- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

بچوں کا عالمی دن اور ڈھائی کروڑ بچوں کا مسئلہ

بچے کسے اچھے نہیں لگتے، یہ تو معصوم ہوتے ہیں، ان میں ہمارا مستقبل چھپا ہے، ان کا خیال رکھنا اور اپنے وسائل کا رخ ان کی جانب موڑنا والدین کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔
مگر جب پھول جیسے یہ بچے بوجوہ معاشرے کی دھول بن جائیں تو انہیں دیکھ کر یقیناًدکھ اور افسوس ہی ہوتا ہے۔ بحیثیت معاشرہ ہم ان پھولوں کی آبیاری، حفاظت اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں، اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے ضرورت ہے، اور بس۔
دنیا بھر میں ۲۰ نومبر کو بچوں کے حقوق کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے تقاریب ہوں گی اور سرکاری و غیرسرکاری اداروں اور شخصیات کی جانب سے بیانات جاری ہوں گے۔ یہ دن ہر سال بچوں کو حقوق کی فراہمی کے حوالے سے ہمارے رویوں اور ذمہ داریوں کی یاد دہانی کروانے آتا ہے۔
پاکستان میں ۵ سے ۱۶ سال تک کی عمر کے بچوں کی تعداد اس وقت کل آبادی کا ۴۵ فیصد سے بھی زائد ہے۔ اس تعداد کا ۷۰ فیصد دیہاتوں میں مقیم ہے۔ شہری بچوں کی نسبت دیہی بچے بنیادی سہولتوں سے زیادہ محروم اور تعلیم سے بھی دور ہیں۔ مذکورہ کُل تعداد کا بھی ۴۴ فیصد حصہ کسی نہ کسی وجہ سے تعلیم سے دور یا آؤٹ آف اسکول ہے۔ یہ بچے محنت مزدوری کر کے والدین کا ہاتھ بٹانے پر مجبور ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کے کیا حقوق ہیں اور کس قدر انہیں مل رہے ہیں۔ عدم مساوات کا شکار یہ بچے صرف اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح اپنے والدین کے ساتھ مل کر قومی اور گھریلو معیشت کی ’’مضبوطی‘‘ اور ملک کی اقتصادی ’’ترقی‘‘ میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔
آج ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں۔۔۔ جس گلی، محلے، بازار یا دکان میں دیکھیں، ہمیں محنت مزدوری کرتے چھوٹے بڑے بچے دکھائی دیں گے۔۔۔ ہوٹلوں، قالین بافی، کان کنی، چوڑی سازی، فیکٹریوں، کارخانوں، صنعتوں، ورکشاپوں، بھٹہ خشت، عمومی دکانوں حتی کی گھروں اور مکینک کی دکانوں پر اپنے ننھے ننھے سے ہاتھ کالے کرتے، سڑکوں، چوراہوں پر بھیک مانگتے، بوٹ پالش کی آواز بلند کرتے، گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، ٹریفک اشاروں پر اخبارات بیچتے، گلی محلوں میں کاغذ چنتے، کپڑوں پر زری کا کام کر کے زندگی کی گاڑی کھینچنے والے بچے ہمیں جگہ جگہ نظر آئیں گے۔ ہاتھوں میں قلم اور کتاب کی جگہ اوزاز پکڑے یہ معصوم پھول، جن کے ابھی فقط کھیلنے کودنے اور پڑھنے لکھنے کے دن ہیں۔۔۔ لیکن ہم کس غیرمحسوس طریقے سے ان سے ان کا بچپنا چھین رہے ہیں، اس امر کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔۔۔ ۲۰ نومبر کا دن انہی بچوں سے اظہار یکجہتی اور ان کے سر پر دست شفقت رکھنے کا دن ہے۔
مذکورہ ۴۴ فیصد بچوں کو بنیادی حقوق فراہم کرتے ہوئے تعلیم تک انہیں رسائی دلوانا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ آج بھی ڈھائی کروڑ سے زائد بچے مختلف مجبوریوں کی وجہ سے آؤٹ آف اسکول ہیں۔ یہ امر واضح ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی کا راز اس کی خواندگی میں ہی پوشیدہ ہے۔ ملکوں کی تہذیب و ترقی کا صحیح معیار اس کی مردم شماری کے اعداد یا معیشت کے حجم سے نہیں بلکہ اس کے تعلیم یافتہ انسانوں کی تعداد سے ہوتا ہے۔ یہی افراد ملک کے درخشاں مستقبل کے ضامن ہوتے ہیں۔ کس قدر تلخ حقیقت ہے کہ وطن عزیز دنیا میں تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے ۱۷۳ ملکوں کی فہرست میں خواندگہ کے اعتبار سے پاکستان کا ۱۵۷ واں نمبر ہے۔ آج بھی اگر ہم اپنے ملک کی شرح خواندگی کا مقابلہ خطے کے دیگر ممالک سے کریں تو ہمیں اپنی پسماندگی پر شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔
ناخواندگی، پاکستان کے ڈھائی کروڑ سے زائد بچوں کا مسئلہ ہے۔ تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے اکثر سرکاری و غیر سرکاری ادارے مشترکہ جد و جہد بھی کر رہے ہیں۔ مسئال کے حل کے لیے سیاسی و غیرسیاسی اداروں (سول) کی جانب سے مشاورتیں اور وعدے تو گزشتہ نصف صدی سے ہر سطح پر کیے جارہے ہیں اور ہر نشست اور بحث مباحثہ کے بعد ایک عزم لے کر اٹھا جاتا ہے۔ لیکن بچوں کے حقوق بارے حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔ اس ضمن میں اب مشاورتوں اور نشستوں کی بجائے عملی اقدامات کے لیے نہ صرف کثیرالجہتی حکمت عملی اور مؤثر منصوبوں کی ضرورت ہے، بلکہ ان ذمہ داروں کی ذمہ داریوں کے بھی ’’آؤٹ‘‘ کی ضرورت ہے، جن سے وہ اک عرصہ گزر جانے کے باوجود عہدہ بر آنہیں ہوسکے۔ ۲۰ نومبر اس عہد کا اعادہ کرنے کا دن ہے کہ ہر بچے کو منصفانہ، معیاری اور جامع تعلیم اور پھلنے پھولنے کے یقینی مواقع مہیا کرنے ہیں۔ اگرچہ یہ حق یقینی بنانا بنیادی طور پر حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور ہر ملک نے ایسے کم از کم ایک عالمی معاہدے پر ضرور دستخط کر رکھے ہیں جس میں تعلیم کا حق فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف وعدوں اور دعووں تک ہی محدود رہیں گے یا اس سے آگے بھی بڑھیں گے؟