- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اظہارِ غم اور اسلامی تعلیمات

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا کو اضداد سے مرکب بنایا ہے ، یہاں دن کی روشنی ہے تو رات کی تاریکی بھی ،صبح کی ٹھنڈی ہوائیں ہیں تو دھوپ کی تمازت بھی، پھولوں کی لطافت ہے تو کانٹوں کی چبھن بھی ، موم کی نرمی ہے تولوہے کی سختی بھی ،علم کی روشنی ہے تو جہالت کی تاریکی بھی ، نیکی و ہدایت ہے تو بدی و ضلالت بھی ، غرض یہ کہ اللہ نے دنیا کی چیزوں کو مختلف اضداد کا مجموعہ بنایا ہے ،انہی میں سے خوشی اور غم بھی ہیں، خوشی اور غم انسانی زندگی کی دو حالتیں ہیں جو انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے زندگی کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے انسان کے اندر یہ دو حالتیں رکھی ہیں، انسان کا دل نعمتوں کے حصول پر خوشی و مسرت کی کیفیت سے اچھلتا اور کودتا ہے تو اس کے چھن جانے پراس کے دامن ِمسرت کے پھول مرجھاجاتے ہیں ،خوشیاں زندگی میں بہار اور تازگی لاتی ہیں تو غم اس بہار کو خزاں میں تبدیل کردیتا ہے، انہی دو کیفیات میں زندگی گذار تے ہوئے انسان کبھی خوشی و مسرت سیہم کنار ہوتا ہے تو کبھی رنج وغم سے اپنے آپ کو ملول پاتا ہے ،کبھی خوشیوں کے اسباب کو مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی تکلیف و غم کے حالات کو دور کرنے کی فکر کرتا ہے، یہ دو حالتیں انسان کی آخری سانس تک اس کے ساتھ وفادار ساتھی کی طرح رہتے ہوئے اپنا کردار نبھاتے ہیں ۔

اِسلام دین ِفطرت اور مکمل ضابطہ حیات ہے، یہ دین انسانی فلاح و بہبود کا ضامن ، دنیاوی زندگی میں امن و سکون اور اخروی زندگی میں راحت وآرام کا ذریعہ ہے،جس طرح اس نے زندگی کے ہر موڑ پر انسان کی راہ بری کی، وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق احکامات دیے اسی طرح رنج وراحت ، خوشی اور غم کے وقت بھی راہ نمائی کی ہے ، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہ پیغام دیا ہے کہ خوشی اور غم کے وقت بندے کو چا ہیے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرے اور یہ بات ذہن میں رکھے کہ ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہے ، جس طرح خوشی کے موقع پر اللہ کی محبت میں جذبات سے دل بھر آتا ہے اسی طرح غم کے موقع پر یہ دھیان رہے کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش اور امتحان ہے، چناں چہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا :ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں ،جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے، اے محمد (صلی الله علیہ وسلم)!صبرکرنے والوں کو خوش خبری دے دو( البقرة:155) اس خداوندی فرمان سے یہ ثابت ہوا کہ تکلیف اور غم کے حالات انسان کو پیش آئیں گے، ایسے موقع پر صبر و استقامت کے دامن کو تھامے رکھنا اورزبان پر حرفِ شکایت نہ لانا اور غیر شرعی اعمال و حرکات سے بچتے ہوئے اسلامی حدود کی پاس داری کرنا ایک سچے اور حقیقی مومن کی علامت ہے ،اس کے برخلاف غم کے اظہار کے لیے تھوڑی دیر خاموش رہنا ،جھنڈے سرنگوں کرنا،سیاہ پٹیاں باندھنا،نوحہ کرنا ، چلاّ چلاّ کر رونا ، گریباں چاک کرنا ، سینہ ٹھوکنا ، گال نوچنا ، اپنے کو زخمی کرنا، چوڑیاں توڑنا ، ماتمی دھن بجانا وغیرہ ناجائز اور حرام ہیں ،ان تمام باتوں سے اسلام سختی سے منع کرتا ہے ؛ ہاں! اگر کسی کے غم میں غیر اختیاری یا فطری طور پر بے ساختہ آنسو نکل پڑیں تو صرف اس کی اجازت ہے، جیسا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم کے وصال پر آپ صلی الله علیہ وسلمکی آنکھوں سے جاری ہوگئے تھے، حضرت انس فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی الله علیہ وسلمکے ساتھ تھے جب ابن ِرسول ابراہیم کی روح پرواز کررہی تھی اورآپ صلی الله علیہ وسلم ابراہیم کو اٹھائے ہوئے تھے، آپ کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہہ رہے تھے ، حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا : یا رسول اللہ! آپ بھی روتے ہیں؟تو حضور صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: اے ابن عوف! یہ رحمت ہے ۔پھر فرمایا: بے شک آنسو بہتے ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم وہی بات کہتے ہیں جس میں اللہ کی رضا ہو اور اے ابراہیم! تیری جدائی کی وجہ سے ہم غمگین ہیں(بخاری ، باب انا بک لمحزونون، حدیث نمبر1303)

اسلام سے پہلے بھی لوگوں نے سوگ وماتم کے کچھ ایسے طریقے ایجاد کرلیے تھے جو نہ صرف قدیم مذاہب کے لحاظ سے بلکہ انسانی فطرت کے اعتبار سے نامناسب اور ناپسندیدہ تھے، مثلاً : نوحہ اور گریہ وزاری کرنا،کپڑے پھاڑنا اور رونا پیٹنا وغیرہ ؛لیکن اسلام کے آنے کے بعدآپ صلی الله علیہ وسلم نے ان تمام کاموں سے منع کیااور سختی سے ارشاد فرمایا کہ جو ماتم کے لیے سر کے بال منڈالے،چلا کے روئے اور کپڑے پھاڑ لے،میں اس سے بری ہوں ۔(بخاری ، باب ما ینہی من الحلق ، حدیث نمبر:1296) اس کے بجائے یہ حکم دیا گیا کہ مصائب اور پریشانی کے وقت صبر اور نماز کی طرف رجوع ہوجاؤ اور اسی کے ذریعہ اللہ کی مدد چاہو۔چناں چہ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا :اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرہ:153) صبر و شکر ایک مسلمان کے اندر خوشی کے جذبات پیدا کرتا ہے، اس کے علاوہ جہالت و اخلاقی قدروں کی پامالی انسانی فطرت میں دکھ و غم کا باعث بنتی ہے ،اس لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے دکھ اور رنج ، تکلیف و پریشانی میں اضافہ کرنے کے وہ تمام راستہ اور ذرائع مسدود کردیے جو انسانی زندگی کو بے حس و جان بنادیتے ہیں ، چناں چہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں ارشادفرمایا:جو عورت الله اور آخرت پر ایمان لائی ہو، اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے، البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے (بخاری ، باب احداد المرأة علی غیر زوجہا ، حدیث نمبر:1280) اس حدیث سے معلوم ہورہا ہے کہ حضورصلی الله علیہ وسلم نے شوہر کے علاوہ کسی کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ کی اجازت نہیں دی، صرف بیوی کو چار ماہ دس دن (عدت گزارنے) کے لیے شوہرکی وفات پر غم منا نے کی اجازت دی ہے۔ (جدید فقہی مسائل ج:ص:306) نیز حضرت عبدالله بن عباسبیان کرتے ہیں کہ زینب بنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کاجب انتقال ہوا تو عورتیں رونے لگیں ، حضرت عمرنے انہیں سختی سے روکنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے اپنے ہاتھ سے منع کیا اور فرمایا: اے عمر!انہیں چھوڑدو۔ پھر فرمایا: اے عورتو! شیطانی آواز سے پرہیز کرنا۔ پھر فرمایا:جس غم کا اظہار آنکھ اور دل سے ہو، وہ الله کی طرف سے ہے اور رحمت ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ہو، وہ شیطان کی طرف سے ہے۔ (مسند احمد ،باب مسند عبدا للہ بن عباس، حدیث نمبر:3103) اسی طرح حضرت عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:وہ ہم میں سے نہیں جومنھ پیٹے، گریبان پھاڑے اور ایام جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے۔ (بخاری ، باب لیس منا من شق الجیوب، حدیث نمبر:1294)اس حدیث میں آپ الله صلی الله علیہ وسلم یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ مرنے والے کے غم میں اپنا چہرہ اور گالوں کو پیٹنا، کپڑے پھاڑنا، اللہ کے لیے نازیبا کلمات کہنا، بے صبری کا مظاہرہ کرنا یہ سب ہمارا طریقہ نہیں ہے،یہ تمام کام حرام اور ناجائز ہیں، ان کاکرنے والا سخت مجرم ہے،حضرت ابو مالک اشعری کہتے ہیں کہ پیارے حبیب الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:میری امت میں زمانہ جاہلیت کی چار چیزیں ہیں، جن کولوگ نہیں چھوڑیں گے، حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسرے شخص کو نسب کا طعنہ دینا، ستاروں کو بارش کا سبب جاننا اور نوحہ کرنا اور نوحہ کرنے والی اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے قیامت کے دن گندھک اور جرب کی قمیص پہنائی جائے گی۔ (مسلم، باب التشدید فی النیاحة ، حدیث نمبر:29 ) اسی طرح ایک حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے تو یہاں تک ارشاد فرمایاکہ نوحہ کرنا کفر کی خصلت ہے چناں چہ حضرت ابوہریرہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:لوگوں میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہیں، کسی کے نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا۔ (مسلم حدیث 67، کتاب الایمان)اس حدیث میں نوحہ کو کفر قرار دیا گیا ہے،لیکن علماء اس کی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حلال سمجھ کر میت پر نوحہ کرنا کفر ہے اور اگر اس کام کو برا سمجھ کر کیا جائے تو یہ بھی حرام ہے،اسی طرح نوحہ اور ماتم کی آوازوں کو ناپسندیدہ آواز کہا گیا، چناں چہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:دو آوازوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے، نعمت کے وقت گانا بجانا اور مصیبتکے وقت چلا کر آواز بلند کرنا، یعنی نوحہ اور ماتم وغیرہ کرنا۔(مسندبزار ، باب مسند ابی حمزة انس بن مالک ،حدیث نمبر:7513) نیزفقہائے کرام نے بھی اس کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے، چناں چہ عبد الرحمن الجزیری لکھتے ہیں :مالکیہ اور احناف کے ہاں میت پر بلند آواز اور چیخ وپکار کے ساتھ رونا حرام ہے اور شافعیہ وحنابلہ نے اسے مباح قرار دیا ہے، ہاں! بغیر چیخ کے آنسو نکلنا بالاتفاق مباح ہے اور اسی طرح ندب، یعنی میت کے محاسن واجملاہ اور واسنداہ جیسے اقوال وغیرہ کے ذریعے بیان کرنا بھی ناجائز ہے۔ (کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ ج1 ص:484)نیزفقہاء نے اس مقصد کے لیے سیاہ کپڑے پہننے سے منع فرمایا ہے، فتاوی عالم گیری میں لکھا ہے: وَلَا یَجُوزُ صَبْغُ الثِّیَابِ أَسْوَدَ أَوْ أَکْہَبَ تَأَسُّفًا عَلَی الْمَیِّتِ قَالَ صَدْرُ الْحُسَامِ لَا یَجُوزُ تَسْوِیدُ الثِّیَابِ فِی مَنْزِلِ الْمَیِّتِ، کَذَا فِی الْقُنْیَةِ.میت پر ماتم کرتے ہوئے کپڑے کو سیاہ رنگ میں رنگنا جائز نہیں ہے، نہ یہ جائز ہے کہ میت کے گھر کے کپڑے سیاہ رنگ میں رنگ دیے جائیں۔(فتاوی ہندیہ:5/333)مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلویتعزیہ اور دور جدید کے مرثیہ وغیرہ کے متعلق فرماتے ہیں:تابوت کی طرح تعزیہ بنانا، مرثیہ پڑھنا مرثیہ بنانا،مرثیہ سننا اور فریاد ونوحہ کرنا، چھاتی پیٹنا اور گلا نوچنا یہ سب ناجائز ہیں۔ ( فتاوی عزیزیہ ص:192)ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ: مرثیہ وکتاب پڑھنا، جس میں احوال واقعی نہ ہوں، ناجائز ہے اور ایسا ہی نوحہ کرنا بھی گناہ کبیرہ ہے اور حدیث میں اس بارے میں وعید ہے۔ (فتاوی عزیزیہ ص:195)چناں چہ حدیث شریف میں ہے:حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ لعنت فرمائی حضورصلی الله علیہ وسلمنے نوحہ کرنے والی پر اور اس عورت پر جو نوحہ سنے۔(مشکوٰة المصابیح ص:151)

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ دور حاضر کے غیر شرعی اور رسمی طور پر اظہار غم کے طریقے، مثلاً:، تھوڑی دیر خاموش رہنا،سیاہ پٹیاں باندھنا، جھنڈے سرنگوں کردینا وغیرہ اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی ہے ،پھر یہ کہ اوپر کی تمام آیات و احادیث اور فقہائے کرام کی عبارتیں عام میت کے بارے میں تھیں، جب کہ شہداء کا مقام و مرتبہ اس سے مختلف ہے ، شہداء کے لیے قرآن و حدیث میں بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں، شہداء اللہ کے مہمان ہوتے ہیں ، ان کے ساتھ بہت ہی اکرام و اعزاز کابرتاو کیاجاتا ہے اور پوری جنت ان کے لیے کھول دی جاتی ہے ، بڑے ہی آرام و سکون سے وہ جنت کی سیر کرتے ہیں، قرآن مجید میں شہداء کے اونچے مقام اور اطمنانی کیفیت کو اس طرح بیان کیا گیا:جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ہیں ان کے بارے میں یہ نہ کہو کہ وہ مردہ ہیں، بلکہ وہ تو زندہ ہیں، لیکن تمھیں خبر نہیں۔(البقرة:154) ایک اور مقام پر شہید کی فضیلت بیا ن کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا :جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں ،اپنے پروردگار کے پاس کھاتے پیتے ہیں ،وہ خوش ہیں ان نعمتوں پر جو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے ان کو عطا فرمائی ہے اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ تعالی ایمان والوں کا اجر ضائع نہیں فرماتے ۔ (آل عمران:171-169)اور احادیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے شہدا ء کے فضائل ان الفاظ میں بیا ن کیے ہیں؛ چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباس  بیان فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : شہداء جنت کے دروازے پر دریا کے کنارے ایک محل میں رہتے ہیں اور ان کے لیے صبح شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے ۔ ( مسنداحمد ) حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : جب بندے قیامت کے دن حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی تلواریں گردنوں پر اٹھائے ہوئے آئیں گے، ان سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ جنت کے دروازوں پر چڑھ دوڑیں گے، پوچھا جائے گا یہ کون ہیں؟ جواب ملے گا یہ شہداء ہیں، جو زندہ تھے اور انہیں روزی ملتی تھی۔ (مجمع الزوائد ) حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا جب تمھارے بھائی احد کے دن شہید ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحیں سبز پرندوں میں داخل فرما دیں، وہ جنت میں نہروں پر اترتے ہیں اور جنت کے میوے کھاتے ہیں اور وہ عرش کے سائے کے نیچے سونے کی قندیلوں پر بیٹھتے ہیں، جب انہوں نے بہترین کھانا پینا اور آرام گاہ پالی تو انہوں نے کہا کون ہے جو ہمارے بھائیوں کو ہماری خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور کھا پی رہے ہیں، تاکہ وہ جہاد کو نہ چھوڑیں اور لڑائی میں بزدلی نہ دکھائیں ؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری خبر ان تک پہنچا دیتا ہوں، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی:﴿ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا﴾․ (ابوادؤد)

مذکورہ تمام آیتوں اور احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں شہادت ایک اونچا رتبہ اور اعلی مقام ہے اور شہادت کو وہ مقام حاصل ہے کہ (نبوّت و صدیقیت کے بعد) کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی اس کی گرد کو نہیں پاسکتا،شہادت سے ایک ایسی پائے دار زندگی نصیب ہوتی ہے، جس کا نقشِ دوام جریدہ عالم پر ثبت رہتا ہے، جسے صدیوں کا گرد و غبار بھی نہیں دُھندلا سکتا اور جس کے نتائج و ثمرات انسانی معاشرے میں رہتی دُنیا تک قائم و دائم رہتے ہیں،شہداء کے ان اونچے مقام اور اعلی مراتب کے پیش نظر یہ بات کسی بھی طرح سے مناسب نہیں کہ ان کے ماتم کا اہتمام کیا جائے اور نوحہ کی مجلسیں سجائی جائیں ، اگر کوئی مسلمان شریعت کے واضح احکامات کے باجود بھی ان غیر شرعی امور سے اجتناب نہیں کرتا تو پھر ایسے لوگوں پر حضور صلی الله علیہ وسلمکایہ فرمان بالکل صادق آتا ہے کہ:من تشبہ بقوم فہو منہم، یعنی جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے… لہٰذا جو اغیار کی رسم اپناتا ہے وہ اغیار ہی میں سے شمار کیاجائے گا، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں حق بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی اور اسلامی حدود میں رہتے ہوئے اظہار غم کرنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔