- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بچوں کی تربیت کے سلسلے میں دور حاضر میں مسلم خواتین کا کردار

مغرب کے خدا شناس ذہن کی جولانیوں کی معراج فرائڈ اور کارل مارکس ہیں‘انہوں نے انسانی زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں خالص مادی نقطئہ نظر پیش کیا اور اس کے حق میں عقلی اور منطقی دلائل کے انبار لگادیے، یہی نظریات فکری اور انقلابی تحریکوں میں ڈھلے اور مغربی دنیا کے سیاسی وسماجی ڈھانچے میں دوررس نتائج کی حامل تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ان تبدیلیوں نے ساری دنیا کو تصادم اور کشمکش،تباہی ،بربادی اور محرومی ومایوسی میں مبتلا کردیا۔

فرائڈ کے نظریات جن میں مذہب کی تحقیر نے انسانی اقدارعالیہ کو پامال کرنے کی بدترین شکل پیش کی گئی تھی ،انسان کو حیوانیت کی راہ پر گام زن کردیا،اور یہ بات مغربی معاشرے کے ذہن نشین کرادی کہ تمام نفسیاتی الجھنوں اور اعصابی اضطرابات سے چھٹکارا پانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ فرد کے راستے سے سماج،اخلاق اور روایات جیسے چوکیدار ہٹا دیے جائیں اور اس کے کچلے ہوئے جذبات کو روایات کے قید خانے سے آزاد کردیاجائے۔

اس طرح مغرب میں ایسی نسل تیار کی گئی جو اس بات کی ہم خیال تھی کہ سماج ،کائنات کی اشیا، انسانی طبیعت سے متصادم ہے اور معاشرے کی قید اور روایات کے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے ،خوشی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ انسان خاندانی اور عائلی بندھنوں سے آزاد ہوجائے۔ بالآخر یورپ اور امریکا کی تمام اقوام میں معاشرتی شیرازہ ان افکاروخیالات کی ترویج پاتے ہی بکھرگیا اور عائلی نظام درہم برہم ہوگیا۔

اسلام، جو دین فطرت ہے، انسان کی فطرت اور شریعت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے،احکامات لاگو کرتا ہے،قرآن کریم میں شراب اور قمار بازی کے بارے میں لوگوں کے دریافت کرنے پر ارشادر بانی ہوا:

’لوگ آپ سے اس بارے میں پوچھتے ہیں،آپ فرمادیجیے کہ ان دونوں کے استعمال میں گناہ کی باتیں زیادہ ہیں اور بعض فائدے بھی ہیں، مگر گناہ کا تذکرہ ان فائدوں سے زیادہ ہے۔“

اگر قرآن کریم یہ کہتا کہ خمرومیسر میں کوئی فائدہ نہیں تو لوگ ہو سکتا ہے کہ اعتراض کرتے یا عدم اطمینان کا شکار ہوتے۔

اسلام کی عائد کرد ہ تمام قیود و بندشیں معاشرے کے مفاد میں ہیں‘اس مختصر تجزیے سے یہ بات ہماری سامنے آگئی کہ موجود ہ دور میں جو کش مکش قوموں،ملکوں اور مذاہب میں جاری ہے ،اس میں وہی نظریات و خیالات کار فرما ہیں جو اہل مغرب نے دنیا کو دیے اور جس دلدل میں وہ وخود جاگرے ہیں، آج کا نام نہاد ترقی پسند معاشرہ اسی جانب رواں دواں ہے،اس وقت ہماری فکر کے سارے دھارے اس جانب مبذول ہونے چاہئیں کہ معاشرے کے اس بحران سے کس طرح نمٹا جائے؟ اس کا تدارک کیا کیا جائے اور اس کا حل کیا ہو؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے، آپ نے فرمایا:”تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا “۔

اس حدیث کے مطابق معاشرے کا ہر فرد، چاہے وہ عورت ہو یا مرد،اپنے اپنے دائرہ اختیار میں سب راعی(نگہبان ) ہیں اور ان کی ذمے داری ہے کہ بگاڑ کی صورتوں پر نظر رکھیں اور ابتری و انتشار کے اس دور میں ہر جگہ مغربی تہذیب کی چالوں سے نہ صرف خود بلکہ معاشرے کو محفوظ کرنے کی تدابیر اختیار کی جائیں ۔مغرب کی تہذیبی یلغار سے بچنا ،لوگوں کو بچانا اتنا آسان، نہیں لیکن حکم خداوندی ہے:

”اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔“

صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اللہ تعالیٰ کے تقویٰ سے روشناس کراؤ اور انہیں ادب سکھاؤ۔

تربیت کا یہ نظام جو اسلام دیتاہے،انسانی طرز عمل پر اثر انداز ہونے والے بہترین عوامل میں سے ہے، ہر انسان کا بچہ جب دنیا میں آتا ہے، والدین کے پاس ایک امانت ہوتا ہے ،بچے کا دل و دماغ بالکل سادہ ہوتا ہے، ُاس کے والدین یا معلم و معاشرہ جس طرح چاہتے ہیں‘اس کے خیالات وافکار بناتے ہیں ،اگر خیرکی طرف راہ نمائی کریں ،تو وہ اس کا عادی بنتا ہے اور اگر اس کو جانوروں کی طرح چھوڑ دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ خود تباہ ہوگا ،بلکہ اس کی تباہی کا وبال اس کے سرپرستوں پر بھی ہوگا ۔

تربیت کے اس مرحلے میں ماں اولاد کے قریب ترین ہوتی ہے، معاشرے کی تباہی ،بگاڑ اور تعمیر و ترقی میں وہ اہم ترین کردار اداکرتی ہے ، دور حاضر کی مغربی طرز زندگی اور مصنوعی چمک دمک نے ان کی ذمہ داریوں کو مزید بڑھادیا ہے،دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ذہنوں کو بدلنے میں مصروف ہیں،ہر باشعور مسلمان اس بات سے بخوبی واقف ہے ‘ان ذرائع ابلاغ کے برے اثرات عیاں ہیں ِ،جھوٹ اور مکرو فریب کی اشاعت ان کا کام ہے ۔

آزادی کے مغربی تصور کے تحت ان ذرائع ابلاغ نے فسق وفجور کی خوب اشاعت سنبھالی ،پوری دنیا کے مسلمان ممالک کو اپنا ہدف بنا کر میڈیا کے اثرات کو گھر گھر پہنچا دیا ۔

آج کی عورت کے لیے اپنی اولاد،خاندان ،نظام ،اصول و ضوابط سب کو ان اثرات سے بچانا اور متبادل خیر کا پیغام اپنی نسلوں کو دینا انتہائی ضروری ہے۔ گھر اور بچے ہی معاشرے کی اکائی ہیں ،اگر یہیں پر گرفت مضبوط ہو تو آگے معاشرہ بھی پابند ہوجاتا ہے اور اقدار کی حفاظت ہوسکتی ہے،لہٰذا دینی اصولوں سے آگاہی اور مذہبی افکار کی روشنی میں بچوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے ۔دشمنانِ اسلام اس فن سے بخوبی آشنا ہیں کہ آوارہ ذہن ،سیکولر اور مادہ پرستی کی خوراکیں کس طرح خوش رنگ بنا کر پیش کریں ،ماؤں کی جانب سے بچوں کی تعلیم و تربیت انتہائی ضروری ہے ۔ایک مشہور دانش ور کا کہنا ہے یتیم وہ بچہ نہیں جس کے والدین دنیا میں اسے تنہا چھوڑ گئے ہوں ،اصل یتیم تو وہ ہیں جن کی ماؤں کو تربیتِ اولاد سے دلچسپی نہیں اور باپ کے پاس ان کو دینے کے لیے وقت نہیں ۔

آج یہ بات کس قدر درست نظر آتی ہے!!!بچوں کو برائیوں کے سیلاب سے بچانے کے لیے موجودہ دور کی عورت کو خصوصاً اپنے اوقات کار، گھر کے نظام،بچوں کی دلچسپی اور اپنی لاپروائیوں پر توجہ دینی ہوگی اور اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ اسلامی رنگ کو اپناکر ہی کیا جاسکے گا۔اسی کپڑے پر رنگ اچھا چڑھتا ہے جس کا اپنا کوئی رنگ نہ ہو، اپنی اولاد او راپنے گھر کے افراد کو اور رنگوں سے نکال کر صبغتہ اللہ میں رنگنا ہی اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہوگا ۔انشاء اللہ العزیز․

اگر آج بھی اسلام کے جامع حکیمانہ پیغام کو اپنایا جائے تو یقینا بے پناہ بندشوں اور پابندیوں میں جکڑی ہوئی مظلوم اقوام کو عزت و احترام کی زندگی حاصل ہوسکتی ہے۔