرو لٹانے پر تیار ہے، لیکن دوسری طرف اللہ کو اللہ اور اپنے رسول کو رسول مانتی ہے۔
عمل کے باب میں تمام اُمتوں کے احوال پر نظر ڈالی جائے توصرف اُمتِ محمدیہ((علی صاحبہا الصلوۃ والسلام)) ہی جادۂ اعتدال پر کھڑ ی نظر آتی ہے۔ باقی اُمتوں کا حال یہ ہے کہ ایک طرف تو ان اُمتوں کے کچھ لوگ آسمانی شریعت کے خلاف صف آراء نظر آتے ہیں ، یہاں تک کہ انجیل اور تورات جیسی آسمانی کتابوں کے احکام میں بھی وہ چند سکوں کے عوض تبدیلی کرنے سے گریز نہیں کرتے، دوسری طرف کچھ لوگ ایسے نظر آتے ہیں جن کی نظر میں شریعت کی اتباع اور ترکِ دنیا دونوں لازم وملزوم ہیں۔
اسلام عبادت کی تلقین تو کرتا ہے، لیکن نہ اس قدر کہ آدمی عبادت کی خاطر سب کچھ چھوڑ بیٹھے، اس سلسلے میں وہ مشہور واقعہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باہم طے کیا، ایک نے کہا کہ: میں دن میں مسلسل روزے رکھوں گا۔ دوسرے نے کہا کہ : میں رات کو لگاتار نمازیں پڑھوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ: میں نکاح نہیں کروں گا۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : میں روزے بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، میں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتاہوں اور میں نے نکاح بھی کیے اور میں تم میں سے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں، اس ارشاد مبارک کا منشأ یہی ہے کہ اسلام کو ہر معاملے میں اعتدال مطلوب ہے، آپ روزہ بھی رکھیں اور افطار کرکے اپنے جسم کو پاکیزہ وحلال غذاؤں سے لطف اندوز ہو نے کا موقع بھی فراہم کریں، آپ نمازیں بھی پڑھیں، لیکن نیند کے ذریعے اپنے بدن کو آرام بھی دیں:
’’حدثنا سعید بن أبی مریم ، أخبرنا محمد بن جعفر ، أخبرنا حمید بن أبی حمید الطویل أنہ سمع أنس بن مالک – رضی اللّٰہ عنہ – یقول: جاء ثلاثۃ رہط إلٰی بیوت أزواج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسألون عن عبادۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما أخبروا کأنہم تقالوہا، فقالوا: وأین نحن من النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قد غفر لہٗ ماتقدم من ذنبہٖ وما تأخر۔ قال أحدہم: أما أنا فإنی أصلی اللیل أبدا وقال آخر: أنا أصوم الدہر ، ولا أفطر وقال آخر: أنا أعتزل النساء ، فلا أتزوج أبدا ، فجاء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال : أنتم الذین قلتم کذا وکذا ؟ أما واللّٰہ ! إنی لأخشاکم للّٰہ وأتقاکم لہٗ ، لکنی أصوم وأفطر وأصلی وأرقد وأتزوج النساء ، فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح ، ج:۷ ، ص:۲، ط: دار الشعب)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی بابت استفسار کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے پاس تشریف لائے، جب اُنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق بتلایا گیا تو انہوں نے اسے کم سمجھتے ہوئے کہا کہ: کہاں ہم اور کہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ؟! ان کے تو اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہوچکے ہیں، ان میں سے ایک نے کہا کہ: میں پوری زندگی ساری رات نماز پڑھتا رہوں گا۔ دوسرے نے کہا کہ: میں ساری عمر روزہ رکھوں گا۔ تیسرا بولا کہ: میں عورتوں سے دور رہوں گا، کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ :تم لوگوں نے یہ یہ باتیں کہی ہیں؟! بخدا! میں تم لوگوں سے زیادہ خدا کا خوف اور تقویٰ رکھتا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں، راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور نیند بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، (یہ میرا طریقہ ہے) جو شخص میری سنت اور طریقے سے منہ موڑے گا، اس کا مجھ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ‘‘
معاشرتی اعتدال کا نمونہ دیکھنا ہو تو اقلیتوں کے تحفظ کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو دیکھ لیا جائے کہ اسلام اُنہیں کیا حقوق فراہم کرتا ہے:
’’حدثنا سلیمان بن داود المہری ، أخبرنا ابن وہب ، حدثنی أبو صخر المدینی ، أن صفوان بن سلیم ، أخبرہٗ عن عدۃ من أبناء أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، عن آبائہم دنیۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : ألا من ظلم معاہدا ، أو انتقصہٗ ، أو کلفہٗ فوق طاقتہٖ ، أو أخذ منہ شیئًا بغیر طیب نفس ، فأنا حجیجہٗ یوم القیامۃ۔ ‘‘ (سنن أبی داود ، کتاب الجہاد ، ج:۳ ، ص:۱۷۰، ط: دار الفکر)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خوب سن لو ! جو شخص مسلمانوں کے ملک میں رہنے والے کسی معاہد اور ذمی پر ظلم کرے ، اس کی توہین کرے ، اسے اس کی وسعت اور طاقت سے زیادہ کا مکلف بنائے یا اس سے کوئی چیز اس کی رضامندی کے بغیر لے گا تو میں قیامت کے دن اس غیر مسلم کے ساتھ ہوکر اس مسلمان سے حق کا مطالبہ کروں گا۔ ‘‘
جنگ کے جذباتی ماحول میں، جہاں ایک دوسرے کے خلاف انتہائی قدم اُٹھانے سے کوئی دریغ نہیں کرتا، وہاں بھی اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اعتدال کی راہ دکھائی ہے، چنانچہ مجاہدینِ اسلام کے لیے جنگ کے آداب وضع کیے گئے، حکم دیا گیا کہ کسی بوڑھے ، عورت اور بچے کو قتل نہ کرو، انسانیت کی توقیر و احترام کا درس دیا گیا کہ قتل ہونے کے بعد اپنے جانی دشمن کے اعضاء نہ کاٹو:
’’عن خالد بن الفزر ، حدثنی أنس بن مالک ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال : انطلقوا باسم اللّٰہ وباللّٰہ وعلی ملۃ رسول اللّٰہ ، ولا تقتلوا شیخًا فانیًا ولا طفلا ولا صغیراً ولا امرأۃً ، ولا تغلوا ، وضموا غنائمکم ، وأصلحوا وأحسنوا إن اللّٰہ یحب المحسنین۔ ‘‘ (سنن أبی داود ، کتاب الجہاد ، ج:۳ ، ص:۳۷، ط: دار الفکر)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدینِ اسلام کو احکام دیتے ہوئے فرمایا کہ: اللہ کا نام لے کر اللہ پر بھروسہ کرکے اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے جاؤ، بوڑھے ضعیف شخص، بچے اور عورت کو قتل مت کرنا، مالِ غنیمت میں خیانت نہ کرنا، (بلکہ) مالِ غنیمت کو اِکھٹے رکھنا، اصلاح کرنا اور نیک کام کرنا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کو پسند کرتے ہیں۔ ‘‘
’’ثم أمر النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم بلالا أن یدفع إلیہ اللوائَ فحمد اللّٰہَ و صلی علی النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم ، ثم قال : خذ ابن عوف فاغزوا جمیعا فی سبیل اللّٰہ ، فقاتلوا من کفر باللّٰہ، لا تغلوا و لا تغدروا و لا تمثلوا و لا تقتلوا ولیدا، فہذا عہد اللّٰہ و سیرۃ نبیہٖ صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ ‘‘ (المستدرک علی الصحیحین ، ج:۴، ص:۵۸۲، ط: دار الکتب العلمیۃ)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو ایک لشکر پر بھیجتے وقت ) حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اُنہیں جھنڈا دے دو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ : یہ جھنڈا لو اور سب اللہ تعالیٰ کے راستے میں جاکر اللہ تعالیٰ کا انکار کرنے والوں سے لڑو، مالِ غنیمت میں خیانت مت کرنا، دھوکہ مت دینا، کسی مقتول کامثلہ نہیں کرنا (ناک کان مت کاٹنا)، کسی بچے کو قتل نہیں کرنا، یہی اللہ کا عہد اور اُس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور طریقہ ہے۔ ‘‘
فتنہ وفساد اور قتل ناحق کے بارے میں اسلام سے زیادہ کسی مذہب نے اس کی مذمت نہیں کی۔ اسلام سراپا امن والامذہب ہے ، اسلام ہر طرف امن وسلامتی دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام سے زیادہ افہام وتفہیم کا قائل کوئی دوسرا مذہب نہیں ہے۔ اسلام میں نہ جبر واکراہ ہے، نہ ظلم وزیادتی ہے، نہ حق تلفی اور ناانصافی ہے، بلکہ ہر معاملے میں اس کا رویہّ مصالحت آمیز اور روادارانہ ہے ۔
انتہاء پسندی کی روک تھام کے لیے ریاست پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ :
۱:-ریاست ایسا ماحول فراہم کرے کہ مسلمان باہم اُخوت وبھائی چارہ کو فروغ دیں، اور آپس کے ٹکراؤ اور اختلاف وانتشار کے تمام اسباب سے دور رہیں۔
۲:- سادگی کو فروغ دیں ، اس لیے کہ سادگی اسلامی معاشرے ہی کی نہیں، بلکہ ہر معقول معاشرے کی ضرورت ہے۔
۳:- اسراف اور فضول خرچی سے اجتناب کریں، کیوں کہ اسراف سے صرف تکبر اور سرکشی ہی پیدا نہیں ہوتی، بلکہ اس سے معاشرے میں طبقاتی منافرت اور انتہاء پسندانہ رویہ بھی پیدا ہوتا ہے جو معاشرتی زندگی کے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔
۴:- ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایک ایسا معاشی و سماجی نظام یقینی بنایا جائے جہاں غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر نہ ہو اور رزقِ حلال کمانے کے مواقع سب کو مساوی طور پر میسر ہوں۔
۵:- ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ امن و اَمان کی صورتِ حال کو بہتر بنائے، بدامنی کی بنا پر جانوں کے عدم تحفظ کا احساس بھی انتہاء پسندانہ سوچ پیدا کرتا ہے۔
۶:- مسلم حکومتیں ‘ ریاستی اور عالمی سطح پر اسلام کے متعلق اسلام دشمنوں کا پھیلایا ہوا منفی تأثر دور کرنے کے لیے اپنے وسائل استعمال کریں اور عالمی پلیٹ فارموں پر بلاجھجھک کھل کر اسلام اور مسلمانوں کا موقف پیش کریں، اور مسلمانوں کے دامن پر لگائے گئے بے جا الزامات کا مقدمہ لڑیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
وصلٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین