- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

سچائی اور امانت داری

اسلامی اخلاق میں صداقت و امانت دو ایسے جامع اوصاف ہیں جن کو اختیار کرنے سے انسانی اخلاق کی تکمیل ہوتی ہے۔
سچائی و امانت داری کی صفت سے عاری انسان ناتمام اور ادھورا شمار ہوتا ہے، سچ بولنے سے معاشرے میں عزت ملتی ہے، لوگوں کا اعتماد حاصل ہوتا ہے، سچ کی بدولت انسان راحت و اطمینان کی زندگی جیتا ہے، سچائی کو اختیار کرنے سے چہرہ پُر رونق رہتا ہے، سچ انسان کو نجات دلاتا ہے، جھوٹ ہلاک و برباد کرتا ہے، سچائی کو آدمی مضبوطی سے تھام لیتا ہے اور ہمیشہ سچ بولتا ہے تو رفتہ رفتہ مقام صدیقیت حاصل کرلیتا ہے؛ جب کہ کذب اور دروغ گوئی انسان کو تباہ و برباد کردیتی ہے، جھوٹ کی وجہ سے انسان کا اعتبار ختم ہو جاتا ہے، جھوٹا شخص لوگوں کی نظروں سے گر جاتا ہے، جھوٹ بولنے کی وجہ سے قلبی سکون و اطمینان سے انسان محروم رہتا ہے، رحمت کے فرشتے اس سے کوسوں دور رہتے ہیں اور شیطان اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور جھوٹ بولنے کی عادت پختہ ہونے کے باعث اللہ کے یہاں اس کو کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔
مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سچائی کو لازم پکڑ لو؛ کیوں کہ سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بے شک نیکی جنت میں پہنچا دیتی ہے اور آدمی ہمیشہ سچ بولتا رہتا ہے اور سچ کا قصد کرتا رہتا ہے؛ یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے، اور تم جھوٹ سے بچو، کیوں کہ جھوٹ نافرمانی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نافرمانی دوزخ میں لے جاتی ہے، اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (ترمذی، ص: ۱۸، ج: ۱)
بہر حال! جھوٹ ایک گناہ نہیں، بلکہ بہت سے گناہوں کی جڑ اور بنیاد ہے، اسی لیے اس کو ام الامراض کہا جاتا ہے۔
انسانی زندگی کا دوسرا اہم وصف امانت داری ہے جس کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے نبی کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے جامع انداز میں فرمایا کہ اس شخص کا ایمان مکمل نہیں جس میں امانت و دیانتداری کی صفت نہیں۔ (بیہقی)
عام طور سے لوگ امانت کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ کسی شخص نے کچھ پیسے یا اپنی کوئی چیز ہمارے پاس لا کر رکھ دی اور ہم نے اس کو حفاظت سے رکھ دیا، اس کو خود استعمال نہیں کیا، کوئی خیانت اس میں نہیں کی، جوں کی توں واپس کردی تو حق امانت ادا ہوگیا۔
بلاشبہ امانت کا ایک پہلو یہ بھی ہے، لیکن قرآن و حدیث میں جہاں امانت کا لفظ آیا ہے اس کے معنی اور مفہوم میں وسعت ہے، اس کے اندر بڑی کشادگی ہے بہت ساری چیزیں اس کے دائرے میں آجاتی ہیں۔
سب سے پہلی چیز جو امانت کے اندر داخل ہے وہ ہماری زندگی ہے جو ہمیں ملی ہے، اسی طرح ہمارا پورا جسم سر سے لے کر پاؤں تک امانت ہے، ہم اس کے مالک نہیں یہ آنکھیں جن سے ہم دیکھتے ہیں، یہ زبان جس سے ہم بولتے ہیں، یہ کان جن سے سماعت کا کام لیتے ہیں، یہ ناک جس سے سونگھتے ہیں، یہ ہاتھ جن کو مختلف کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہ پیر جن سے چلنے کا کام لیا جاتا ہے، یہ سب امانت ہیں جو اللہ رب العزت نے بلا کسی محنت و مشقت محض اپنے فضل سے عطا کیے ہیں، دینی و دنیوی منافع کی خاطر انہیں استعمال کرنا اور ان قوتوں سے فائدہ اُٹھانا یہ امانت ہے اور ان اعضاء کو ایسے مواقع پر استعمال کرنا جس سے اللہ کی نافرمانی لازم آئے یہ خیانت ہوگی۔
اسی طرح زندگی کے یہ لمحات جو گذر رہے ہیں ان کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالی کی امانت ہے، ان لمحات و ساعات کو ایسے کام میں صرف کرنا جو دنیا و آخرت کے لحاظ سے فائدہ مند ہو یہ امانت داری ہے، اور اللہ کی نافرمانی اور ناراض کرنے والے کاموں میں زندگی گزارنا یہ امانت میں خیانت ہوگی۔
مقصد عرض کرنے کا یہ ہے کہ امانت و دیانت کا تعلق صرف کسی چیز سے یا پیسوں سے نہیں، بلکہ امانت میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کے ساتھ کسی کا حق متعلق ہو، اور جس کی حفاظت اور مالک کی طرف ادائے گی انسان پر لازم ہو، اس بنا پر کہا جائے گا کہ عالم کے پاس علم امانت ہے، کسی مسجد و مدرسہ کے متولی و مہتمم کے پاس مسجد و مدرسہ امانت ہے، حاکم اور فرماں رواں کے پاس اقتدار امانت ہے، صاحبِ ثروت اور متمول لوگوں کے پاس دولت امانت ہے، مکتب و مدرسہ کے معلم، استاذ کے پاس شاگرد امانت ہیں، باپ کے پاس اولاد امانت ہے، بیوی کے پاس عزت و آبرو امانت ہے، ہر انسان کے پاس اس کی جان اور اس کے اعضا امانت ہیں، ہماری زندگی اور اس کا ایک ایک لمحہ امانت ہے۔
پیارے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی میں یہ دونوں صفت نمایاں طور پر تھیں، بچپن سے ہی آپ صداقت و امانت کے پیکر تھے، نبوت سے پہلے بھی پورے مکہ میں آپ ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ کے لقب سے مشہور تھے یعنی آپ ﷺ سچے تھے، آپ کی زبان پر کبھی جھوٹ نہیں آتا تھا، آپ ﷺ امانت دار تھے، جو لوگ آپ ﷺ کے پاس امانت رکھواتے تھے اُن کو پورا بھروسہ تھا کہ آپ ﷺ اس امانت کا حق ادا کریں گے، چناں چہ ہجرت کے موقع پر صورت حال یہ تھی کہ کفار نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہوئے تھے، آپ ﷺ کے خلاف قتل کے منصوبے بنا رہے تھے، اس حالت میں اللہ کے حکم سے آپ کو رات کے وقت اپنے شہر مکہ مکرمہ سے نکلنا پڑا، ایسے حساس اور نازک ماحول میں جب کہ لوگوں کی امانتیں آپ کے پاس تھیں، آپ کو یہ فکر تھی کہ میرے پاس جو لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی ہیں ان کو اگر پہنچاؤں گا تو راز کھل جائے گا کہ میں یہاں سے جار ہا ہوں، اس وقت پیارے نبی ﷺ نے ایک ایک فرد کی امانت اس کے مالک تک پہنچانے کا اس قدر اہتمام فرمایا کہ اہنا امین و معتمد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بنایا اور پابند کیا کہ وہ تمام امانتیں کو واپس کردیں، اس کے بعد ہی ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئیں۔
وہ امانتیں صرف مسلمانوں کی ہی نہیں تھی، بلکہ کافروں کی بھی تھیں، جو آپ کے خوم کے پیاسے اور آپ کے ساتھ دشمنی کا معاملہ کر رہے تھے، ان کی امانتوں کو بھی ان تک واپس پہنچانے کا آپ ﷺ نے انتظام فرمایا، امانت داری اور سچائی کے معاملہ میں یہ تھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ اور تابناک سیرت۔
آج مسلم معاشرہ کا المیہ یہ ہے کہ جھوٹ ، خیانت، مکر و فریب اور دھوکہ جیسی خبیث اور رذیل عادتوں کی قباحت و برائی ذہنوں سے نکلتی جارہی ہے اور ان چیزوں کو ہنر، عقل مندی و ہوشیاری کا نام دیا جانے لگا، ظاہر ہے کہ یہ انتہائی افسوس ناک پہلو ہے کہ معصیت اور گناہ کی برائی اور قباحت ہی دل سے نکل جائے۔
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نہ صرف مسلمان کے لیے، بلکہ ہر فردِ بشر کے لیے ایک کھلی کتاب ہے، جن قوموں اور جن خطہ کے لوگوں نے اسلامی عادات و اخلاق کو اپنایا اور ان کو عملی زندگی کا حصہ بنایا، وہ مہذب اور ترقی یافتہ کہلانے لگے اور مسلمان نے اپنے دین فطرت کی پاکیزہ تعلیمات سے روگردانی کی وہ پسماندگی اور پست حالی کا شکار ہوگئے۔
اگر واقعی ہم اسلام کے سچے نام لیوا ہیں اور ایک اچھے مہذب انسان کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بھولے اور چھوڑے ہوئے سبق کو پھر سے دوہرانا ہوگا اور اسلامی تعلیمات و ہدایات کو اختیار کرنا ہوگا، جن پر عمل کر کے یقیناًہمیں دنیا و آخرت کی فلاح و بہبودی حاصل ہوگی، اور معاشرے میں بھی قدر کی نگاہوں سے دیکھے جائیں گے۔ ان شاء اللہ