- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بچے، قرآن اور ہماری ذمہ داری

بچے اور قرآن، ان دونوں کا آپ میں بہت گہرا تعلق ہے، یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ دنیا میں قرآن کے ماہرین بچپن ہی سے قرآن سے جڑے ہوئے تھے۔
جن بچوں کو ان کے والدین نے چھوٹی عمر میں قرآن سے جوڑا، ان بچوں کا قرآن سے تعلق ساری زندگی مضبوط رہا۔
یہاں میں اس بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بچپن سے قرآن کے ساتھ جوڑنے سے مراد یہ نہیں جو ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے، یعنی بچے کو سکول سے واپس لاکر آدھے گھنٹے کے لیے مسجد کے قاری صاحب کے حوالے کردینا، جب کہ وہ بچہ انتہائی تھکاوٹ کا شکار ہوتا ہے، اور پھر والدین نے بھی ساری ذمہ داری قاری صاحب پر ڈال رکھی ہوتی ہے، سالوں گزر جاتے ہیں اور والدین کبھی قاری صاحب سے ملاقات تک نہیں کرتے۔
اگرچہ موجودہ دور میں الحمدللہ! حفظِ قرآن کا رجحان زیادہ ہوا ہے، لیکن پھر بھی عموماً یہی ہوتا ہے کہ لوگ اپنے کسی ایک بچے کو حفظ کروا کر دس افراد کی بخشش کے پروانے پر خود ہی دستخط کر کے بیٹھ جاتے ہیں، یعنی اب جو بھی ہو، ہم بخشے بخشائے ہیں۔ چنانچہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بچوں کو پاکیزہ ماحول فراہم نہیں کیا جاتا، بچہ مدرسہ سے آکر گھر میں موجود شیطانی آلات سے بھی مستفید ہو رہا ہوتا ہے، فلمیں، ڈرامے اور کارٹوں کی شکل میں دجالی ہدایات کے انجکشن اس کے قلب و دماغ پر لگتے رہتے ہیں۔
حفظ کے رجحان میں اضافے کے باوجود اب بھی نوے فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہی ہیں جو بچے کو بچپن کی عمر میں قرآن سے نہیں جوڑتے، بلکہ جدید زبانیں اور علوم ہی بچپن میں پڑھاتے اور سکھاتے ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ جو بچے بچپن میں حفظ کرلیتے ہیں، ان کا حافظہ دوسرے بچوں سے زیادہ قوی ہوتا ہے، چنانچہ اگر بچوں کو سب سے پہلے یعنی پانچ چھ سال کی عمر میں حفظ کروانا شروع کردیا جائے تو باقی چیزیں بعد میں بچہ بہت اچھی طرح سیکھ لیتا ہے۔
دوسری بات یہ بھی اہمیت کی حامل ہے کہ بچے کو چھوٹی عمر میں جو چیز سکھائی جائے گی، ساری عمر اسی چیز کی چھاپ اس کی عملی زندگی میں بھی نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ سال کی عمر میں نماز کا حکم دیا، حالانکہ سات سال کے بچے پر ابھی نماز فرض ہی نہیں ہوئی، ابھی تو مزید سات سال ہیں نماز فرض ہونے میں، یہ سارا اہتمام اسی وجہ سے ہے۔ طبرانی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’أدبوا أولادَکم علیٰ ثلاث خصال: حب نبیکم و حب آل بیتہ و تلاوۃ القرآن، فان حملۃَ القرآن فی ظل عرش اللہ یوم لاظل الا ظلہٗ مع أنبیاۂٖ و أصفیاۂٖ‘‘۔
’’اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان کے اہل بیت رضی اللہ عنہم کی محبت اور قرآن کریم کی تلاوت، اس لیے کہ قرآن کریم کو یاد کرنے والے اللہ کے عرش کے سائے میں انبیاء علیہم السلام ساتھ اس روز ہوں گے جس روز اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘
مسلمان علماءِ تربیت نے بچوں کو قرآن کریم کی تلاوت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کی تعلیم اور مسلمانوں کے عظیم قائدین کے کارنامے بتلانے اور سکھلانے کے ضروری ہونے کے سلسلہ میں جو کچھ کہا ہے، اس کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہم اپنے بچوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اور جنگیں اسی طرح یاد کرایا کرتے تھے جس طرح اُنہیں قرآن کریم کی سورتیں یاد کراتے تھے۔‘‘
امام غزالی رحمہ اللہ نے احیاء العلوم میں یہ وصیت کی ہے کہ:
’’بچے کو قرآن کریم اور احادیث نبویہ اور نیک لوگوں کے واقعات اور دینی احکام کی تعلیم دی جائے۔‘‘
علامہ ابن خلدوں رحمہ اللہ نے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینے اور یاد کرانے کی اہمیت یوں بتائی ہے:
’’مختلف اسلامی ملکوں میں تمام تدریسی طریقوں اور نظاموں میں قرآن کریم کی تعلیم ہی اساس اور بنیاد ہے، اس لیے کہ قرآن کریم دین کے شعائر میں سے ہے جس سے عقیدہ مضبوط اور ایمان راسخ ہوتا ہے۔‘‘
ابن سینا رحمہ اللہ نے ’’کتاب السیاسۃ‘‘ میں نصیحت لکھی ہے کہ:
’’جیسے ہی بچہ جسمانی اور عقلی طور سے تعلیم و تعلم کے لائق ہوجائے تو اس کی تعلیم کی ابتداء قرآن کریم سے کرنا چاہیے، تا کہ اصل لغت اس کی گھٹی میں پڑے اور ایمان اور اس کی صفات اس کے نفس میں راسخ ہوجائیں۔‘‘
پہلے زمانے کے لوگ اپنے بچوں کی تربیت کا نہایت اہتمام کیا کرتے تھے اور اپنے بچوں کو جب اساتذہ کے حوالے کرتے تو ان سے درخواست کرتے کہ ان بچوں کو سب سے پہلے قرآن کریم کی تعلیم دیں اور یاد کرائیں، تا کہ ان کی زبان درست ہو اور ان کی ارواح میں پاکیزگی و بلندی اور دلوں میں خشوع و خضوع پیدا ہو اور ان کے نفوس میں ایمان اور یقین راسخ ہوجائے۔