- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حکام قوم کی آواز سن کرمسائل کے حل کے لیے سنجیدگی دکھائیں

اہل سنت ایران کے ممتاز رہ نما شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے پانچ جنوری کے خطبہ جمعہ میں ایران کے طول و عرض میں اٹھنے والے احتجاجی مظاہروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عوام کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرانے پر زور دیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان کی آفیشل ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، حکام بڑے مسائل اور کاموں میں مصروف ہیں، لیکن علما اور خطبا عوام سے قریب تعلق کے بناپر زیادہ اور بہتر انداز میں ان کی مشکلات اور مسائل سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ اسی لیے کئی بار ہم نے تاکید سے کہا ہے لوگ ’تبدیلی‘ چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: بہت ساری پالیسیوں اور قوانین میں تبدیلی لانا ضروری ہوچکاہے۔ جو قوانین تجربے سے ناکام ثابت ہوچکے ہیں انہیں تبدیل اور اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا عبدالحمید نے عوام کی بات سننے پر زور دیتے ہوئے کہا: یہ بات بہت اہم ہے کہ لوگوں کو تسلیم کرکے ان کے مطالبات کو سناجائے۔ ایرانی قوم ہی نے 1979ءمیں انقلاب کرکے شاہ رجیم کا تختہ الٹ دیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو اسی قوم نے ’ہاں‘ کا ووٹ دیا اور سب پر احسان کیا۔ مرشد اعلی نے اس قوم کو ’محسن‘ یاد کیاہے؛ محسن کی بات سننی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: عوام ایک طرف سے آمدنی کی قلت سے نالاں ہیں، تو دوسری جانب سخت معاشی دباو ¿ میں زندگی گزاررہے ہیں۔ بے روزگاری اور غربت نے لوگوں پر جینا حرام کردیا ہے۔ حکام ان مسائل کو دیکھیں اور سخت حالات میں عوام ہی کے ساتھ رہیں۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے ملک کے مختلف علاقوں میں ’احتجاجی مظاہروں‘ اور دھرنوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: متعلقہ حکام جاری احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں پر توجہ کریں اور احتجاج کرنے والوں کی باتیں سن لیں۔ جہاں تک اسلام اور آئین نے لوگوں کو آزادی دی ہے، ان کی آزادی یقینی بناکر دباو ¿ اٹھایاجائے۔
انہوں نے مزید کہا: عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ملکی پالیسیوں اور قوانین میں تبدیلی لانا ازحد ضروری ہے تاکہ قوم کی رضامندی حاصل ہوجائے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے عوام کو پرامن رہنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا: عوام اپنی مشکلات اور مسائل کو پیش کریں، لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن بھی اپنی پالیسیوں کو جامہ عمل پہناکر اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لہذا پرامن رہ کر کوشش کریں ایسے مظاہرے پرتشدد نہ بنیں اور عوامی اثاثوں کو نقصان نہ پہنچے۔

سنی برادری چالیس سالوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے
اہل سنت ایران کے مذہبی پیشوا نے اپنے بیان کے ایک حصے میں سنی برادری کے مطالبات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: گزشتہ چالیس سالوں میں اہل سنت تمام میدانوں میں حاضر رہے ہیں، سنی برادری چالیس سالوں سے اب تک امتیازی رویوں کے خاتمے کا مطالبہ پیش کرتی چلی آرہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: یہ خوشی کی بات ہے کہ آج ایرانی قوم میں مذہبی تعصب کم ہوچکاہے اور شیعہ و سنی ایک دوسرے کو خوب جانتے ہیں۔ ہوسکتاہے سرحدی اور دوردراز علاقوں میں کچھ تعصب ہو، لیکن بڑے شہروں میں تعصبات بہت کم ہوچکے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: افسوس کی بات ہے کہ ایک چھوٹے نمازخانے کے لیے کئی خطوط لکھے گئے اور محنت کی گئی، پھر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اب بھی بعض شہروں میں اہل سنت پر دباو ¿ ہے اور ان کے نمازخانے بند کرائے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ایران میں شیعہ وسنی اکٹھے رہتے ہیں، لیکن کچھ شہروں میں جہاں اہل سنت اکثریت میں ہیں، ایک سٹی گورنر یا ضلعی گورنر یا کسی محکمے کے ڈائریکٹر سنی برادری سے متعین نہیں ہوتا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے حکام کو سنجیدگی دکھانے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا: ایرانی قوم نے تبدیلی اور تغییر ہی کی امید سے روحانی کو ووٹ دیا۔ حکومت نفاذ عدل اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے سنجیدہ بن جائے اور بعض محکموں میں ذاتی رویوں اور امتیازی پالیسیوں کی بیخ کنی کرے۔ کچھ اداروںمیں نااہل لوگ سنی مساجد کے لیے امام اور خطیب متعین کرتے ہیں۔
صدر شورائے مدارس اہل سنت سیستان بلوچستان نے کہا: بارہا شیعہ و سنی علمائے کرام کو بندہ نے نصیحت کی کہ حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھیں۔ آج کے حالات دس سال پہلے کے حالات سے مختلف ہیں۔ علمائے کرام، مفتی اور مراجع حضرات دنیا سے چالیس برس پیچھے نہ رہیں، ضرورتوں اور زمانے کے مطابق چلیں۔ بصورت دیگر عوام ہمیں چھوڑدیں گے۔
انہوں نے مزید کہا: صرف اللہ تعالی کے قوانین اور نبی کریم ﷺ کی احادیث میں تبدیلی ناممکن ہے۔ لیکن عالم، فقیہ اور مفتی و مرجع کا اجتہاد وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہوسکتاہے۔ جس طرح اہل سنت کے ممتاز فقہا اور ائمہ نے متعدد مسائل میں اپنے فتووں سے رجوع کیا ہے۔

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں صوبہ سیستان بلوچستان میں بعض اداروں کی نااہلی اور لاپرواہی پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا: صوبے میں کچھ ادارے عوام کے مسائل سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرنے کے باوجود سستی اور نااہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ایک طویل عرصے سے لوگ شناختی کاغذات کے حوالے سے ’بلاک‘ جیسے مسائل سے دست و گریباں ہیں، اس حوالے دارالحکومت سے واضح حکم کے باوجود کچھ ادارے پس و پیش کرتے ہیں۔