- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

خدا خود ہے ثنا خوانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم

’’حضرت مولانا سبحان محمود صاحب رحمہ اللہ، جامعہ دارالعلوم کراچی کے شیخ الحدیث اور ناظم اعلی تھے۔ تقریباً ۳۵ سال تک اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری کا روز وفات تک درس دیتے رہے اور ۲۹؍ذوالحجہ ۱۴۱۹ھ کو رحلت فرماگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ، ریڈیو پاکستان پر بھی درس دیا کرتے تھے جو بڑے ہی شوق اور توجہ سے سنا جاتا تھا، یہ تمام دروس آپ کے صاحبزادگان کے پاس تحریری شکل میں موجود ہیں جو ان شاء اللہ یکے بعد دیگرے البلاغ میں شائع ہوں گے زیر نظر مضمون سیرت سے متعلق ہے۔ مولائے کریم ہمیں ان افادات سے کما حقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ‘‘ (اداریہ البلاغ)
الحمدللہ و کفی و سلام علی عبادہ الذین اصطفی۔۔۔ اما بعد
سورۂ نون کی ایک مختصر سی آیت میں اللہ رب العزت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا اس قدر جامع اور بلیغ انداز میں فرمائی ہے کہ اس سے زیادہ بہتر ہو نہیں سکتی۔ ارشاد ہے ’’و انک لعلیٰ خلق عظیم‘‘ ’’یعنی (اے ہمارے پیغمبر) بیشک آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں‘‘۔ اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالی نے گواہی دے دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق و عادات کے اُس بلندترین مقام پر ہیں، جہاں نہ کوئی انسان پہنچ سکتا ہے نہ فرشتہ، کسی نبی کو وہ مقام ملا ہے نہ ولی کو۔ گویا آپ کے اخلاق عالیہ کا مقام بلند اس قدر اونچا ہے کہ ذہن انسانی کی پرواز سے بھی بالاتر ہے۔ اللہ تعالی کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی عظمتوں کی شہادت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی مخلوق آپ کے دوسرے کمالات کی طرح اس کمال میں بھی آپ کی ہمسر نہیں، چونکہ اعمال و اقوال کا منبع آدمی کے اخلاق ہوتے ہیں کہ جیسے اخلاق ہوں گے ویسے ہی اعمال صادر ہوں گے اور ویسی ہی باتیں زبان سے نکلیں گی۔ اعلی اخلاق رکھنے والے کے اعمال بھی اعلی ہوتے ہیں اور گفتگو بھی شائستہ اور مہذب ہوتی ہے۔ اور جس کے اخلاق گرے ہوئے ہوں اس کے اعمال بھی گرئے ہوئے اور گفتگو بھی گھٹیا، فحش اور دلآزار ہوگی۔ اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی عظمتوں کی طرح آپ کے اعمال بھی عظیم ہوں گے اور اقوال بھی۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ہستی بہمہ وجوہ عظیم بلکہ عظیم تر ہے۔ اسی لئے بخاری شریف کی حدیث میں آیا کہ کسی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟ انہوں نے نہایت جامع اور صحیح جواب دیا کہ آپ کے اخلاق تو بعینہ قرآن کریم تھا، یعنی قرآن کریم جن اعلی اخلاق کی تعلیم دیتا ہے آپ کی ذات گرامی اسی کا اعلیٰ ترین نمونہ تھی، گویا قرآن کریم کی چلتی پھرتی تفسیر آپ کی مبارک ذات تھی۔ اور اللہ تعالی کو جو اعمال و اخلاق پسند ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پسندیدگی کے سب سے اعلی اور سب سے عظیم معیار پر تھے۔ اسی کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ خُلُق عظیم سے آداب قرآن مراد ہیں یعنی جتنے آداب کی تعلیم قرآن کریم نے دی ہے وہ سب کامل طور پر آپ کے اندر تھے۔
قرآن و حدیث میں اخلاق کے ساتھ تین قسم کے الفاظ آئے ہیں، ایک اخلاق حسنہ، جن کو حدیث شریف میں ’’حسن خلق‘‘ کہا گیا ہے، جیسا کہ مؤطا امام مالک کی روایت میں ہے کہ یمن میں اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو وہاں کا گورنر بنا کر بھیجا تو ان کو ایک نصیحت یہ بھی فرمائی: ’’یا مُعاذُ أَحسِن خُلُقَکَ للنّاس‘‘ یعنی اے معاذ لوگوں سے حسن خلق کا برتاؤ کرنا‘‘ یا ترمذی شریف کی روایت میں آیا ہے کہ ’’میزان عدل میں قیامت کے دن کوئی عمل حسن خلق سے زیادہ وزنی نہ ہوگا‘‘۔
دوسرے اخلاق کریمانہ جن کو حدیث شریف میں مکارم اخلاق فرمایا گیا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘ یعنی مجھے اللہ تعالی نے دنیا میں اس لئے بھیجا ہے کہ میں مکارم اخلاق یعنی اخلاق کریمانہ کی تکمیل کروں۔
تیسرے اخلاق عظیمہ جن کو قرآن کریم میں ’’خُلُق عَظیم‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث میں اخلاقیات کے تین مرتبے ہیں، سب سے پہلا مرتبہ اخلاقِ حسنہ کا ہے، اس سے اونچا اخلاقِ کریمانہ کا ہے اور سب سے اونچا اخلاق عظیمہ کا۔
اخلاقِ حسنہ کہتے ہیں کامل عدل و انصاف کو کہ کسی بھی مرحلہ میں راہِ اعتدال کو نہ چھوڑے۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ برائی کا معاملہ کرے تو اس کو بدلے لینے کا حق ہے لیکن اس بدلہ میں عدل کو نہ چھوڑے کہ ایک طمانچے کا بدلہ اسی جیسا ایک طمانچہ تو ٹھیک ہے اور اخلاق حسنہ سے خارج ۔ اسی طرح اگر کسی نے ایک روپیہ دوسرے کو دیا اس کے بدلہ میں اگر وہ ایک روپیہ وصول کرے تو حق بجانب ہے اور یہ اخلاق حسنہ میں سے ہے، لیکن اگر وہ ایک کی جگہ پانچ روپے کا مطالبہ کرتا ہے تو ظلم ہے اور اخلاق حسنہ سے اس کا تعلق نہیں۔ غرض اخلاق حسنہ نام ہے عدل و انصاف اور اعتدال پر قائم رہنے کا۔ اس سے اونچا مرتبہ اخلاق کریمانہ کا ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ برائی کا بدلہ نہ لیا جائے بلکہ معاف کردیا جائے۔ اس میں ایثار پر عمل کرنا ہوتا ہے جبکہ پہلی قسم کے اخلاق میں اعتدال پر، ظاہر ہے کہ اخلاق کریمانہ کا مرتبہ اخلاق حسنہ سے اونچا ہے۔ کسی کو گالی دی گئی، اس کو اگرچہ اس کا بدلہ لینے کا حق ہے، لیکن وہ یہ سوچ کر کہ میں اپنی زبان کیوں گندی کروں، باوجود بدلہ لینے کی قدرت کے معاف کردیتا ہے تو یہ اخلاق کریمانہ ہیں۔ اور سب سے اونچا مرتبہ اخلاق عظیمہ کا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ بُرائی کرنے والے کو نہ صرف معاف کیا جائے بلکہ الٹا اس کے ساتھ احسان و اکرام کا برتاؤ کیا جائے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں اخلاق کے یہ تمام مراتب کامل طور پر موجود تھے، کیونکہ جو شخص اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہوتا ہے اس میں نیچے کے تمام مراتب بھی پائے جاتے ہیں۔ جب یہ کہا جائے کہ فلاں طالب علم دسویں درجہ میں پڑھتا ہے تو لامحالہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے پانچویں جماعت بھی پڑھ لی اور آٹھویں بھی، ہر اعلیٰ کے اندر ادنی اور اوپر کے درجہ میں نیچے کے درجات موجود ہوتے ہیں۔ لہذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بلند مرتبہ پر ہیں تو نیچے کے تمام مراتب بھی آپ کی مقدس ذات میں بدرجۂ کامل موجود ہیں، آپ مصلحت و حکمت کے مطابق ان میں سے کسی ایک پر عمل فرماتے تھے، لیکن آپ کی طبع مبارک پر اخلاق عظیمہ کا غلبہ تھا جس کی شہادت قرآن کریم نے دی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں ان تینوں مراتب کا پایا جانا اور اخلاق عظیمہ کا غالب ہونا سورۂ آل عمران کی ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا: ’’فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم‘‘ (آیت ۱۵۹) یعنی نرمی اور رحم سے لبریز ہوگیا ہے، اگر آپ سخت گیر اور تندخو ہوتے تو یہ لوگ جو پروانوں کی طرح آپ کے اردگرد جمع ہیں سب بھاگ جاتے، اس نرمی کا تقاضا ہے کہ ’’فاعف عنھم‘‘ یعنی آپ کا پہلا مقام یہ ہے کہ ان میں سے کسی سے کوئی ناگوار بات سرزد ہوجائے تو آپ اس کو معاف فرمادیں اور بدلہ بالکل نہ لیں، اس کے بعد ارشاد ہے ’’واستغفر لھم‘‘ یعنی آپ کا مقام تو اس سے آگے ہے کہ برائی کرنے والے کو نہ صرف معاف فرمادیں بلکہ اس کے لئے دعائے مغفرت بھی فرمائیں اور یہ دوسرا مرتبہ ہے، پھر تیسرا مرتبہ اس طرح فرمایا کہ ’’و شاورھم فی الامر‘‘ یعنی ان سے مشورہ بھی فرمائیں یہ سب سے بلند مرتبہ ہوا کہ آپ اس کو ایسے الطاف و اکرام سے نوازیں جو آپ کے شایان شان ہے۔

سلام اس پر کہ جس نے گالیاں کھا کر دعائیں دیں

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق عظیمہ کے مطابق مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے کے بارے میں بے شمار حدیثوں میں ذکر آیا ہے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دس سال تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی اس پوری مدت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کبھی یہ نہ فرمایا کہ یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں نہیں کیا۔ اہل طائف نے جبکہ آپ ان کے پاس اسلام کی تبلیغ کے لئے تشریف لے گئے تو اس قدر ستایا کہ اوباشوں کو آپ کے پیچھے لگادیا جو آپ پر آوازیں کستے اور پتھر مارتے جا رہے تھے حتی کہ آپ زخمی ہوگئے اور خون آپ کی چپلوں میں جم گیا۔ ایسے سنگین حادثہ کے بعد ایک فرشتے نے اہل طائف کو تباہ کرنے کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کے بدلے ان کے حق میں دعائیں فرمائیں۔ یہ تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عظیمہ۔
جنگ احد میں کفار کے حملوں سے زخمی ہوئے، چہرہ انور سے خون جاری تھا، آپ خون کو صاف کرتے جاتے تھے اور ان کفار کے حق میں یہ دعا فرما رہے تھے کہ اے اللہ میری اس قوم کو معاف فرما، کیونکہ یہ مجھے جانتے نہیں۔
ایک یہودی کا آپ پر کچھ قرض تھا وہ وقت سے پہلے تقاضا کرنے آگیا، اور نہایت گستاخانہ الفاظ میں قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا، حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کے طرف لپکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا اور حکم فرمایا کہ اس کا قرض کچھ اضافہ کے ساتھ اس کو واپس کردیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ صرف معاف فرمادیا بلکہ مزید احسان یہ کیا کہ قرض سے زیادہ ادا فرمادیا۔