- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔ ایک مثالی اور قابل تقلید حکمراں

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات کی مثال ہستی ہیں جن کا کوئی ثانی اس پوری کائنات میں نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ستائش کا حق ادا کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔
کوئی قلم ایسا نہیں بنا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نورانیت، بشریت، رحمت و شفقت، عدل ، انصاف اور فہم و فراست اور اللہ کی اطاعت و بندگی کی صحیح تصویرکشی کرسکے۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان صفات عالیہ کے علاوہ اور بھی ان گنت فضائل و معجزات سے نوازنے کے ساتھ ایک خصوصی صفت یہ بھی عطا کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ساتھی، ایسے رفیق اور ایسے جاں نثار نفوس عطا کیے جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کا حق ادا کردیا۔ ان رفقائے اعلیٰ کا کردار ایسا مضبوط اور بے مثال تھا کہ خود اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں اس بات کو واضح کردیا کہ: ’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔‘‘ (البینہ ۸)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ انھیں نفوس قدسیہ میں سے ایک عظیم المرتب ہستی ہیں۔ جو خداترسی اور جاہ و جلال کے حامل ایک منفرد مثالی حکمران تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جمادی الثانی ۱۳ھ میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خلافت سے بہت پہلے ہی ’’فاروق‘‘ کے لقب کا اعزاز بخشا تھا۔ آٹھویں پشت پر آپ رضی اللہ عنہ کا نسب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے۔ سیدنا عمر خطاب رضی اللہ عنہ کے دس سالہ دور خلافت میں ایران و روم کی عظیم الشان حکومتیں فتح ہوئیں۔ عراق اور شام پر لشکر کشی کر کے اسلام کا علم لہرایا۔ سرزمین ہند سے لے کر افریقہ کے شمال تک کا علاقہ زیر نگیں آگیا اور اسلام کا پرچم پوری آب و تاب کے ساتھ لہرانے لگا اور پھر فتوحات کا یہ تسلسل مزید وسیع ہوتا گیا۔ جس میں بنیادی وسائل کی فراوانی، ملک میں اعلی سطح کا نظم و ضبط، ظلم و ناانصافی کے خلاف قرار واقعی اقدام، عدل و انصاف کا سکون آمیز انتظام، ملک و ملت کی خوشحالی یہ سب عہد فاروقی کے بے مثال کارہائے نمایاں ہیں۔
اس کرۂ ارض پر جب بھی کسی حکمراں نے کسی ملک یا قوم پر اپنا تسلط قائم کیا ہے تو وہاں کے باشندوں پر بے انتہا ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں، ان کے خون ناحق سے اس ملک کے در و دیوار رنگین کردیے ہیں، لاشوں کے انبار لگادیے اور انسانیت کی دھجیاں بکھیر دیں، مگر مسلمان حکمرانوں کا خاصہ ہے، انھوں نے جب بھی کسی ملک کو فتح کیا تو وہاں انسانیت اور احترام آدمیت پر کوئی داغ لگنے نہیں دیا۔ مسلمانوں کی اس صفت عالیہ کو سیدنا عمر فاروق نے بھی اپنی فتوحات کے دوران پوری طرح قائم رکھا اور مسلمانوں کی رحم دلی اور احترام انسانیت پر آنچ نہیں آنے دی۔ وقت کی بڑی بڑی سلطنتوں کو فتح کرتے وقت بھی خون ناحق کا ایک قطرہ بھی نہیں گرنے دیا۔
سیدنا عمر فاروق کے مناقب میں ایک نمایاں پہلو ملک کی فلاح و بقائے انسانیت کے لیے ترتیب دیا ہوا وہ نظام ہے جس نے انسانیت کو ایک عمدہ نظام حکومت سے روشناس کرایا۔ مذہب کے بنیادی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ نے معاشی، سماجی اور سیاسی سطح پر ایسے قوانین وضع کیے کہ جو عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی بقا و سلامتی کے لیے مثالی قوانین تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے شورائی نظام کو مضبوط کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام کے قائم کردہ شورائی نظام پر ہی اپنی خلافت کی بنا رکھی۔ اس لیے شوریٰ میں کوئی فیصلہ صائب الرائے کے مشوروں کے بغیر طے نہیں پاتا تھا۔
سیدنا عمر فاروق نے اپنے عہد خلافت میں عوا م کے لیے ہر وہ کام کیا جس سے ان کی زندگی کے معمولات میں آسانیاں پیدا ہوں، چناں چہ بیت المال کے محکمہ کا قیام، عدالتوں کا قیام، قاضیوں کا تقرر، جیل خانہ جات اور پولیس کے محکمہ کا قیام بھی پہلی بار آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ سنہ ہجری کی شروعات آپ رضی اللہ عنہ کے دور سے ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ پھر عوام کے مسائل کا درست اندازہ لگانے کے لیے مردم شماری کرائی۔ نہریں کھدوانا، نئے شہروں میں آباد کاری، مقبوضہ ممالک میں صوبوں کی مناسب تقسیم و غیرہ سب آپ رضی اللہ عنہ کے ہی کارہائے نمایاں ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مدح میں یہ فرمایا: ’’بے شک تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جنھوں نے اللہ سے صرف ہم کلامی کا شرف حاصل کیا لیکن وہ نبی نہ ہوئے، میری امت میں اگر کوئی ایسا ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ (صحیح البخاری) ایک اور موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبوت کا مقام پاسکتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے۔‘‘ (مستدرک حاکم)
عمر بن خطاب وہ عظیم المرتبت صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلیفہ راشد ہیں جن کی مثالی پوری اسلامی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’ تقریباً بائیس مقامات ایسے ہیں جہاں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی رائے اللہ تعالی کی منشا کے عین مطابق ہے۔‘‘ سچی بات ہے جو ہستی رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے نتیجے میں اسلام کی سعادت سے سرفراز ہوئی ہو اس کا مقام، مقام عالی ہونا ہی فطرت کا تقاضا ہے۔
بالاخر ابولولو فیروز نامی مجوسی نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کردیا، اس نے فجر کی نماز میں تکبیر تحریمہ کے فوراً بعد زہر میں بجھے خنجر سے آپ رضی اللہ عنہ پر چھ کاری وار کیے، آپ رضی اللہ عنہ زخمی ہوکر گرنے لگے تو پیچھے کھڑے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور اپنی جگہ پر کھڑا کردیا۔ اس طرح نماز عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تین روز زخمی حالت میں رہ کر یکم محرم الحرام ۲۴ھ کو جام شہادت نوش فرمایا، شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۶۳ برس تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!