- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اسلام میں عورتوں کے حقوق

اس وقت امت ِ مسلمہ جن کٹھن اور صبر آزما حالات سے گزررہی ہے وہ کسی حساس اور دردمند دل رکھنے والے شخص پر مخفی نہیں ہے،ایک طرف داخلی فتنوں اور اندرونی خلفشار نے ملت ِ اسلامیہ کو نقصان پہنچایا ہے تو دوسری طرف یہود ونصاریٰ کی طرف سے کی جانے والی مسلسل ذہنی، فکری اور ثقافتی یلغار نے اس کو مردہٴ نیم جان کردیا ہے، مغربی مفکرین ودانش وروں نے جہاں ایک طرف اپنی محدود اور کوتاہ عقل سے اسلامی تعلیمات کو ہدف تنقید بنایا ہے، تو دوسری طرف اپنی ہرزہ سرائیوں اور ریشہ دوانیوں سے اسلامی تعلیمات میں تشکیک پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب کہ اسلام کی طرف خود کو منسوب کرنے والے نام نہاد مفکرین بھی افرنگی خیالات سے مرعوب اور متأثر ہوکر مغرب کے طریقہٴ کار کی پرزور وکالت کرتے ہیں اور اسلام کے حکیمانہ ومنصفانہ نظام کو قابل ترمیم وتنسیخ قرار دیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اسلام مخالف لٹریچر کے ذریعہ ان کے دل ودماغ میں اسلام دشمنی اور دین بیزاری کا ا یسا زہر اتار دیا گیا ہے کہ ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے اور وہ زہر کو قند اور گندے پانی کو آب زلال سمجھ بیٹھے ہیں، مغرب کی طرف سے آنے والی ہر آواز ان کے لیے فردوس گوش اور سامعہ نواز ثابت ہوتی ہے اور اسلامی احکام وہدایات ان کی طبع پر بھاری اور گراں محسوس ہوتے ہیں۔مغربی تہذیب کے دلدادہ لوگ مردوزن کے مابین مساوات کے نعرہ کے ذریعہ یہ باورکراناچاہتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور اسلامی قوانین کی روسے ان کی حق تلفی ہوئی ہے۔

آئیے ! پہلے ہم اس بات کاجائزہ لیتے ہیں کہ اسلام سے پہلے دیگرمذاہب میں عورتوں کے ساتھ کیاسلوک وبرتاوٴکیاجاتاتھا، پھراسلام نے ان کومعاشرے میں کیا مقام ومرتبہ عطاکیا:

”واقعہ یہ ہے کہ اسلام کا آفتاب طلوع ہونے سے پہلے صنف ِ نازک مردوں کے ظلم وجور کا شکار تھی، ضروری اور بنیادی حقوق سے محروم تھی، جانوروں اور دیگر سازوسامان کی طرح عورتوں کو بیچا جاتا تھا، شبستانِ عیش وعشرت میں جنسی خواہش کی تسکین کا سامان سمجھا جاتا تھا، صرف یہی نہیں؛بلکہ زمانہٴ جاہلیت میں عورتیں انسان اور حیوان کے درمیان ایک مخلوق سمجھی جانے لگی تھیں، جن کا مقصد نسلِ انسانی کی ترقی اور مرد کی خدمت کرنا تھا، یہی وجہ تھی کہ لڑکیوں کی پیدائش باعث ننگ وعار تھی، پیدا ہوتے ہی ان کو زندہ درگور کردینا شرف وافتخار کا باعث سمجھا جاتا تھا، جاہلیت کی تاریخ کے اس خاص حصے سے متعلق قرآنی آیات ہی عبرت کے لیے کافی ہیں۔“

یونانی تہذیب…جس نے یورپی ممالک پر کئی صدیوں تک حکومت کی اور اس کے اصول وقوانین سے مغربی تہذیب کے علم بردار اتنے مرعوب اور متأثر ہیں کہ اسلامی تعلیمات میں اگر انھیں کچھ محاسن اور خوبیاں بھی نظر آتی ہیں تو اس کا رشتہ مسلمانوں سے کاٹ کر یونانی تہذیب سے جوڑدیتے ہیں- میں عورتوں کے ساتھ کیا سلوک برتا جاتاتھا ، اس سلسلے میں ایک مشہورغیرمسلم ڈاکٹر گستاوٴلی بان کی شہادت ملاحظہ فرمائیے:

”یونانی عموما عورتوں کو ایک کم درجہ کی مخلوق سمجھتے تھے…، اسپارٹامیں اس بد نصیب عورت کو، جس سے کسی قومی سپاہی پیدا ہونے کی امید نہ ہوتی، مار ڈالتے، جس وقت کسی عورت کے یہاں بچہ پیدا ہوچکا ہوتا تھا تو ملکی فوائد کی غرض سے اس عورت کو دوسرے شخص کی نسل لینے کے لیے اس کے خاوند سے عاریتاً لے لیتے تھے“۔(تمدن عرب :373)

ڈاکٹر گستاوٴلی بان آگے لکھتے ہیں:

”یونانی اپنے اعلیٰ سے اعلیٰ تمدن کے زمانے میں بھی بجز طائفہ کے کسی عورت کی قدرنہیں کرتے تھے“۔(تمدن عرب ص:377)

یہودیوں کی کتاب ”کتاب مقدس“ میں لکھا ہے کہ عورت موت سے زیادہ تلخ ہے۔(تمدن عرب ص:373)

عورت کی ذات کے متعلق ہندوٴوں کا خیال ہے کہ تقدیر، طوفان، موت، جہنم، زہر، زہریلے سانپ ان میں سے کوئی اس قدر خراب نہیں جتنی عورت۔(اسلام کا نظام عفت وعصمت بحوالہ ستیارتھ پرکاش باب نمبر4 ص: 152،153)

ہندوٴوں کی مذہبی کتاب ستیارتھ پرکاش میں ہے:

”عورت صغر سنی میں باپ کی مطیع ہوتی ہے، جوانی میں شوہر کی اور شوہر کے بعد اپنے بیٹوں کی اور اگر بیٹے نہ ہوں تو اپنے اقرباء کی، کیوں کہ کوئی عورت ہرگز اس لائق نہیں ہے کہ خود مختار طور پر زندگی بسر کرسکے“۔(حوالہ بالا)

عورت کے گھٹیا اور کمتر درجے کی مخلوق ہونے کا تصور کچھ اسی طرح عیسائی مذہب میں بھی پایاجاتاہے، چناں چہ ترتولیان مسیحیت کے ابتدائی دور کا امام ہے، وہ عورت کے بارے میں مسیحی تصور کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتا ہے:

”وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے، وہ شجر ممنوع کی طرف لے جانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تصویر مرد کو غارت کرنے والی ہے“۔(پردہ:79)

کرائی سوسسٹم جو ایک بڑا مسیحی امام شمار کیا جاتا ہے، عورت کے حق میں کہتا ہے:

”ایک ناگزیر برائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گر دلربائی، ایک آراستہ مصیبت ہے“۔(حوالہ بالا)

عورتوں کے متعلق مختلف ملکوں میں جو مروجہ فقرے ہیں، ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں عورتوں کی قدرومنزلت کیا ہے؟

روسی مثل ہے: ”دس عورتوں میں ایک روح ہوتی ہے“۔

اطالیون کا قول ہے: ”گھوڑا اچھا ہو یا برا، اسے مہمیز کی ضرورت ہوتی ہے، عورت اچھی ہو یا بری، اسے مار کی ضرورت ہے“۔

اسپینی زبان میں مثل ہے: ”بری عورت سے بچنا چاہیے؛ مگر اچھی صورت پر کبھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے“۔(تمدن عرب ص:373)

اسلام سے پہلے مرد اور عورت کے مابین ازدواجی رشتے کو اخلاق وسیرت کی تعمیر و ترقی اور خالق ومخلوق کے ما بین تعلق و وابستگی میں سد راہ سمجھا جاتا تھا، علامہ سید سلیمان ندوی تحریر فرماتے ہیں:

”اسلام سے پہلے جو اخلاقی مذاہب تھے ان سب میں عورت کو اور عورت ومرد کے ازدواجی تعلق کو بہت حد تک اخلاق وروح کی ترقی ومدارج کے لیے مانع تسلیم کیا گیا تھا، ہندوستان میں بودھ، جین، ویدانت، جوگ اور سادھو پن کے تمام پیرو اس نظریے کے پابند تھے، عیسائی مذہب میں تجرد اور عورت سے بے تعلقی ہی کمالِ روحانی کا ذریعہ تھا“۔

ان گھنگھورگھٹاوٴں میںآ فتابِ اسلام طلوع ہوا، اور گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سپیدہٴ صبح نمودار ہوا، اس نے ظلم وجبر کی چکی میں پسی ہوئی انسانیت کو سہارا دیا، صنف ِ نازک کو اسلام نے اپنے دامنِ حمایت کے سایہ میں لیا اور عورت کو اس کا مقام ومرتبہ عطا کیا، عورتوں کی قدرومنزلت بڑھانے کے لیے اسلام نے مندرجہ ذیل اقدامات کیے:

٭…سب سے پہلے اسلام نے پوری دنیا کو اس حقیقت سے روشناس کرایا کہ مردوعورت ایک ہی سرچشمہ کی دو موج ہیں، ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں، اس عالم رنگ وبو کی تمام تر رعنائیاں اور شادکامیاں مرد وعورت دونوں ہی کے دم خم سے ہیں،عورت کو گھٹیا اور کمتر مخلوق سمجھنا در اصل فطرت سے بغاوت ہے اور فطرت سے بغاوت ہمیشہ انسان کے لیے تباہی وبربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔

٭… اسلام کی آمد سے پہلے عرب میں لڑکیوں کی پیدائش کو موجب ننگ وعار سمجھا جاتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے کا عام رواج تھا، اسلام نے اس دستور پر بند لگایا اور لڑکیوں کی پیدائش کو رحمت وبرکت کا باعث قرار دیا، اور اس کی پرورش وتربیت کرنے والے کو جنت کی ضمانت دی۔

٭… جب لڑکی بلوغ کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کی عفت وعصمت کے تحفظ کے لیے اسلام نے لڑکی کے والدین کو مناسب جگہ اس کا رشتہ کرنے کا پابند بنایا، لیکن یہاں بھی پسند اور ناپسند کا حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار خود لڑکی کے ہاتھ میں رکھا اور نکاح کے بعد شوہر کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اس کے ساتھ محبت وخیرخواہی سے پیش آنے کی تاکید کی، بیوی کے لیے مکان، لباس، طعام اور اس کے ضروری اخراجات کی ذمہ داری شوہر کے کاندھوں پر ڈالی گئی، اگر شوہر بدخلق اور بدمزاج ہے یا بیوی کے ضروری اخراجات پورے کرنے میں سستی اور سہل انگاری سے کام لیتاہے یا بیوی کو جسمانی اذیت وتکلیف دیتا ہے تو اسلام خلع کے ذریعہ عورت کو قید نکاح سے آزاد ہونے کا اختیار دیتا ہے۔

٭… عورت اگر سن رسیدہ ہے تو اسلام اولاد کو اس کی خدمت کرنے کی تاکید کرتا ہے، ان کی جسمانی ضروریات اور مادی ضروریات کی تکمیل کا پابند بناتا ہے، صرف یہی نہیں؛ بلکہ بڑھاپے میں جب انسان کا مزاج معتدل نہیں رہتا؛ بلکہ چڑچڑاپن اور اس کی وجہ سے معمولی معمولی باتوں کو برداشت کرنے کی قوت مفقود ہوجاتی ہے، ایسے حالات میں بھی اسلام اولاد کو ان کے ناز ونخرے برداشت کرنے کاحکم دیتا ہے، ان کے سامنے بلند آواز سے گفتگو کرنے یا کسی قول وفعل سے تکلیف دینے سے منع کرتا ہے۔

٭… عورتیں جو اسلام سے پہلے میراث سے محروم رکھی جاتی تھیں، اسلام نے باضابطہ میراث میں ان کا حصہ متعین کیا اور میکے اور سسرالی رشتہ داروں سے اسے میراث دلایا، یہی وجہ ہے کہ جن بارہ لوگوں کے حقوق شریعت اسلامیہ میں صراحتابیان کیے گئے ہیں، ان میں آٹھ عورتیں ہیں۔

کیا عورتوں کے حوالے سے اسلامی نظام کا جائزہ لینے کے بعد بھی کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام نے عورتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور اس کی قدرومنزلت کو گھٹایا ہے؟! اگر کوئی حقیقت پسند – جس نے تعصب اور ہٹ دھرمی کی موٹی عینک اپنی آنکھوں پر نہ لگا رکھی ہو اور مغربی افکار وخیالات کی دبیز تہہ اس کے قلب ودماغ پر نہ جمی ہوئی ہو- اسلام کے نظام نسواں کا بنظر انصاف جائزہ لے تو وہ یہ ماننے پر مجبور ہوگا کہ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں اس کی نظیر دنیا کے دیگر مذاہب میں نہیں ملتی ہے، صرف یہی نہیں؛ بلکہ اقوام عالم میں حقوق نسواں کے حوالے سے جو شعور اور بیداری آئی ہے وہ در حقیقت اسلام ہی کی رہین منت ہے۔