- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے میری واقفیت اور تاثرات

ناظرین نے ایثار وفیاضی کے بہت سے نمونے دیکھے ہوں گے، خود اس عاجز نے بھی دیکھے ہیں، لیکن حضرت مولانا کی ذات میں اس کا جو نمونہ دیکھا اس کی مثالیں تو پچھلی تاریخ کی کتابوں میں بھی بہت کم ہی مل سکیں گی۔

مولانا کا دولت خانہ ایک ایسا وسیع مسافر خانہ یا مہمان خانہ تھا کہ جن لوگوں کو خود کبھی مولانا کا مہمان بننے کا اتفاق نہیں ہوا وہ کسی دوسرے سے اس کا حال سن کر صحیح اندازہ نہیں کرسکتے بیسیوں دفعہ کے اپنے مشاہدے اور تجربہ کی بنا پر میرا محتاط اندازہ ہے کہ برسہا برس سے مولانا کے یہاں مہمانوں کا اوسط چالیس پچاس روزانہ سے کم نہ رہتا تھا، ان میں ایک خاصی تعداد تو ان اہل طلب کی ہوتی تھی جو حضرت سے بیعت ہونے کے لیے دور وقریب کے مختلف مقامات سے روزانہ آتے تھے، ان کے علاوہ ایک تعداد ان لوگوں کی ہوتی تھی جو صرف زیارت وملاقات کے لیے یا کسی معاملہ میں دعا کی درخواست کے لیے یا اپنی کسی ضرورت میں حضرت مولانا کی سفارش حاصل کرنے کے لیے یا ایسے ہی کسی اور کام سے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے او رایک دو دن رہ کر واپس چلے جاتے تھے، ان کے علاوہ کچھ حضرات وہ بھی ہوتے تھے جوذکر وشغل اور روحانی تربیت کے لیے کئی مہینے حضرت کی خدمت میں مقیم رہتے تھے اور میرا خیال ہے کہ مہمانوں کی ان قسموں کے علاوہ کچھ لوگ حضرت مولانا کی اس فیاضی اور مہماں نوازی سے بے جا فائدہ اٹھانے والے بھی ہوتے تھے ، میں نے واقفین سے سنا ہے کہ قرب وجوار کے دیہات کے بعض لوگ جو بازار، تھانے یا تحصیل کے اپنے کاموں سے دیوبند آتے تھے وہ بھی کھانے کے وقت حضرت کے مہمان بن جاتے تھے اور حضرت ان کی اس نوعیت سے واقف ہونے کے باوجود ان کی مہمان نوازی کرتے تھے، بلکہ خادموں تک کو سخت تاکید تھی کہ اگر کسی کے متعلق ایسا اندازہ ہو تب بھی مہمانوں ہی کی طرح اس کا اکرام کیا جائے مجھے حضرت کے ایک خادم نے خود بتایا کہ ایک دفعہ انہوں نے ایسے ایک صاحب سے کچھ کہہ دیا تو حضرت ان پر سخت غصہ ہوئے اور یہاں تک فرمایا کہ میرے یہاں آنے والے کسی بھی مہمان کا جو شخص دل دکھائے گا میں اس کو معاف نہیں کروں گا۔

بہرحال مختلف انواع واقسام کے ان مہمانوں کی تعداد کا اوسط جیسا کہ اس ناچیز نے عرض کیا چالیس پچاس روزانہ سے کم نہ تھا، اگر کبھی صرف تیس پینتیس ہوتے تو اسی طرح کبھی ساٹھ ستر تک بھی ہو جاتے تھے۔

اگر کسی مخصوص مہمان کے اکرام میں کوئی خاص اہتمام اور تکلف کیا جاتا، مثلاً پلاؤ پکتا یا ثرید تیار کیا جاتا، یا دیوبند کی مشہور فیرینی آتی تو بلا امتیاز سارے مہمان اس دن وہی کھانا کھاتے اور میرا خیال ہے کہ ہفتے میں ایک دو دفعہ ایسا ضرور ہوتا تھا۔

یہاں اس چیز کا ذکر کر دینا بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ حضرت کے یہاں کا روز مرہ کا سادہ کھانا بھی (یعنی روٹی اور آلو یا لوکی جیسی کسی ترکاری کے ساتھ بڑے گوشت کا شوربہ والا سالن) اس قدر لذیذ اور ذائقہ دار ہوتا تھا کہ میں خود بھی شہادت دے سکتا ہوں او ربہت سے مہمانوں سے بھی میں نے سُنا ہے کہ حضرت کے دسترخوان پر بیٹھ کر سوایا یا ڈیوڑھا کھانا کھایا جاتا ہے او رکبھی نقصان نہیں دیتا جو لوگ حضرت کے حالات سے کچھ باخبر ہیں اور جنہوں نے حضرت کی عجیب وغریب اور بے مثال مہمان نوازی کا تجربہ کیا ہے ان کو اس میں شک نہیں ہو سکتا روزمرہ کی اس مہمان نوازی اور اسی طرح کی بعض دوسری للّٰہی مدوں میں حضرت کے ہاتھوں سے جو کچھ دوسروں پر خرچ ہوتا تھا، خود اپنی ذات پر اور اہل وعیال پر اس کا چوتھائی بھی خرچ نہیں ہوتا ہو گا۔

کسی بندے کے ظاہری احوال واعمال سے اس کے اندرونی حال کے بارے میں جہاں تک رائے قائم کرنے کا حق ہے اس کی بنا پر پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ الله تعالیٰ نے شح اور حبّ مال سے حضرت کے قلب وروح کو ایسا صاف کر دیا تھا کہ شاید اس کے غبار کا کوئی ذرّہ بھی وہاں نہیں رہا تھا اوران شاء الله حضرت مولانا اس قرآنی بشارت کے خاص مستحقین میں ہوں گے:

﴿وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾(تغابن) ترجمہ:” اور الله نے اپنے جن بندوں کوشح اور حب مال کی بری خصلت سے بچایا وہ یقینا فلاح پانے والے ہیں۔“

ایک واقعہ اس جگہ اور بھی سن لیجیے، جس سے حضرت مولانا کی اس خصوصیت ( یعنی ایثار وفیاضی اور دوسروں کی راحت رسانی کا فکر واہتمام) کے علاوہ ایسی ہی بعض اور خصوصیات بھی آپ کو معلوم ہو ں گی۔

غالباً23ھ یا24 کی بات ہے، سوامی شردھانند کی اٹھائی ہوئی شدھی سنگھٹن کی تحریک کے مقابلے میں ”جمعیة العلماء ہند“ کا شعبہٴ تبلیغ میدان میں اُترا ہوا تھا۔ اس وقت اس کے سامنے تبلیغی وفود کے ذریعہ وقتی دفاعی کوششوں کے علاوہ اُن علاقوں میں، جو شدھی تحریک کا خاص میدان بنے ہوئے تھے، مذہبی مکاتب قائم کرنے کا ایک ٹھوس، مستقل اور وسیع کام بھی تھا، جس کے لیے بہت بڑے سرمایہ کی ضرورت تھی جمعیة العلما ہند اوراکابر دیوبند سے تعلق رکھنے والے رنگون کے صاحبِ خیر تاجروں نے اس سلسلہ میں مالی امداد کا ایک منصوبہ تیار کیا او رجمعیة العلما ہند سے اپنا ایک وفد برما بھیجنے کی درخواست کی، اس وقت برما ہندوستان کا ایک صوبہ تھا یہ وفد رنگون پہنچا، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ اور مولانا احمد سعید صاحب ( جو اس وقت جمعیة کے ناظم تھے، اس وفد کے ارکان تھے مولانا سید مرتضی حسن صاحب مرحوم بھی اس وفد کے ساتھ تھے، لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے وہ اہل رنگون ہی کی دعوت پر دارالعلوم دیوبند کے شعبہٴ تبلیغ کی طرف سے تشریف لے گئے تھے۔ (شدھی سنگھٹن کے مقابلہ میں دارالعلوم دیوبند کے شعبہٴ تبلیغ کی طرف سے بھی مستقل کام ہو رہا تھا)

بہرحال یہ تینوں حضرات رنگون پہنچےصوبہ برما کے اس وقت کے انگریزی گورنر نے یا اس کی ہدایت پر اس کے ماتحت کسی انگریز حاکم نے یہ حماقت کی کہ رنگون کے جن سورتی تاجروں نے ان حضرات کو دعوت دے کر بلایا تھا اور جو اس سلسلہ میں پیش پیش تھے، ان کو بلا کر اس نے کہا کہ آپ کے یہاں جو یہ تین عالم لوگ آئے ہیں ،ان میں ایک آدمی مولانا حسین احمد بہت خطرناک ہیں او رگورنمنٹ کے دشمن ہیں، اس لیے ان کو ہم یہاں تقریر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ان لوگوں نے کہا کہ اس وقت یہ وفد ایک بالکل دوسرے مقصد سے آیا ہے، اس لیے اس کا کوئی شبہ بھی نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی گورنمنٹ کے خلاف تقریر کرے، لیکن اس نے کہا، نہیں، ہمیں معلوم ہے کہ وہ بہت خطرناک آدمی ہیں ،اس لیے ان کو تقریر کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بالآخر ان سورتی تاجروں نے ( جو گورنمنٹ کی نگاہ میں بھی خاص وقار رکھتے تھے) اس کی ذمہ داری لی کہ کوئی تقریر گورنمنٹ کے خلاف نہیں ہوگی، تب اس نے اجازت دی۔ ان بیچاروں نے یہ ساری بات حضرت کے سامنے بھی ذکر کردی، حضرت نے فرمایا آپ نے اچھا نہیں کیا کہ مجھ سے دریافت کیے بغیر وعدہ کرآئے۔ یہ صحیح ہے کہ گورنمنٹ کے متعلق کچھ کہنے کا اس وقت میرا رادہ نہیں تھا، لیکن اب مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ میں تقریر کروں اور گورنمنٹ کے خلاف کچھ نہ کہوں، لہٰذا آپ حضرات کے لیے اب یہی بہتر ہے کہ میں تقریر نہ کروں اور واپس چلا جاؤں، لیکن رنگون کے وہ حضرات کسی طرح اس پر راضی نہ ہوئے، آخر میں انہوں نے عرض کیا کہ آج حضرت کی تقریر تو ضرورہوگی اور جو حضرت کا جی چاہے وہی فرمائیں، پھر جو کچھ ہو گا دیکھا جائے گا لیکن حضرت مولانا اس خیال سے کہ کہیں یہ بیچارے مشکلات میں مبتلا نہ ہوں، برابر انکار فرماتے رہے، آخر میں حضرت مولانا مرتضیٰ حسن صاحب نے بھی ان کی سفارش کی تو بڑی مشکل سے حضرت اس بات پر راضی ہوئے کہ آج تقریر فرمادیں گے، لیکن اس کے ساتھ یہ شرط لگا دی کہ اس کے بعدمیں کوئی تقریر نہیں کروں گا او رپہلے جہاز سے واپس چلا جاؤں گا۔ حضرت مولانا نے (انہیں کی خیر خواہی کے لیے) اس شرط پر اتنا اصرار کیا کہ ان لوگوں کو بادل ناخواستہ مان لینا پڑا وقت آنے پر جلسہ شروع ہوا، حضرت مولانا نے خطبہ مسنونہ اور چند تمہیدی الفاظ کے بعد تقریر اس طرح شروع فرمائی، کہ مجھے معلوم ہوا کہ یہاں کے گورنر صاحب نے ہمارے محترم میزبانوں سے میرے بارے میں خطرہ کا اظہار کرکے میری تقریر کو روکنا چاہا تھا اور وہ حضرات اپنی سادگی سے یہ وعدہ کر آئے کہ میں گورنمنٹ کے خلاف کچھ نہ کہوں گا، مجھے ان کے اس وعدے کا افسوس ہے، لیکن بہرحال اب مجھے ان کے وعدے کی لاج رکھنی ہے اور اگر یہ وعدہ نہ کر آتے تو میں تفصیل سے بتاتا کہ گورنمنٹ نے پوری اسلامی دنیا کو اور ہمارے ملک ہندوستان کو اور ہم ہندوستانیوں کو کتنا تباہ وبرباد کیا ہے بیان کرنے والے کا بیان ہے کہ قریباً ڈیڑھ گھنٹے تک مولانا یہی بیان فرماتے رہے کہ اگر ہمارے میزبان وعدہ نہ کر آتے تو میں یہ بتاتا اور یہ بتاتا آخر میں فرمایا کہ چوں کہ ہمارے محترم میزبانوں نے گورنر صاحب سے وعدہ کر لیا ہے کہ میں گورنمنٹ کے خلاف کچھ نہ کہوں گا، اس لیے میں مجبور ہوگیا ہوں اور میں اس سلسلہ میں کچھ نہیں کہتا پھر چند کلمات وفد کے مقصد کے متعلق بھی کہہ کر تقریر ختم فرمائی۔

حضرت مولانا اپنی شرط کے مطابق غالباً دوسرے یا تیسرے ہی دن بحری جہاز سے کلکتہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ حاجی داؤد ہاشم مرحوم نے ( جو وفد کے خاص داعی اور میزبا ن تھے) اپنے خاص ملازم محمد ذاکر صاحب کو بطور خادم کے کلکتہ تک کے لیے حضرت کے ساتھ کر دیا۔ حضرت کا ٹکٹ فرسٹ کلاس کا تھا اور ذاکر صاحب کا ٹکٹ سرونٹ کی حیثیت سے تھرڈ کا تھا۔ حضرت مولانا کی سیٹ جس کمرہ میں تھی اس میں کوئی دوسرا مسافر نہ تھا، اس لیے حضرت چاہتے تھے کہ ذاکر صاحب بھی زیادہ سے زیادہ وقت وہیں حضرت کے ساتھ رہیں، لیکن جہاز کا ”بوائے“ جب آتا تو ذاکر صاحب کے ہر وقت وہاں رہنے پر معترض ہوتا، اس لیے حضرت مولانا نے یہ کیا کہ وہ خود زیادہ وقت تھرڈ کلاس میں ذاکر صاحب کے ساتھ گزارنے لگے۔ بہرحال سفر ختم ہوا اور چوتھے دن کلکتہ کا ساحل آگیا۔ رواج کے مطابق ’بوائے“ فرسٹ کلاس کے مسافروں سے ”انعام“ یا”بخشش“ مانگنے آیا، اگرچہ راستے میں اس نے حضرت مولانا کو تکلیف دی تھی، لیکن انعام مانگنے کے لیے وہ حضرت کی خدمت میں بھی حاضر ہوا، ذاکر صاحب بھی اس وقت ساتھ تھے، انہوں نے عرض کیا کہ حضرت اس نے ہم لوگوں کو بہت تکلیف دی ہے، اسے ایک پیسہ نہ دیجیے، لیکن مولانا نے ہنس کر فرمایا کہ نہیں، ان کا حق ان کو ضرور دیا جائے گا(آگے کی بات سننے سے پہلے یہ ذہن میں رکھ لیا جائے کہ یہ قصہ اس وقت کا ہے جب کہ ایک روپیہ آج کے8-7 روپے کے برابر تھا، اس لیے جو لوگ بڑے سے بڑا انعام بھی بوائے کو دیتے تھے وہ زیادہ سے زیادہ ایک روپیہ ہوتا تھا) اس کے بعد سنیے کہ مولانا نے گن کر چار روپے نکالے اور اس کو دینے لگے، وہ سمجھا کہ یہ مجھ سے مذاق کرتے ہیں او راس طرح میری بد سلوکی کا انتقام لینا چاہتے ہیں، اس لیے اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا، حضرت نے مولانا نے فرمایا، لے لو، یہ تمہارے ہی لیے ہیں، آخر بہت جھجھک کر اس نے ہاتھ بڑھایا او رحضرت نے وہ روپے اس کو دے دیے راقم سطور عرض کرتا ہے کہ خود محمد ذاکر صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت سے عرض کیا کہ اس کم بخت نے تو حضرت کو اتنی تکلیف دی کہ خدمت کے لیے مجھے حضرت کے ساتھ بھی نہ رہنے دیا اور حضرت نے اسے اکٹھے چار روپے دے دیے، بڑے سے بڑا انگریز بھی ان لوگوں کو ایک روپیہ سے زیادہ نہیں دیتا۔ حضرت نے فرمایا، بھائی ذاکر! اصل بات یہ ہے کہ یہ بیچارہ سمجھتا تھا کہ انعام بس صاحب بہادروں سے ملتا ہے، ہماری صورتوں سے اُسے کچھ ملنے کی اُمید نہیں تھی، اس لیے اس نے ہمارے ساتھ ایسا برتاؤ کیا، اب ہمارا سفر تو ختم ہو گیا۔ میں نے یہ روپے اسے اس لیے دیے ہیں کہ اسے معلوم ہو کہ ہم جیسے لوگ انگریزوں سے زائد دے سکتے ہیں۔ اب مجھے اُمید ہے کہ ہماری ایسی صورت والے الله کے کسی بندے کو انشاء الله یہ آئندہ نہیں ستائے گا، بلکہ اس کو آرام پہنچانے کی کوشش کرے گا۔

اسی ایک واقعہ سے حضرت کی عالی ظرفی او رمزاج ایمانی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے بعض حدیثوں میں الله کے خاص مقبول بندوں کی یہ نشانی بتائی گئی ہے کہ انہیں دیکھ کر اور ان کے پاس بیٹھ کر خدا یاد آتا ہے اس یاد کے لیے جس ایمانی مناسبت اور جس توفیق کی ضرورت ہے جو لوگ اس سے محروم ہیں ان کا تو ذکر نہیں، لیکن جن کو الله نے اس خیر سے محروم نہیں کیا ہے ان میں سے جس کو بھی حضرت سے قریب ہونے اور خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا ہوگا، یقین ہے کہ اس کو اس کا تجربہ ضرور ہوا ہو گا کہ ان کے پاس بیٹھ کر یا ان کو دیکھ کر دل میں خدا کی یاد اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی تھی خوداپنے بارے میں صفائی سے عرض کرتا ہوں کہ بہت سے امور میں میری رائے حضرت سے متفق نہیں ہوتی او ررائے میں خاصا بعد ہوتا، لیکن جب خدمت میں حاضری ہوتی تو یہ یقین تازہ ہو جاتاکہ یہ الله کے خاص الخاص بندوں میں سے ہیں او رمجھ جیسوں کے لیے ان کی جوتیاں صاف کرنا اور قدموں کا غبار جھاڑنا بھی سعادت ہے۔

الله تعالیٰ اُن کی روح پر رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے اِن ایمانی اوصاف کے ورثہ سے ہم کو محروم نہ کرے۔