- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں قانون سازی

دنیا کی تاریخ بادشاہوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہے۔ ایک سے ایک قابل اور ایک سے بڑھ کر ایک نا اہل ترین بادشاہوں نے تاریخ میں اپنے نام رقم کیے۔
لیکن گنتی کے چند حکمران گزرے ہیں جو بذات خود قانون ساز تھے اور انہوں نے صرف حکمرانی ہی نہیں کی، بلکہ انسانیت کو جہاں قانون سازی کے طریقے بتائے، وہاں قوانین حکمرانی و جہانبانی بھی بنائے۔ ایسے حکمران انسانیت کا اثاثہ تھے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ثانی انہیں حکمرانوں میں سے ہیں، جنہوں نے عالم انسانیت کو وحی الہی کے مطابق قوانین بنا کردیے اور قانون سازی کے طریقے بھی تعلیم کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ (حضرت) عمر ہوتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو سچ کر دکھایا اور حدود اللہ سے لے کر انتظام سلطنت تک کے شعبوں میں اس طرح قانون سازی کی کہ آج اکیسویں صدی کی دہلیز پر بھی سائنس و ٹیکنالوجی اور علوم و معارف کی دنیا میں آپ رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے قوانین ’’عمر لاز (Umar Law)‘‘ کے ہی نام سے رائج و نافذ ہیں۔
دنیا کے دیگر بادشاہوں نے جو کچھ قانون بنائے، وہ اپنی ذات، نسل، خاندان یا اپنی قوم و ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنائے۔ جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بنائے ہوئے قوانین میں خالصتاً شریعت اسلامیہ کے اصول و مبادی شامل تھے۔ باقی بادشاہوں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قانون سازی میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ باقی بادشاہوں کے قوانین ایک دفعہ بننے کے بعد ان بادشاہوں کی انا کا مسئلہ بن جاتے اور کوئی بادشاہ بھی ان قوانین میں تبدیلی کو اپنی انا و خودی کی تذلیل سمجھتا، جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب بھی اپنی قانون سازی کے برخلاف کوئی نص میسر آتی تو آپ فوراً رجوع کر لیتے اور کبھی بھی انا کے خول میں گرفتار نہ ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کل اسلامی مکاتب فکر میں آپ کے فیصلوں کو قانونی نظیر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قانون سازی کا سب سے پہلا اصول کتاب اللہ سے استفادہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکمرانی میں متعدد گورنروں کو جو خطوط لکھے، ان میں سب سے پہلے قرآن مجید سے استفادہ کا حکم لکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قرآن فہمی کی سب سے عمدہ مثال ایران و عراق کی مفتوحہ زمینوں کے بارے میں آپ کا اجتہادی فیصلہ تھا۔ معروف طریقے کے مطابق ان زمینوں پر مجاہدین کا حق تھا کہ ان میں یہ زمینیں تقسیم کردی جاتیں، لیکن اگر مجاہدین بیلوں کی دم تھام لیتے اور زمینوں کی آباد کاری پر جت جاتے تو دنیا میں اقامت دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے ذریعے شہادت حق کا فریضہ پس پشت چلا جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دور بین نگاہوں نے اس کا حل قرآن مجید کے اندر سورۃ حشر کی آیات میں تلاش کرلیا۔ شریعت اسلامیہ میں کتاب اللہ کے بعد دوسرا ماخذ قانون سنت رسول ہے۔ کم و بیش دس سالہ مدت اقتدار میں متعدد بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث نبوی کے مل جانے پر اپنی رائے سے رجوع کرلیا تھا۔ اطاعت رسول کی اس سے اور عمدہ مثال کوئی نہیں ہوسکتی۔ حضرت سعید بن مسیّب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے ہاتھ کے انگوٹھے کی دیت پندرہ اونٹ مقرر کی تھی، جب کہ باقی انگلیوں کی مقدار دیت اس سے کم تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ انگوٹھا چونکہ زیادہ کا آمد ہوتا ہے، اس لیے اس کی دیت بھی زیادہ ہونی چاہیے لیکن جب عمرو بن حزم کے یہاں سے ایک تحریر دریافت ہوئی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کیا گیا تھا کہ ہر انگلی کی دیت دس اونٹ ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلاچوں و چرا اپنی اجتہادی و قیاسی رائے سے رجوع کرلیا اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مقدمات کے فیصلے جاری فرمائے۔ مشاورت کا طریقہ اجتماع امت تک پہنچنے کا بہترین راستہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں حکومت کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ مشاورت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ کی مشاورت دو وجوہ سے جداگانہ تھیں، ایک تو ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اہل الرائے افراد کو جمع کر کے رائے لی جاتی۔ دوسری اہم ترین خصوصیت یہ تھی کہ خلیفہ وقت خود ایک رائے دہندہ کی حیثیت سے شریک مشورہ ہوتا تھا اور اپنی رائے کے خلاف فیصلے پر بھی تیوری نہ چڑھائی جاتی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ذاتی قیاس و اجتہاد سے بھی قانون سازی کرتے تھے، لیکن اجتہاد کا یہ عمل قرآن و سنت اور اجماع صحابہ کی حدود کے اندر ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذمیوں پر قابل برداشت ٹیکس عائد کیا اور جو ذمی بوڑھا ہوجاتا اور ٹیکس دینے کے قابل نہ رہتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سرکاری بیت المال سے اس کا وظیفہ بھی مقرر فرمادیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اجتہادی رائے تھی جب بھوکے غلاموں نے اونٹنی چوری کرکے کھائی تو ان غلاموں کی حد ساقط کردی اور ان کے آقا سے دو گنا تاوان وصول کیا۔ حدود کا اجراء خالصتاً حاکم وقت کی ذمہ داری ہے، لیکن وسعت سلطنت کے باعث آپ رضی اللہ عنہ نے اجتہاداً یہ اختیار اپنے نائبین کو تفویض کردیا تھا، سوائے ان حدود کے جن کی سزا میں زندگی کا خاتمہ شامل تھا۔ اسی طرح نو مفتوحہ علاقوں میں حدود اللہ کے اجراء کو علم سے مشروط کردیا تھا یعنی حدود سے لاعلم شخص پر حد جاری نہیں کی جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو خط لکھا کہ پہلے حدود اللہ کے بارے میں لوگوں کو بتاؤ اور اس کے بعد اگر کوئی ارتکاب جرم کرتا ہے تو اس پر حد جاری کرو۔ ایک اور واقعہ میں یحیی بن حاطب کی آزاد کردہ لونڈی ’’مرکوش‘‘ لوگوں سے کہتی پھر رہی تھی کہ میں نے زنا کیا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے حضرت عثمان کے مشورے سے کوڑوں کی سزا دی اور رجم نہیں کیا، کیونکہ اسے حد زنا کا علم نہیں تھا۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب کے یہ اصول قانون سازی آج بھی زندہ ہیں اور لوگ آسمان رسالت کے اس چمکتے دمکتے ستارے سے آج بھی روشنی حاصل کر رہی ہے۔