- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

شیخ الحدیث مولانا محمدیوسف حسین پور کی زندگی پر ایک نظر

بلوچستان کے حسینی خاندان کے چشم و چراغ مولانا محمد یوسف حسین پور رحمہ اللہ ولد ’سید محمد کریم‘ ولد ’ملا غلام محمد شہید‘ رحمہم اللہ 1930ء (1349 ھ) کو گشت شہر میں پیدا ہوئے۔ گشت ایرانی بلوچستان کے ضلع سراوان میں واقع ہے۔ کم عمری ہی میں والد کے سایے سے محروم ہوئے اور دو سال کے بعد والدہ بھی داغ فراق دے کر اس فانی سے دنیا کوچ کرگئیں۔
اگرچہ مولانا حسین پورؒ والدین کی نعمت سے محروم تھے، لیکن انہیں ایک مخلص، عالم، فقیہ اور ربانی و حقانی عالم دین چچا کی سرپرستی حاصل تھی؛ مولانا سید عبدالواحد گشتی رحمہ اللہ حضرت موصوف کے عم تھے جنہوں نے مولانا غلام اللہ خان سے پہلے حضرت مولانا حسین علی رحمہم اللہ سے فیض حاصل کیا اور ان کے خلیفہ مجاز بنے۔

تعلیم
شیخ الحدیث علامہ محمدیوسف حسین پورؒ نے چار کلاسیں سکول میں پڑھنے کے بعد سنہ 1358 ھ میں جامعہ عین العلوم گشت میں داخل ہوئے جس کا سنگ بنیاد ان کے چچا جان مولانا عبدالواحد گشتی نے رکھاتھا۔ اسی جامعہ میں ابتدائی دینی تعلیم حاصل کرکے انہوں نے کنزالدقائق اور کافیہ جیسی کتابیں اپنے چچا سے پڑھیں۔
اس کے بعد اپنے چچا اور مربی کی مشورت پر آپؒ پاکستان چلے گئے جو نیا نیا وجود میں آیا تھا۔ سب سے پہلے آپؒ نے ایک سال تک جامعہ دارالہدی ٹیڑی (سندھ) میں تعلیم حاصل کی۔ جب انہیں پتہ چلا دارالعلوم دیوبند کے مشابہ اکابر علمائے کرام نے ٹنڈوالہ یار میں ایک مدرسے کی بنیاد رکھی ہے، آپؒ وہاں تشریف لے گئے جہاں آپ نے تین برس تک اس جامعہ کے بڑے اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ دورہ حدیث کے لیے آپؒ جامعہ قاسم العلوم ملتان تشریف لے گئے جہاں غالبا 1954ءکو آپ نے دورہ حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ ان کے ہم سبقوں میں جو 27 طلبہ تھے، معروف زمانہ ماہر عالم دین مولانا موسی خان بازی رحمہ اللہ بھی شامل تھے۔
مولانا حسین پورؒ نے حدیث میں مزید مہارت و تخصص حاصل کرنے کے لیے جامعہ علوم اسلامیہ (علامہ بنوری ٹاون) کا رخ کیا جہاں آپ نے محدث العصر علامہ محمدیوسف بنوری اور مولانا عبدالرشید نعمانی جیسے اکابر سے استفادہ کیا۔ اسی طرح آپ نے قرآن کی تفسیر کے لیے حافظ القرآن و الحدیث علامہ عبداللہ درخواستی کے سامنے زانوئے تلمذ رکھنے کی سعادت بھی حاصل کی۔
آپ کے مشہور اساتذہ میں مولانا سید عبدالواحد گشتی، مولانا مفتی محمود، مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا بدرعالم میرٹھی، مولانا محمدیوسف بنوری، مولانا عبدالخالق ملتانی، مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی، مولانا عبدالحق نافع، مولانا عبدالعزیز کامل پوری اور مولانا عبدالرشید نعمانی رحمہم اللہ کے اسمائے گرامی آتے ہیں۔

وطن واپسی
مولانا سید عبدالواحد گشتی ’حق آباد‘ بستی ہجرت کرنے سے پہلے اپنے مایہ ناز شاگرد مولانا حسین پورؒ کو خط لکھا کہ فارغ التحصیلی کے بعد وطن واپس آئیں۔ مولانا بنوری ؒ کا اصرار تھا کہ مولانا حسین پورؒ ان ہی کے پاس رہیں، لیکن جب مولانا گشتی کا خط دیکھا تو انہیں وطن جانے کی اجازت دی۔
ایران واپس آنے کے بعد، مولانا سید عبدالواحد گشتی رحمہ اللہ نے جامعہ عین العلوم گشت کی ذمہ داری و اہتمام کو مولانا حسین پور کے حوالے کیا۔ زندگی کے آخری لمحوں تک آپؒ نے بخوبی اس مدرسے کا نظم و ضبط سنبھالا اور ملکی سطح پر اسے ایک عظیم جامعہ کی شکل دی جس سے اب تک ہزاروں تشنگانِ علوم نبوی سیراب ہوچکے ہیں۔ کسی دور میں ایرانی بلوچستان کا واحد ممتاز دینی ادارہ یہی عین العلوم گشت تھا جس میں دورہ حدیث تک کے دروس پڑھائے جاتے تھے۔ جامعہ عین العلوم گشت اب بھی ایرانی اہل سنت کے ممتاز دینی اداروں میں شمار ہوتاہے جہاں سینکڑوں طلبہ و طالبات زیرتعلیم ہیں۔ اس جامعہ کی ایک خصوصیت ‘مجلس علمی‘ ہے جہاں سے درسی و غیردرسی دینی کتابوں کی تالیف و تصنیف یا ترجمہ عمل میں آتاہے۔ معروف دینی و ثقافتی ویب سائٹ ’سنت آنلاین‘ کا دفتر بھی اسی جامعہ میں واقع ہے۔

دینی و سماجی خدمات
ایرانی بلوچستان میں سب سے پہلی تقریب دستاربندی و ختم صحیح بخاری شیخ الحدیث مولانا محمدیوسف حسین پورؒ کی کاوشوں سے 1390ھ کو منعقد ہوئی جہاں وقت کے ممتاز علمائے کرام بشمول مولانا عبدالعزیز ملازادہ، مولانا سید عبدالواحد گشتی، مولانا شہداد سراوانی، مولانا عبدالعزیز ساداتی، مولانا محمدعمر سربازی، مولانا قمرالدین ملازئی، مولانا ابراہیم دامنی اور مولانا نظرمحمد دیدگاہ شریک ہوئے۔ اس کے بعد دیگر دینی مدارس نے اعلی دینی تعلیم کا اہتمام کیا اور ختم صحیح بخاری کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہوا۔
صوبہ سیستان بلوچستان جو ایران کا دوسرا بڑا صوبہ ہے اور اہل سنت کی سب سے بڑی آبادی یہاں رہتی ہے، اس میں دینی مدارس کو انتظام دینا از حد ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت شیخ الحدیث مولانا حسین پورؒ کی محنتوں کی برکت سے ’شورائے ہم آہنگی مدارس اہل سنت‘ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی طرز پر معرض وجود میں آیا۔ حضرت مولاناؒ اپنی وفات تک اس ادارے کے جنرل سکریٹری رہے۔ اس شورا میں ساٹھ سے زائد چھوٹے بڑے مدرسے رکن ہیں۔
مولانا محمدیوسف حسین پورؒ کی دیگر خدمات میں اہل سنت ایران کے سابق دینی و سماجی قائد حضرت مولانا عبدالعزیز رحمہمااللہ کی رفاقت شامل ہے۔ آپؒ سیاسی، سماجی اور سیاسی مسائل میں مولانا عبدالعزیزؒ کے مشیر خاص تھے اور اناسی کے انقلاب کے بعد نئے آئین کی تدوین میں جب مولانا عبدالعزیزؒ قانون ساز مجلس کے رکن تھے، آپؒ بطور مشیر ان کے ساتھ رہے۔ قبائلی تنازعات کے تصفیے میں کلیدی کردار ادا کرنا اور عوام کی بات حکام تک پہنچانا ان کی دیگر خدمات میں شامل ہیں۔ آپؒ نے اس سلسلے میں کوئی مصلحت پسندی کو آڑے نہیں آنے دیا۔

اخلاق و اطوار
شیخ الحدیث مولانا محمدیوسف حسین پور رحمہ اللہ اسلاف کے ایک کامل نمونہ تھے۔ آپؒ کی روزمرہ زندگی تکلف و تصنع سے سخت دور تھی۔ رہن سہن میں سادگی اختیار کرنا اور تواضع و انکساری ان کی خاص صفات تھیں۔ یہاں تک کہ اگر کسی کو بغیر پیشگی تعارف کے ملاقات کی سعادت نصیب ہوتی، وہ ہرگز ان کے ظاہر سے یہ اندازہ نہیں لگاسکتا کہ ’شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف‘ اس شخص کا نام ہے۔ آپؒ کی تواضع کا یہ حال تھا کہ اپنے ذاتی کاموں میں کسی سے مدد نہیں لیتے اور مہمانوں کی تواضع کرنا ذاتی طورپر بخوشی انجام دیتے۔ خود ہی کھیتی باڑی کرتے اور اپنے مدرسہ کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے مساجد کا رخ کرتے تھے۔ جامعہ کے مہتمم و شیخ الحدیث ہونے کے باوجود مدرسہ کے لیے اکٹھے کیے گئے چندوں سے ایک پیسہ بھی اپنے لیے نہیں لیتے۔ اگر کوئی شاندار کار تحفہ میں پیش کرتا، اسے جامعہ ہی کے لیے خاص فرماتے۔
خلافِ شریعت کاموں کی مخالفت میں ان کی آواز بلند تھی۔ جب تک ان کے ساتھ کوئی بات نہ کرتا، آپؒ خاموش رہتے۔ علمائے کرام کا احترام کرتے، اگرچہ ان کے شاگرد ہی کیوں نہ ہوتے۔ تحیة الوضو اور تہجد پڑھنا ان کا معمول تھا۔ ان کے اکثر اوقات تلاوت اور کتب بینی میں گزرتے تھے۔
تدریس میں بھی اللہ تعالی نے انہیں بڑی ہمت عطا فرمائی تھی۔ پیرانہ سالی کے باوجود آپؒ دو گھنٹوں تک مسلسل پڑھاتے تھے اور وہ بھی کسی تکیہ پر ٹیک لگائے بغیر! آپؒ کا درس اتنا عالمانہ ہوتا اور طرز اتنا منفرد کہ سامنے بیٹھنے والوں کو کوئی تکلیف اور تھکاوٹ محسوس نہ ہوتی۔

علمی حیثیت
علمی لحاظ سے آپؒ اعلی پایہ کے محدث و فقیہ سمجھے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ بلوچستان میں انہیں ’استاذ العلما‘ کے لقب سے یادکیاجاتاہے۔ کئی مرتبہ نماز فجر کے بعد قرآن پاک کی تفسیر کا درس بھی ختم کرچکے تھے۔ صحیح بخاری سمیت حدیث اور فقہ و دیگر علوم و فنون کی متعدد کتابوں کی تدریس میں نصف صدی تک مصروف رہے۔ ان کی علمی صلاحیتوں ہی کی وجہ سے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی نے 1430ھ میں ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقدکی جہاں اساتذہ و طلبہ کو ان سے استفادہ کا موقع بھی ملا۔
حضرت شیخ الحدیث نے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متعدد علمی رسائل اور ضخیم کتابوں کو فارسی میں ترجمہ کیا جن میں معارف القرآن (مفتی محمدشفیع عثمانیؒ)، حجة اللہ البالغة (شاہ ولی اللہ ؒ)، سیرت خلفائے راشدین (علامہ عبدالشکور لکھنویؒ)، علوم القرآن (مولانا شمس الحق افغانیؒ)، اسلامہ فقہ میں منشیات و افیون کے احکام (ڈاکٹر عبداللہ بن محمد الطیار) اور انوارالباری شرح صحیح بخاری (علامہ انورشاہ کشمیری) جیسے عظیم اور اہم کتابیں شامل ہیں۔

سانحہ وفات
حضرت شیخ الحدیث امسال حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد بغرض علاج کراچی تشریف لے گئے جہاں نو اکتوبر دوہزار سترہ کو جناح اسپتال میں ان کے دل کا آپریشن ہوا، آپریشن کے تھوڑے ہی بعد حضرت مولاناؒ کی روح اعلی علیین کی طرف پرواز کرگئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بوقت وفات حضرتؒ کی عمر 87 برس تھی۔ اسی رات جامعہ عثمانیہ یوسف گوٹھ میں اساتذہ و طلبہ نے ان پر نماز جنازہ ادا کی اور اگلے دن ان کا جسد خاکی براستہ پنجگور ایران کی طرف منتقل ہوا۔ بدھ گیارہ اکتوبر کو دو لاکھ کے قریب سوگواروں کی موجودی میں شیخ الحدیث مولانا محمدیوسف ؒ کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور جامعہ عین العلوم گشت کے ساتھ واقع قبرستان میں انہیں سپردِ خاک کیا گیا۔