- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اسلامی قانون یا انسانی قانون

صدیوں سے انسان قانون سازی کے میدان میں کوشش کر رہا ہے اگرچہ کہ اس میں اس نے الٰہی قوانین سے بڑی حد تک استفادہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا مکمل قانون وضع نہیں کیا جا سکا جس کو ناقابل ترمیم قرار دیا جائے اور انسانی جذبات وافعال کا مکمل آئینہ دار اس کو کہا جاسکے۔
انسانی دنیا کی رہنمائی آج بھی اسلامی قانون ہی کے ذریعہ ممکن ہے، اسلام ایک مکمل دین اور مکمل قانون ہے یہ ساری انسانیت کیلئے ایک فطری قانون ہے۔ یہ صرف قانون اسلامی ہے جو خود کو کامل ومکمل بھی کہتا ہے اور ناقابل تنسیخ بھی قرار دیتا ہے۔
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (مائدۃ:۳)
ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور بحیثیت دین تمہارے لئے اسلام کو پسند کیا‘‘
اسلامی قانون میں جو جامعیت، ابدیت، معنویت، زندگی، نفاست وحس اور ہر دور کے حالات پر اس کی تطبیقی صلاحیت پائی جاتی ہے وہ دنیا کے کسی قانون میں نہیں ہے۔ اسی لئے ہر زمان ومکان میں اسی کو قیادت کا حق بنتا ہے۔
سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسانی قانون کی توثیق وتصدیق انسانی جماعت یا انسانی عدالت کرتی ہے اس کے بغیر وہ قانون بن ہی نہیں سکتا، جبکہ اسلامی قانون کی تصدیق خود رب کائنات کرتا ہے، دنیاکی عدالت اس کو مانے یا نہ مانے اس کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

انسانی قانون اپنے لئے کوئی تقدیس کا پہلو نہیں رکھتا، یہ لوگوں کے جسموں پر حکومت کرتا ہے دلوں پر نہیں، جبکہ اسلامی قانون اپنے ماننے والوں کے نزدیک ایک مقدس ومحترم قانون ہے، یہ انسانوں کے لئے خدا کا عطیہ ہے، اس طرح یہ جسموں کے ساتھ دلوں پر بھی حکومت کرتا ہے اور سوسائٹی کے ظاہر وباطن دونوں سے بحث کرتا ہے۔
انسانی قانون کی تعمیر عموماً منفی بنیادوں پر ہوئی ہے، یہ اکثر رد عمل کے نتیجہ میں وجود پذیر ہوتا ہے، اسی لئے افراد کی تعمیر، اخلاقیات، تزکیۂ نفس اور تطہیر وتربیت کے ابواب میں یہ کوئی رہنمائی نہیں کرتا، جبکہ اسلامی قانون زیادہ تر مثبت اصولوں پر چلتا ہے اور اعمال سے زیادہ اسباب ومحرکات پر نگاہ رکھتا ہے اور اسی کی روشنی میں یہ قانون سازی کرتا ہے۔
انسانی قانون کی بنیاد محض خاندانی رسوم وروایات اور علاقائی عرف وعادات پر ہے، اس لئے اس میں تعصبات وتنگ نظری کی تمام آلودگیاں موجود ہیں۔ اس میں علمی اور فلسفیانہ بنیادوں کی آمیزش نہیں ہے، جبکہ اسلامی قانون کی بنیاد روز اوّل ہی سے انسانی فطرت اور ہدایت الٰہی پر ہے، یہ ابتدا ہی سے عالمگیر اور فلسفیانہ بنیادوں پر تعمیرہوا ہے، انسانی قانون ہزاروں سال کے ارتقاء کے بعد جس منزل پر پہنچے گا، اسلامی قانون کا پہلا قدم ہی وہاں سے اٹھا ہے۔
قانون میں وحدت ویکسانیت بھی ایک ضروری چیز ہے۔ انسانی قانون میں اصل کے لحاظ سے وحدت ویکسانیت موجود نہیں ہے، اس لئے کہ اس کے سرمایے میں خاندانی روایات اور قومی عرف وعادات کا بڑا حصہ ہے جو ہر علاقہ اور خاندان کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ جبکہ اسلامی قانون شروع سے وحدت کے اصول پر قائم ہے اس لئے کہ اس کی بنیاد رسم وروایات کے بجائے ہدایت الٰہی پر ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور ﷺ تک تمام انبیاء کے قوانین ایک ہی وحدت کے ساتھ وابستہ ہیں، خود قرآن اس کی شہادت دیتا ہے۔
’’تمہارے لئے بھی اسی دین کو مشروع کیا ہے جس کی تعلیم نوح کو دی تھی اور اے پیغمبر! یہ بھی جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور یہی دین ہے جس کی تعلیم ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو دی تھی کہ اس دین کو قائم کریں اور اس میں اختلاف نہ کریں۔ (شوریٰ:۳۱)
اسی طرح انسانی قانون چند انسانی ذہنوں کی پیداوار ہے جبکہ اسلامی قانون خود خالق کائنات کا دیا ہوا عطیہ ہے اور آج اس حقیقت کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں کہ انسان کبھی خود اپنے لئے قانون مرتب نہیں کرسکتا، اس لئے کہ انسان محدود علم واحساس رکھتا ہے وہ کروڑوں انسانوں کی نفسیات کا قدر مشترک معلوم نہیں کرسکتا اور تمام لوگوں کے احساسات وطبائع کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون سازی ہرگز نہیں کرسکتا، قانون خواہ کتنے ہی اخلاص کے ساتھ بنایا جائے مگر اس میں طبعی میلانات اور ذاتی رجحانات کا اثر ناگزیر طور پر آئے گا۔ اس لئے اسلام میں قانون سازی کا حق صرف خالق کائنات کو ہے۔
انسانی قانون اور اسلامی قانون کے درمیان ایک اصولی فرق یہ بھی ہے کہ انسانی قانون میں قانون جماعت سے مؤخر ہوتا ہے، سوسائٹی پہلے ہوتی ہے اوراس کی تنظیم کیلئے قانون بنایا جاتا ہے، قانون جماعت کو پیدا نہیں کرتا، جبکہ اسلام میں قانون جماعت سے مقدم ہے جماعت کے وجود اور اس کے حالات پر قانون کا انحصار نہیں ہوتا بلکہ قانون پہلے بنتا ہے اس کے مطابق جماعت کی تعمیرہوتی ہے، اگر حالات سازگار نہیں ہیں تو ان کی اصلاح کی جاتی ہے اور ان کو نفاذ قانون کے لائق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر حالات کی بنا پر قانون نہیں بدلا جاسکتا۔
انسانی قانون قوت نفاذ کے لحاظ سے بھی کمزور واقع ہوا ہے، اسے اپنے افراد پر مکمل قابو نہیں ہوتا اور نہ تنہا قانون جرائم کے انسداد کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اس کو اپنے کسی بھی قانون کے عملی نفاذ کے لئے مضبوط مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لئے اس قانون میں مجرمین کے بچ نکلنے کے بہت سے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلامی قانون کا آغاز ہی فکر آخرت اور حلال و حرام کے احساس سے ہوتا ہے۔ وہ انسانی ضمیر کی تربیت کرتا ہے اور اس کے ظاہر وباطن کو قانون کیلئے تیار کرتا ہے، وہ اپنے ہر شہری کے دل ودماغ میں یہ احساس راسخ کرتا ہے کہ
کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ. (متفق علیہ ریاض الصالحین للنواوی)
’’تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی متعلقہ ذمہ داری کے بارے میں باز پرس ہوگی۔‘‘
اس بات کو مزید سمجھنے کے لیے اس حدیث مبارکہ پر غور فرمائیے!
انما انا بشر وانہ یاتینی الخصم فلعل بعضکم ان یکون الحن بحجتہ من بعض فاحسب انہ صدق فاقضی لہ بذٰلک فمن قضیت لہ بحق فانما ہی قطعۃ من النار فلی خذہا او لیترکہا ۔ (متفق علیہ مشکوٰۃ باب الاقضیہ والشہادات: ۷۲۳)
ترجمہ: ’’میں ایک انسان ہوں، میرے پاس مقدمات آتے ہیں، ممکن ہے کہ کوئی فریق اپنے مدمقابل سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کے ظاہری دلائل کی بنا پر اس کو سچ گمان کروں اور اس کے حق میں فیصلہ کردوں اس لئے اگر میں کسی بھائی کیلئے دوسرے مسلمان بھائی کے حق کا فیصلہ کردوں تو محض فیصلہ کی بنا پر وہ درست نہیں ہوجائے گا وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہوگا جو چاہے لے اور جو چاہے چھوڑ دے۔‘‘
اسلامی قانون فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔ اس میں انسانی طبائع اورنفسیات کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ قرآن کی آیت ذیل میں اسی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے:
’’پس پوری یکسوئی کے ساتھ اس دین کی طرف متوجہ ہوجاؤ جو اللہ کی اس فطرت کے عین مطابق ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘
کاش! ہم اس کھلی حقیقت کو کھلے دلوں تسلیم کر لیں کہ اسلامی قانون کی حکمرانی ہی وہ طرزِ حکمرانی ہے جو کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ انسانیت کی بھلائی کے لیے ہے۔ اس واضح نکتے کو جس دن ہم نے سمجھ لیا، اسی دن پائیدار امن کے مالک ہو جائیں گے وگرنہ بنی اسرائیل کی طرح ایک ہی وادی میں سالوں گھومنے کے باوجود منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے۔