- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

افغانستان میں امریکی ناکامیاں۔۔۔ چارہ گر اب خود ہی بے چارے نظر آنے لگے

سیگار امریکا کا وہ سرکاری ادارہ ہے جو افغانستان کی ری کنسٹرکشن یعنی بحالی اور ترقیاتی کاموں کے لیے بنایا گیا۔
سیگار مخفف ہے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن کا۔ اسی ادارے نے افغانستان کے موجودہ حالات کے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی ہے جو امریکا کے محکمہ دفاع، خارجہ اور کانگریس کو بھیجی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکا افغانستان میں اپنا کنٹرول کھورہا ہے، افغانستان میں طالبان کی کارروائیاں اور ان کی شدت بڑھتی جارہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا کے زیرانتظام اضلاع کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے اور طالبان کا اثر و رسوخ بڑھتا جارہا ہے۔ برطانیہ کے نشریاتی ادارے (بی بی سی) نے ’’طالبان افغانستان کے ۷۰ فیصد علاقے کے لیے خطرہ‘‘ کے عنوان سے جو رپورٹ تیار کی ہے اس میں بھی کہا گیا ہے کہ امریکا کی زیر قیادت اتحادی افواج نے جن طالبان کو شکست دینے کے لیے ۷۰ ارب ڈالر سے زائد خرچ کیے، وہ افغانستان کے ۷۰ فیصد علاقوں میں کھلے عام سرگرم ہیں۔
بی بی سی نے اپنی اس تحقیقی رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں ۲۰۱۷ء کے اواخر (۲۳ اگست تا ۲۱ نومبر) میں افغانستان کے ۳۹۹ اضلاع میں۱۲۰۰ مقامی افراد سے بات کی، تا کہ اس عرصے میں طالبان کے حملوں کی جامع تصویرکشی ہوسکے۔ اس تحقیق کے دوران لوگوں سے بالمشافہ ملاقاتیں بھی کی گئیں اور ٹیلی فون پر بھی معلومات حاصل کی گئیں، ملنے والی معلومات و دیگر ذرائع سے بھی تصدیق کرائی گئی۔ اس رپورٹ کے نتائج بتاتے ہیں کہ افغانستان جس کی آبادی تین کروڑ ہے، اس کا نصف یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد ایسے علاقوں میں مقیم ہیں جو یا طالبان کے کنٹرول میں ہیں یا وہاں طالبان کھلے عام موجود ہیں اور تواتر سے حملے کررہے ہیں۔ طالبان افغانستان کے جنوبی علاقوں میں اپنے روایتی ٹھکانوں سے نکل کر اب ملک کے مشرقی مغربی اور شمالی حصوں میں جگہ بنا چکے ہیں، جو علاقے طالبان کے قبضے میں ہیں ان میں صوبہ ہلمند، سنگین، لاسی قلعہ اور نادعلی بھی شامل ہیں جنہیں ماضی میں غیرملکی افواج نے طالبان سے شدید لڑائی کے بعد طالبان کے قبضے سے چھڑائے تھے۔
بی بی سی کی تحقیقی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان کے ۱۴ اضلاع پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے اور ۲۶۳ اضلاع میں وہ سرگرم ہیں اور کھلے عام گھومتے پھرتے ہیں۔ یہ تعداد ماضی میں طالبان کی طاقت کے بارے میں لگائے جانے والے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ طالبان کھلے عام جن علاقوں میں گھومتے ہیں وہاں سرکاری عمارتیں اکثر ان کے حملوں کا نشانہ بنتی ہیں، انفرادی حملوں کے ساتھ فوجی اڈوں پر مربوط حملے بھی آئے روز کا معمول ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ۱۲۲ اضلاع میں طالبان کی کھلے عام موجودگی کے ثبوت نہیں ملے، ان اعداد و شمار سے صاف واضح ہوتا ہے کہ افغانستان کے ۷۰ فیصد علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے اور باقاعدہ ان علاقوں پر عوام سے ٹیکس لیتے ہیں، ایسے اضلاع جہاں کھلے عام گھوم رہے ہیں وہاں بھی وہ کسانوں، مقامی تاجروں اور تجارتی قافلوں سے ٹیکس لے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق ۲۰۱۷ء میں دیکھا جائے تو نو ماہ میں افغانستان کے ساڑھے آٹھ ہزار شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ان میں سے بیشتر شدت پسندوں پر حملوں کا نشانہ بنے جبکہ کچھ افغان فوج کی امریکی مدد سے کی جانے والی جوابی کارروائیوں میں جو زمینی اور فضائی تھیں مارے گئے۔ ملک کے بیشتر اور دور دراز علاقوں میں ہونے والی کارروائیاں رپورٹ نہیں ہوتیں لیکن بڑے شہروں میں ہونے والے شہ سرخیوں میں جگہ پاتے ہیں، اب ایسے حملے زیادہ تواتر سے ہورہے ہیں۔ جنوری کے آخری دس دنوں میں کابل میں تین بڑے حملے ہوئے جن میں ۱۳۰ سے زیادہ افراد مارے گئے، گزشتہ مئی میں کابل میں ہونے والا حملہ ۲۰۰۱ء کے بعد سب سے مہلک حملہ تھا جس میں ۱۵۰ افراد ہلاک اور ۳۰۰ سے زیادہ زخمی ہوئے۔
کابل افغان حکومت کے کنٹرول میں ہے لیکن وہ بھی طالبان کی دسترس سے محفوظ نہیں۔ ۲۸ جنوری ۲۰۱۷ء کو شہر کابل کے وسط میں واقع محفوظ زون میں ایک خودکش بم حملہ ہوا جس میں کم از کم ۹۵ افراد ہلاک اور ۱۵۸ زخمی ہوئے۔ اس محفوظ زون میں سرکاری دفاتر ، یورپی یونین کا دفتر، غیرملکی سفارت خانے اور شہر کی پولیس کا صدر دفتر موجود ہیں۔ یہ حملہ دن ۱۲ بجے ہوا، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ افغان حکومت کی کابل میں علمداری کیسی ہے؟
سیگار کی رپورٹ میں سامنے آنے والی معلومات کو منظر عام پر لانے سے امریکی قیادت ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی رہی کیونکہ اس رپورٹ سے افغانستان کے اصل حالات کی تصویرکشی ہوتی ہے۔ ’’سیگار‘‘ کا کہنا ہے کہ یہ تنازع ختم ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں اور لگتا ہے کہ آنے والی افغان نسل بھی تشدد کے سائے میں ہی زندگی گزارے گی۔ اینالسٹ نیٹ ورک کی ڈائریکٹرکیٹ کلارک نے بی بی سی کی تحقیق کے متعلق کہا کہ افغانستان کی جنگ پر اتنی جامع تحقیقی کتاب خوش آیند ہے، اس میں بیان کردہ حقائق سے دھچکا لگا ہے مگر یہ غیرمتوقع نہیں ہیں، کیونکہ یہ اس تنازع کی حقیقی نقشہ بندی کرتے ہیں۔
افغان حکومت نے حسب معمول اس رپورٹ کو نظر انداز کردیا ہے۔ صدر اشرف غنی کے ترجمان شاہ حسین مرتضوی کہتے ہیں بعض اضلاع میں شاید اختیار بدلا ہے لیکن ۱۸۔۲۰۱۷ء میں طالبان کی سرگرمیاں محدود ہوئی ہیں اور زیادہ تر اضلاع میں اختیار افغان حکومت کے پاس ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جنگ کی نوعیت بدل گئی ہے اور اب طالبان کابل پر حملے کررہے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ۳۰۰۰ فوجی اہلکاروں کی تعیناتی پر اتفاق کے بعد صورت حال بگڑی، سنوری نہیں۔ ۲۰۱۷ء میں ماضی کے مقابلے میں ۳ گنا زیادہ طالبان کی طرف سے بم حملے کیے گئے اور امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکی اور اتحادی فوجی اپنے مضبوط حصار والے علاقوں سے باہر نہیں نکلتے، اس کے باوجود امریکیوں تک نہ صرف طالبان کی رسائی ہے اور وہ جب بھی کوئی کارروائی کرنا چاہیں کرلیتے ہیں۔ اگر ڈیڑھ لاکھ فوج سے امریکا طالبان کی مزاحمت کا راستا نہ روک سکا تو اب ۱۴۰۰ امریکی فوجی طالبان کا راستہ کیسے روک سکیں گے؟
امریکا جو منشیات کے خاتمے کا دعوے دارالملک ہے اور اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں بھی اس بات کا تذکرہ صدر ٹرمپ نے کیا کہ وہ اس لعنت کو روکنے کے لیے دیواریں لگوانے کے خواہاں ہیں۔ امریکا افغانستان میں اس مد میں ۸ ارب ستر کروڑ ڈالر پھونکنے کے باوجود منشیات کی لعنت کو ختم نہ کرسکا، طالبان کے دور میں افیون کی پیداوار میں نمایاں کمی ہوگئی تھی اور صرف ۱۰، ۱۵ فیصد علاقے تک افیون کی پیداوار محدود ہوگئی تھی لیکن امریکا کی علمداری میں افیون کی پیداوار میں ۷۰ فیصد اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ہی پوست کے زیر کاشت رقبے پر ۶۳ فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ جو امریکا کی ’’کامیابیوں‘‘ کی حقیقت واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ گویا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ
چارہ گروں نے اور بھی درد، دل کا بڑھادیا
اور معاملہ یہاں تک آگیا ہے کہ
چارہ گر خود ہی بے چارے نظر آنے لگے