- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ

اس اندوہ ناک اور غمگین خبر سے علمی دنیا بالخصوص سوگوار ہوگئی کہ متکلمِ اسلام، قادر الکلام خطیب، ممتاز سیرت نگار، ادیب وقلم کار، محدث ومفسر، مقبول مدرس، صاحبزادہ حکیم الاسلام ؒ حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ بروز پیر بوقت بارہ بجے دن ۱۳؍نومبر۲۰۱۷ء کو داغ ِ مفارقت دے گئے اور اپنی جدائی کے غم سے دنیا کو مغموم کرگئے۔
آپ کی رحلت اور انتقال علمی دنیا کا ایک عظیم خسارہ اور ایک دورکا خاتمہ ہے۔ آپ خانوادہ ٔ قاسمی کے گلِ سرسبد تھے، علو مِ قاسمیہ کے امین تھے، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کی خطابت وکمالات کے پیکر تھے، فہم وفراست، فکر وتدبر، علم وحلم، تقویٰ وطہارت، تصنیف وخطابت، بلند اخلاق وکردار، سادگی وتواضع، روایاتِ اسلاف کی پاسداری میں اونچا مقام ومرتبہ رکھتے تھے۔ ظاہری شکل وصورت میں وجیہ وپروقار، خوبصورت ونفاست پسند تھے، خاموش مزاج، لیکن بولتے تو علوم کے دریا بہاتے، حکمت کے موتی لُٹاتے، تحقیق وتدقیق کی باریکیاں پیش فرماتے اور عوام وخواص کو اپنی منفرد خطابت، بے مثال زور ِ بیان اور دل نشین اسلوب ِ کلام سے مستفید فرماتے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی ؒ کی شخصیت میں گوناگوں خوبیوں اور کمالات کو جمع فرمادیا تھا اور آپ کا تعلق اور رشتہ بھی اس خاندان سے ہے جس نے سرزمینِ ہند مین علوم کی نشر واشاعت اور دین کی بقا وتحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒکے پڑپوتے تھے، حکیم الاسلام حضرت مولانا قار ی محمد طیب صاحب ؒ کے دوسرے فرزند تھے۔
آپ نے پوری زندگی درس وتدریس، قرآن وسنت کی تعلیم وتشریح میں گزاری اورتقریر وخطابت کے ذریعہ دنیا بھر میں دین کی ترجمانی میں بسر کی۔ مختلف خوبیوں اور خصوصیتوں سے پروردگارِ عالم نے نوازاتھا۔ اس موقع پر آپ کی بہت سی خوبیوں کا تذکرہ کیے بغیر صرف دوخوبیوں: سیرت نگاری اور خطابت پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں، اس سے قبل آپ کا مختصرتعارفی خاکہ ملاحظہ فرمائیں:
آپ کی ولادت ۳؍جون ۱۹۳۸ء میں ہوئی۔ ازاول تا آخر دارالعلوم دیوبند میں تعلیم وتربیت حاصل کی، ناظرہ قرآن مجید قاری محمد کامل صاحب ؒ کے یہاں مکمل کیا، فارسی کا چار سالہ نصاب مولانا بشیر صاحب دیوبندیؒ، مولانا مشفع صاحب دیوبندی ؒ، مولانا ظہیر صاحب دیوبندی ؒ کے پاس۔ عربی درجات کے اساتذہ میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی صاحب ؒ، حضرت مولانا سید فخر الدین صاحب مرادآبادی ؒ، حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی مدظلہٗ، حضرت مولانا نعیم صاحب دیوبندی ؒ، حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب ؒ ،حضرت مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندی ؒ قابلِ ذکر ہیں۔ ۱۹۵۹ء میں دارالعلوم سے فراغت حاصل کی اور ۱۹۶۹ء میں دارالعلوم دیوبند میں تقرر ہوا اور مختلف انتظامی شعبوں سے وابستہ رہے۔ آپ بے مثال خطیب، انفرادی شان کے مدرس، بلند پایہ مصنف، سحر طراز صاحب ِ قلم وادیب، بلند فکر شاعر، کثیر المطالعہ قدیم وجدید کے پختہ عالم، گوناگوں صلاحیتوں کے حامل، خاموش طبیعت، متین، پُروقاراوربردبار، یورپی ممالک میں حکیم الاسلام ؒ کے رفیقِ سفر اور حکیمانہ خطاب کے ترجمان، اجلاسِ صدسالہ کے ناظم وروحِ رواں، دارالعلوم وقف دیوبند کے محدث، صدرالمدرسین اور ناظمِ مجلسِ تعلیمی ۔ (حیات ِ طیب، ج:۱، ص:۲۷۷)
حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار ممتاز سیرت نگاروں میں ہوتا تھا، سیرتِ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم آپ کا خاص موضوع اور محبوب مشغلہ تھا، سیرت ِ پاک لکھنے اور بولنے میں بلاشبہ آپ یگانہ روزگار تھے۔ سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی گراں قدر خدمات اور زندہ وتابندہ محنتیں موجود ہیں۔ آپ نے ’’مجموعہ سیرتِ پاک‘‘ کے عنوان سے ضخیم کتاب تیار کی، اسی طرح ’’سیرت ِ پاک‘‘ کے عنوان سے بھی ایک قیمتی کتاب تالیف فرمائی، اور سیرت ِ رسول پر نہایت مشہور کتاب ’’سیرت ِ حلبیہ‘‘ کو آپ ہی نے شستہ اور سلیس اردو میں منتقل کیا۔ آپ کے سیرت النبی ؐسے ذوق وشوق کو بیان کرتے ہوئے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ ’’سیرتِ حلبیہ‘‘ کے مقدمہ میں تحریرفرماتے ہیں:
’’حق تعالیٰ جزائے عطا فرمائے عزیز برخوردار سعادت آثار مولوی محمد اسلم سلمہٗ قاسمی فاضلِ دیوبند وناظم شعبہ نشرواشاعت وامورِ عامہ دارالعلوم دیوبند کو جنہوں نے ’’سیرت ِ حلبیہ‘‘ کے بامحاورہ اور سلیس ترجمہ کا بیڑا اُٹھایا اور عملی طورپر شروع کرکے اس کی ایک قسط بھی تیار کرلی۔ عزیز موصوف کو سیرتِ رسول سے چوں کہ پہلے ہی سے خاص لگاؤ اور طبعی مناسبت ہے، چناں چہ وہ اس سے پہلے ’’مجموعہ سیرت ِ رسول‘‘ کے نام سے اپنی ایک بلیغ اور بلند پایہ تالیف شائع کرچکے ہیں جو مقبولِ عام ہوئی اور بعض بعض تعلیم گاہوں کے نصاب میں بھی قبول کرلی گئی، اس لیے وہی احق تھے کہ ’’سیرت ِ حلبیہ‘‘ جیسی مستند اور ماخذِ کتبِ ذخیرۂ سیرت سے ہندوستان کو روشناس کرائیں، انہوں نے اپنے خداداد ملکۂ سیرت نگاری سے اس اہم سیرت کو اس خوبی سے اردو کاجامہ پہناناشروع کیا ہے کہ وہ اس کے بدن پر چست اور فِٹ نظرآتا ہے، جس میں کہیں جھول نظر نہیں آتا۔‘‘ (سیرتِ حلبیہ، ج:۱، ص:۴۰)
تقریباً چھ ضخیم جلدوں میں ’’سیرت ِ حلبیہ‘‘ آپ کے ترجمہ کے ساتھ شائع ہوئی اور مقبول بھی۔ حضرت مولانا اسلم صاحب ؒ خود اپنی ایک مقبولِ زمانہ کتاب ’’سیرتِ پاک‘‘ کے ابتدائیہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ تصور ہی مجھ جیسے بے مایہ انسان کے لیے بڑا صبر آزما تھا کہ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ پر کچھ لکھنے کا ارادہ کروں، لیکن ایک تو اپنے بزرگوں کی حوصلہ افزاء موجودگی کے بھروسہ پر اور دوسرے صرف اس آس پر کہ جس مقدس ومعظم ذات صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف میری یہ محنت منسوب ہے، اسی ذاتِ اقدس کے طفیل شاید میرے گناہوں کا کفارہ ہوجائے، بنامِ خدا میں نے ایک نئے سلسلے کی ترتیب کاآغاز کردیا۔ آج میرے لیے زبردست مقامِ مسرت ہے کہ اپنی حسب ِ استطاعت ایک طویل محنت وجانفشانی کے بعد یہ سلسلہ مکمل ہوکر کتابت وطباعت کے مراحل سے گزررہا ہے جو بچوں کے علاوہ کم تعلیم والے لوگوں کے لیے بھی ان شاء اللہ! اسی قدرمفید ثابت ہوگا۔‘‘ (سیرت ِ پاک:۸)
ان دواقتباسات سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں سیرت ِ رسول سے انہیں کس درجے شغف تھا اور وہ اس کو سہل اسلوب اور آسان انداز میں عام کرنے اور ہر طبقے کے مزاج ونفسیات کے لحاظ سے پیش کرنے کے لیے فکر مند وکوشا ں رہے۔ سیرت ِ رسول پر جہاں لکھنے میں انہیں غیر معمولی ملکہ حاصل تھا، وہیں سیرت ِ رسول پر بولنے میں کمال درجہ قدرت اور خصوصی امتیا زحاصل تھا۔ راقم الحروف جس وقت دارالعلوم حیدرآباد میں ابتدائی درجات میں زیر ِ تعلیم تھا، غالباً۲۰۰۲ء دارالعلوم حیدرآباد ہی کی جانب سے شہر حیدرآباد کے مشہور آڈیٹوریم میں ’’خطباتِ سیرت‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار خطابات کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کے لیے دو شخصیتیں بطور مقرر مدعو تھیں، جن میں ایک حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب مدظلہٗ اور دوسری شخصیت حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی ؒ کی تھی، وہیں سے آپ کی پر وقار شخصیت سے پہلا تعارف ہوا تھا اور آپ کے اندازِ بیان نے حلقۂ ارادت مندوں میں شامل کیا۔ دوسری خوبی کا ذکر اگرچہ ضمن آیا ہی گیا کہ خطابت اور تقریر میں بھی اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی کمال اور ملکہ عطاکیا تھا۔ آپ کے والد بزرگوار حکیم الاسلا م ؒ خطابت میں منفرد شان کے مالک تھے اور شہرۂ آفاق بھی، اللہ تعالیٰ نے خطابت کی وراثت آپ کے باکمال فرزندوں میں بھی منتقل فرمائی، جہاں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی مدظلہٗ نے امتیاز حاصل کیا، وہیں متکلمِ اسلام حضرت مولانا محمد اسلم صاحبؒ نے بھی اپنی انفرادیت اور عظمت کا لوہا منوایا۔ حضرت مولانا محمد نور عالم خلیل امینی صاحب مدظلہٗ لکھتے ہیں:
’’وہ اس وقت ہندوستان کے منتخب واعظین اور خطباء میں شمارکیے جاتے ہیں۔ اُنہیں عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ انگریزی سے بھی واقفیت ہے۔‘‘ (پس ِ مرگ زندہ:۱۷۴، در تذکرہ حکیم الاسلامؒ)
بارعب شخصیت کے ساتھ آواز میں دبدبہ اورکشش بھی تھی۔ سلاست اور روانی، تحقیق اور شگفتہ بیانی ہر کسی کو آپ کا گرویدہ بنادیتی تھی۔ قدیم علوم میں کامل مہارت کے ساتھ جدید فنون سے بھی آپ باخبرتھے، حالات اور تقاضوں کا ادراک کرنے اور بروقت مناسب ومفید اظہارِ خیال میں منفرد تھے۔ نئے دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے، اور رفتار ِ زمانہ کے ساتھ دعوت ِ دین کے مشن کو آگے بڑھانے کی ترغیب دینے اور طالبانِ علومِ نبوت کو اپنے بلند مقام ومنصب سے آگاہ کرنے میں آپ کی انوکھی شان تھی۔
حضرت مولانا ؒ کی علالت اور بیماری کی خبریں وقتاً فوقتاً سننے اور پڑھنے کو ملتی تھیں اور حسب ِ توفیق دعائے صحت کا اہتمام بھی کیا جاتا رہا، لیکن انتقال پُرملال کی خبر صاعقہ اثرنے ایک عظیم شخصیت سے محرومی کے احساس سے مغموم کردیا ہے، بلکہ علم سے رشتہ رکھنے والا ہر انسان اس عظیم المرتبت شخصیت کے سانحۂ ارتحال سے رنجیدہ ہے، مدتوں بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں اوریادگار نقوش صفحۂ ہستی پر ثبت کر جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہر انسان حیات ِ مستعار کی مدت پوری کرکے ایک نہ ایک دن ضرور رختِ سفر باندھ کر حیاتِ جاوداں کی طرف کوچ کرجائے گا، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا وجود بھی ہمت اور حوصلہ اور تقویت وبرکت کا باعث ہوتا تھا، چناں چہ حضرت مولانا محمد اسلم صاحب ؒ بھی ان ہی چند شخصیات میں سے تھے، جن کی موجودگی کے احساس سے ہی دل وجان کو اطمینان نصیب ہوتا تھا۔ آج جب کہ حضرت مولانا ؒ ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن آپ کی فکریں اور محنتوں کا پورا نقشہ موجود ہے، جس کو فراموش کیے بغیر کام کرتے رہنا ہی کامیابی کی کلید ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا ؒ کو غریق ِ رحمت فرمائے، آپ کی خدمات ِ جلیلہ کو قبول فرمائے، ان کو صدقہ جاریہ بنائے اور آپ کے فیض کو جاری وساری رکھے۔ آمین
دریافت کی ہے میں نے وہ منزل کہ دوستو
ڈھونڈیں گے میرے بعد بہت کارواں مجھے