- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بلوچستان کے حالات

اس وقت ریاست پاکستان کے خلاف چند بلوچ جتھوں کی طرف سے پانچویں بغاوت وفاقی حکومت کی بہترین حکمت عملی اور پاک آرمی کے پیشہ وارانہ مہارت پر مبنی فوجی آپریشن کے باعث، ہر محاذ پر ہزیمت کا شکار ہوکر ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
بلوچستان میں جاری اس پانچویں بغاوت کی فنڈنگ اور سرپرستی براہِ راست اور بھرپور طریقے سے نہ صرف ہندوستان کررہا ہے بلکہ امریکا اور افغانستان بھی ان باغیوں کے سہولت کاروں میں شامل ہیں۔
اس پانچویں بغاوت سے قبل پاکستان کے خلاف ماضی میں جو ۴ بغاوتیں ہوئیں، ان کو حکومت اور فوج کی مشترکہ حکمتِ عملی سے کچل دیا گیا تھا۔ پہلی بغاوت خان آف قلات کے بھائی میرعبدالکریم نے کی تھی۔ وجہ اس کی یہ بنی کہ قیام پاکستان کے وقت بلوچستان کی سب سے بڑی ریاست قلات کے حکمران خان آف قلات میراحمد یارخان نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تو باقی ریاستوں (خاران، مکران اور لسبیلہ) کے حکمرانوں نے بھی اس فیصلے کی تاکید کی لیکن خان آف قلات کے بھائی میرعبدالکریم نے اپنے بڑے بھائی کے اس فیصلے کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا، جس کی وجہ سے مجبور ہو کر حکومتِ پاکستان کو خان آف قلات کی مدد کے لیے بلوچستان میں فوج بھیجنا پڑی۔ یہ پہلی بغاوت تھی۔ میرعبدالکریم کو افغانستان فرار ہونا پڑا۔
بلوچستان کی سرزمین پر دوسری بغاوت وَن یونٹ کے خلاف ۱۹۵۸ء میں سامنے آئی جس کی قیادت نواب نوروز خان نے کی۔ نواب نوروز خان نے مسلح جتھے تشکیل دے کر باقاعدہ پاک آرمی کے اوپر حملے کروانا شروع کردیے، مگر نوروز خان اور اس کے خاندان کے دیگر پانچ افراد کو گرفتار کر کے حیدرآباد جیل میں منتقل کردیا گیا، جہاں ان کے اوپر بغاوت کا مقدمہ چلا، جس کے نتیجے میں نواب نوروز خان کے بیٹے اور بھتیجے کو سزائے موت دی گئی جبکہ خود نواب نوروز خان کا جیل میں طبعی طور پر انتقال ہوا۔
تیسری بغاوت ۱۹۶۳ء میں ہوئی، جب پاک فوج نے بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں فوجی چھاؤنیاں قائم کرنا شروع کیں۔ یہ بغاوت ۱۹۶۹ء تک جاری رہی۔ اس بغاوت کی قیادت شیرمحمد بجرانی مری کے ہاتھ میں تھی، جس نے پاک فوج کے خلاف باقاعدہ گوریلا جنگ شروع کردی۔ ان باغی بلوچوں کا حکومت پاکستان سے مطالبہ تھا بلوچستان کے وسائل میں سے بلوچ سرداروں اور لیڈروں کو حصہ دیا جائے۔ باغیوں نے ریلوے لائن کو متعدد مرتبہ نقصان پہنچایا اور پاک فوج کے اوپر بیسیوں حملے کیے۔ یہ بغاوت ابھی جاری تھی کہ ۱۹۶۹ء میں صدر یحییٰ خان نے وَن یونٹ کے خاتمے کا اعلان کردیا، جس کے بعد باغی بلوچ رہنماؤں نے بھی مزاحمت ختم کردی۔
۷۰ء کے عام انتخابات میں بلوچ سیاسی رہنماؤں نے پہلی مرتبہ صوبائی الیکشن لڑا، جس میں نیشنل عوامی پارٹی نے اکثریتی کامیابی حاصل کی اور ۱۹۷۲ء میں پہلی بار صوبہ بلوچستان میں ایک منتخب صوبائی حکومت قائم ہوئی۔ ۱۹۷۳ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی منتخب حکومتوں کو ختم کر کے ان دو صوبوں میں گورنر راج نافذ کیا تو ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں مسلح مزاحمت کا آغاز ہوگیا۔ یہ بلوچ قبائلی رہنماؤں کی طرف سے چوتھی بغاوت تھی۔ اس بغاوت میں بلوچ رہنما خیربخش مری نے بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) کے نام سے ایک انتہاپسند جماعت بنائی جس میں مَری اور مینگل قبیلے کے ہزاروں مسلح افراد بھرتی کیے گئے۔ اس بغاوت کو بھی پاک فوج نے کچل کر رکھ دیا۔
بلوچستان میں جاری پانچویں مسلح بغاوت کا آغاز ۲۰۰۴ء میں اس وقت ہوا جب نواب اکبربگٹی اور میر بالاچ مری نے حکومت پاکستان کو ۱۵ نکات پر مشتمل اپنا ایجنڈا پیش کیا۔ ان نکات میں نمایاں نکتہ یہ تھا کہ ’’بلوچستان کے وسائل پر بلوچ رہنماؤں کا حق تسلیم کیا جائے۔‘‘ بلوچ رہنماؤں کے ان مطالبات کو رد کرتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا کہ ’’بلوچستان کے وسائل پر بلوچ سرداروں اور رہنماؤں کا نہیں بلکہ بلوچستان کے عوام کا حق ہے۔‘‘ یہ جواب سُن کر بلوچ رہنماؤں نے ایک مرتبہ پھر بغاوت کا آغاز کردیا۔ اسی دوران پاک فوج نے اس پانچویں بغاوت کو کچلنے کے لیے باغی بلوچوں کے ایک ٹھکانے پر شدید حملہ کیا، جس میں بلوچ رہنما نواب اکبرخان بگٹی جاں بحق ہوگئے۔ اس کارروائی میں پاک فوج کے ۸ افسر اور ۵۵ جوان بھی مارے گئے تھیں۔ نواب اکبر بگٹی کی جاں بحق کے بعد سے بلوچستان کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے، جس کا فائدہ انڈیا، امریکا اور افغانستان نے خوب اٹھایا۔ آج حالات یہ ہیں کہ بلوچستان بین الاقوامی سازشوں کا گڑھ بن چکا ہے۔
پاکستان کے پاس انڈیا، اسرائیل اور افغانستان کے خلاف بلوچستان میں مداخلت کے ثبوت بھی موجود ہیں، جو پاکستان مختلف عالمی فورمز پر پیش کرچکا ہے۔ ۲۰۱۰ء میں حکومت پاکستان نے پہلی مرتبہ امریکا پر بھی بلوچستان میں مداخلت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ یہ محض الزام نہیں تھا بلکہ پاکستان نے امریکی حکام کو امریکی خفیہ اداروں کی طرف سے بلوچستان میں دہشت گردوں اور باغیوں کی پشت پناہی کرنے کے ثبوت بھی فراہم کیے تھے۔
امریکا، انڈیا اور افغانستان مل کر بلوچستان کے آتش فشاں کو اندر ہی اندر دہکا رہے ہیں۔ اگر یہ لاوا پھٹ پڑا تو پھر سنبھالنا شاید کسی کے بھی بس میں نہ رہے۔ اس گریٹ گیم میں گوادر بندرگاہ اور پاک چائنا کو ریڈور کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنا سرفہرست ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی بلوچستان کے حساس معاملات کو سرِ فہرست رکھے اور ’’دوست نما دشمن‘‘ ممالک کی بلوچستان میں جاری منفی سرگرمیوں کا سخت نوٹس لے۔ مزید برآں بلوچستان کے وسائل سے پہلے صوبے کے عوام کو مستفید کیا جائے اور پھر باقی صوبوں تک یہ وسائل پہنچائے جائیں۔ وفاقی حکومت کو ناراض بلوچوں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے پہلے سے بڑھ کر ٹھوس اور مخلصانہ اقدام کرنے ہوں گے، خواہ اس کے لیے کسی بھی سطح تک کیوں نہ جانا پڑے۔ بلوچستان حکومت نے ہتھیار ڈالنے والے ناراض بلوچ بھائیوں کو جو مراعات دینے کا وعدہ کیا ہے، اس پر فوری عمل ہونا چاہیے۔ بالخصوص ان کو ملازمتیں دی جائیں یا ان کو زرعی زمینیں الاٹ کی جائیں تا کہ وہ کاشتکاری کر کے اپنی مناسب گزر بسر کرسکیں۔ بلوچستان کی واضح اکثریت محب وطن ہے۔ ان کی وفاداری کو شک کی نگاہ سے دیکھنا، جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔ حکومت پاکستان نے بلوچستان پر بھر پور توجہ نہ دی اور ناراض بلوچ بھائیوں کے احساس محرومی کو دور کرنے کی بجائے بلوچستان کے کشیدہ حالات کو جوں کا توں رہنے دیا تو پاکستان دشمن قوتوں کو پانچویں بغاوت کو فزوں تر کرنے کے لیے زیادہ جد و جہد نہیں کرنا پڑے گی۔ یہ معاملہ سطحی نوعیت کا نہیں بلکہ انتہائی فہم و فراست کا متقاضی ہے!