- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

غیبت، عیب جوئی، طعنہ زنی اور ناحق مال ہڑپنا

سورة الہمزہ کا ترجمہ: بڑی خرابی ہے اُ س شخص کی جو پیٹھ پیچھے دوسروں پر عیب لگانے والا (اور) منھ پر طعنے دینے کا عادی ہو، جس نے ما ل اکٹھا کیا ہو اور اُسے گنتا رہتا ہو۔ وہ سمجھتا ہے کہ اُس کا مال اُسے ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ ہر گزنہیں! اُس کو تو ایسی جگہ میں پھینکا جائے گا جو چورا چورا کرنے والی ہے اور تمہیں کیا معلوم وہ چورا چورا کرنے والی چیز کیا ہے؟ الله کی سلگائی ہوئی آگ، جو دلوں تک جا چڑھے گی۔ یقین جانو وہ اُن پر بند کر دی جائے گی ، جب کہ وہ (آگ کے) لمبے چوڑے ستونوں میں (گھرے ہوئے) ہوں گے۔
﴿وَیۡلٌ﴾کے معنی بربادی، بڑی خرابی اور عذاب کے ہیں ، نیز جہنم کی ایک وادی کا نام بھی ویل ہے، یعنی جو حضرات تین گناہوں( غیبت، طعنہ دینااور ناحق مال جمع کرنا) میں مبتلا ہیں انہیں جہنم کی ویل نامی وادی میں ڈالا جائے گا۔ سورة الماعون میں مذکور ہے کہ نمازوں میں کوتاہی کرنے والوں کو بھی جہنم کی اسی وادی میں ڈالا جائے گا۔ الله تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔﴿ہُمَزَةٍ﴾ اور﴿لُّمَزَة﴾ مبالغہ کے صیغے ہیں، ہُمَزکے معنی اشارہ بازی کرنے کے اور لمز کے معنی عیب لگانے یا طعنہ دینے کے ہیں۔ کسی شخص کا مذاق اڑانا، کسی کا عیب نکالنا، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا، یعنی غیبت کرنا، اسی طرح کسی کو طعنہ دینا، کسی کو ذلیل کرنا اور برا بھلا کہنا یہ ساری شکلیں اس آیت کے تحت داخل ہیں اور یہ سب گناہ کبیرہ ہیں، جن سے بچنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ ان گناہوں میں مبتلا ہونے والے اشخاص کو جہنم میں سخت عذاب دیا جائے گا، اگر موت سے قبل حقیقی توبہ نہیں کی۔ غرض کہ الله کے بندوں میں بدترین لوگ وہ ہیں جو چغل خوری کرتے ہیں اور دوستوں ورشتہ داروں کے درمیان جھگڑا کراتے ہیں، شریفوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرتے رہتے ہیں۔
الله تعالیٰ سورة الحجرات، آیت:11 میں ارشاد فرماتا ہے کہ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ جن کا مذاق اڑارہے ہیں خود اُن سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ جن کا مذاق اڑارہی ہیں خود اُن سے بہتر ہوں اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کرنا بہت بری بات ہے اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں۔
اس آیت میں ہمیں غیبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم کی روشنی میں سمجھیں کہ غیبت کیا چیز ہے؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام سے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ کرام نے جواب دیا: الله اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کی اس چیز کا ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔ کہا گیا اگر وہ چیز اس میں موجود ہوتو؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ چیز اس کے اندر ہو تو تم نے غیبت کی او راگر نہ ہو تو وہ بہتان ہو گا ۔ ( مسلم)
حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں او رکوتاہیوں کا ذکرکیا جائے ،جسے وہ بُرا سمجھے او راگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود نہیں ہیں تو وہ بہتان ہے ۔ کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا، یعنی غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا۔ بھلا کون ایسا ہو گا جو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا!!! الله تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے، ارشاد باری ہے : تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے ؟ تم کو اس سے گھن آئے گی۔ (سورة الحجرات:12)
معراج کے سفر کے دوران حضور صلی الله علیہ وسلم کو جنت ودوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہ گاروں کے احوال بھی دکھائے گئے، جن میں سے ایک گناہ گار کے احوال پیش کرتا ہوں، تاکہ اس گناہ (غیبت) سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔ حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی، میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں ( یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں ) او ران کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔ (ابوداؤد)
﴿الَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَعَدَّدَہُ﴾جو ناحق طریقہ سے مال حاصل کرکے گن گن کر کھاتا ہو۔ دیگر آیاتِ قرآنیہ واحادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلقاً مال جمع کرنا گناہ نہیں ہے، بلکہ مال الله تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، جس کے ذریعہ انسان الله تعالیٰ کے حکم سے اپنی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ صرف جائز وحلال طریقہ سے ہی مال کمائے، کیوں کہ کل قیامت کے دن ہر شخص کو مال کے متعلق الله تعالیٰ کوجواب دینا ہو گا کہ کہاں سے کمایا، یعنی وسائل کیا تھے؟ او رکہاں خرچ کیا، یعنی مال سے متعلق حقوق العباد یا حقوق الله میں کوتاہی تو نہیں کی؟ غرض کہ حصولِ مال کے لیے کوشش اورجستجو کرنا، نیز مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال جمع کرنا مذموم نہیں ہے، اگر مال کوجائز وسائل سے حاصل کیا جارہا ہے اور حقوق کی ادائیگی مکمل کی جارہی ہے۔
﴿یَحْسَبُ أَنَّ مَالَہُ أَخْلَدَہُ﴾ مال کی محبت میں وہ اس طرح منہمک ہو گیا کہ وہ آخرت کو بھول گیا اور اس کے اعمال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں گا، حالاں کہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے الله کی ذات کے۔ حکومت الله ہی کی ہے اور اُسی کی طرف ہم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ انسان جہاں بھی ہو گا، ایک نہ ایک دن موت اسے جاپکڑے گی، چاہے وہ مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہا ہو۔ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے، لیکن موت کا وقت او رجگہ سوائے الله کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چناں چہ بعض بچپن میں تو بعض عنفوانِ شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جب کہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تن درست نوجوان سورای پر سوار ہوتے ہیں، لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔ لہٰذا ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیے۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے ۔ غربت آنے سے قبل مال سے ۔بیماری سے قبل سے صحت۔
﴿کَلَّا لَیُنبَذَنَّ فِیْ الْحُطَمَة﴾ ہر گز نہیں! اُس کو تو ایسی جگہ میں پھینکا جائے گا جو چورا چورا کرنے والی ہے۔الْحُطَمَة یہ بھی مبالغہ کا صیغہ ہے، یعنی چوارا چورا کر دینے والی۔ یہ کیا چیز ہے؟ یہ سوال اس کی ہول ناکی بیان کرنے کے لیے ہے کہ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ اس پوری کائنات کے پیدا کرنے والے کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔
جہنم کیا ہے؟الله تعالیٰ فرماتے ہیں : اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور پنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ۔ (سورة التحریم:6) اسی طرح فرمان الہٰی ہے : نہ تو اُن کا کام تمام کیا جائے گا کہ وہ مر ہی جائیں اورنہ اُن سے جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا۔ (سورة فاطر:36) یعنی جہنم میں نہ موت آئے گی اور نہ ہی عذاب کم کیا جائے گا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں مذکور ہے کہ جہنمیوں کی غذا کھولتا ہوا پانی، کانٹوں والا کھانا، گلے میں اٹکنے والا کھانا، زخموں کے دھوون اور پیپ ، پگھلا ہوا تانبا وغیرہ ہیں یعنی انتہائی تکلیف دہ چیزیں ہی جہنمیوں کو کھانے اور پینے کے لیے دی جائیں گی۔ الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :جب ایک دفعہ اُن کی کھال جل چکی ہو گی تو ہم اس کی جگہ دوسری نئی کھال پیدا کر دیں گے، تاکہ عذاب چکھتے ہی رہیں۔ (سورة النساء:56) اسی طرح فرمان الہیٰ ہے: دوزخیوں کو مارنے کے لیے لوہے کے گُرز ( ایک قسم کا ہتھیار) ہیں ، وہ لوگ جب بھی جہنم کی گھٹن سے نکلنا چاہیں گے، پھر اسی میں دھکیل دیے جائیں گے او ران سے کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھتے رہو۔ ( سورة الحج:22-21)
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہنم کو ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اُس کی آگ سرخ ہوگئی۔ پھرایک ہزار سال تک دھونکا تو اُس کی آگ سفید ہوگئی۔ پھر ایک ہزار سال تک دھونکا گیا تو اُس کی آگ سیاہ ہو گئی۔ چناں چہ جہنم اب سیاہ اندھیری والی ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا: جہنمیوں میں سب سے ہلکا عذاب اُس شخص پر ہو گا جس کی دونوں جوتیاں اور تسمے آگ کے ہوں گے، جن کی وجہ سے ہانڈی کی طرح اُس کا دماغ کھولتا ہو گا۔ وہ سمجھے گا کہ مجھے ہی سب سے زیادہ عذاب ہو رہا ہے، حالاں کہ اُس کو سب سے کم عذاب ہو گا۔ (بخاری ومسلم)
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری یہ آگ (جس کو تم جلاتے ہو) دوزخ کے عذاب کا سترواں حصہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ جلانے کو تویہی بہت ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اس کے باوجود دنیا کی آگ سے جہنم کی آگ جلانے میں 69 درجہ بڑھی ہوئی ہے۔ (بخاری ومسلم)
جہنم ایسا موضوع ہے کہ اس موضوع پر سینکڑوں کتابیں تحریر کی گئی ہیں۔ میں نے صرف چند باتیں قرآن کی روشنی میں تحریر کی ہیں۔ انتہائی تکلیفوں کی جگہ جہنم سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنی دنیاوی زندگی الله کے احکام اور نبی کے طریقہ کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں، جیسا کہ شاعر مشرق علامہ اقبال  نے کہا ہے #        عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی        یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
﴿الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْأَفْئِدَةِ ﴾ان مذکورہ گناہوں کے مرتکبین کو ایسی آگ میں ڈالا جائے گا جو دلوں تک جا چڑھے گی۔ ویسے تو آگ کی خاصیت یہی ہے کہ وہ انسان کے اعضاء کو جلا دیتی ہے، لیکن اس آگ کا خاص مزاج یہ ہو گا کہ وہ پہلے اُن دلوں کو پکڑے گی جو مال کی محبت میں آخرت کو بھول گئے تھے۔ انسان کے ذریعہ بنائی گئی نئی ٹکنالوجی کی مدد سے بعض آلات سے، مخصوص کام لیے جاتے ہیں، خالق کائنات نے جہنم میں ایک ایسی خاص آگ بنائی ہے جس کا سب سے پہلا حملہ اُن دلوں پر ہوگا جن میں لوگوں کے لیے بغض وعناد اور مال کی ایسی محبت جگہ کر گئی تھی کہ وہ الله اور اس کے رسول کی اتباع سے مانع بنی۔ بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے کہ دنیا کی آگ جب انسان کے بدن کو لگتی ہے تو دل تک پہنچنے سے قبل ہی انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے، لیکن آخرت میں موت تو آتی نہیں تو وہ دل تک پہنچے گی۔
﴿إِنَّہَا عَلَیْْہِم مُّؤْصَدَةٌ ، فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ﴾ لمبے لمبے ستونوں کا مطلب یہ ہے کہ آگ کے اتنے بڑے بڑے شعلے ہوں گے جیسے ستون ہوتے ہیں اور دوزخی اس میں بند ہوں گے ۔ الله تعالیٰ ہم سب کے لیے جہنم سے نجات کا فیصلہ فرمائے۔
اس سورت میں ہمار ے لیے درس یہ ہے کہ دیگر گناہوں کے ساتھ ہمیں تین گناہوں سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ہُمَز، لمَز اور ناجائز وسائل سے مال جمع کرنا۔ہُمَز اور لمَز کے معتدد معانی ہیں، غیبت کرنا، عیب جوئی کرنا، طعنہ دینا ، برا بھلا کہنا او رکسی شخص کی توہین کرنا وغیرہ۔ چوں کہ ان گناہوں کا تعلق بہ ظاہر حقوق العباد سے ہے، لہٰذا ان گناہوں سے بالکل اجتناب کریں، اپنے کیے ہوئے گناہ پر شرمندہ ہوں اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرکے الله تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ متعلقہ شخص سے پہلی فرصت میں اگر معاملہ صاف کر لیا جائے تو اسی میں دونوں جہاں کی خیروعافیت وعزت وکام یابی پوشیدہ ہے۔