- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ایران کی سنی برادری صرف اپنے جائز حقوق مانگتی ہے

نامور عالم دین شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے گیارہ اگست دوہزار سترہ کے خطبہ جمعہ میں ’برابری‘ اور ’میرٹوکریسی‘ پر زور دیتے ہوئے کہا ایران کے سنی شہری صرف اپنے جائز اور قانونی حقوق مانگتے ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان میں مسلمانوں کے درمیان مذہبی، مسلکی اور نسلی اختلافات کو ’تکلیف دہ‘ یاد کرتے ہوئے کہا: گزشتہ ہفتہ ترکی میں ایرانی و سعودی وزرائے خارجہ گرمجوشی سے ملے۔ ایسی ملاقاتیں امیدافزا ہیں۔ امید ہے ایران و سعودی حکام اختلاف کے بجائے مذاکرات کی راہ اپنالیں اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر عالم اسلام اور مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے محنت کریں۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارے خیال میں عالم اسلام کے مسائل کا حل بھائی چارہ اور مختلف ملکوں میں لسانی و مسلکی اقلیتوں کے حقوق کی فراہمی سے بآسانی ممکن ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مسلم ممالک میں پیش آنے والے مسائل کی اصل وجوہات تنگ نظری، کوتہ بینی اور مونوپولیسم و اجارہ داری ہیں۔
صوبہ سیستان بلوچستان میں غیرسرکاری دینی مدارس بورڈ کے صدر نے کہا: اقلیتوںکے حقوق پر توجہ دینے سے مشرق وسطی کے مسائل کا حل آسان ہوگا۔ ہمارے خیال میں اگر یمن میں حوثیوں کے حقوق پر سابقہ حکومت میں توجہ دی جاتی اور انہیں تسلیم کرکے کابینہ میں شامل کیا جاتا، آج یمن کی صورتحال مختلف ہوتی۔ عراق میں سابق آمر حکومت نے شیعہ اقلیت کو نظرانداز کیا تو بحرانی کیفیت پیدا ہوئی اور امریکی یلغار کے بعد برسرِ کار حکومت نے غلطی کرکے سنی برادری کو نظرانداز کیا۔ نتیجے میں وہاں شدت پسندی و عسکریت پسندی کو فروغ ملا اور اب عراق اتنی بڑی مصیبت میں پڑچکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: عالم اسلام کے تمام بحرانوں کی اصل وجوہات معلوم کرنی چاہیے۔ اگر فیصلہ ساز ادارے تحقیق کریں انہیں معلوم ہوگا یمن، شام، عراق، لیبیا اور بحرین کے مسائل کسی نہ کسی برادری کے حقوق کو نظرانداز کرنے سے پیدا ہوئے ہیں۔

نائب وزرا اور صوبائی گورنرز کے انتخاب میں اہل سنت سے کام لیا جائے
نئی کابینہ میں اہل سنت کو نظرانداز کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: امید تھی اڑتیس سالوں تک اعلی حکومتی مناصب سے محرومیت کے بعد نئی حکومت اپنی کابینہ میں اہل سنت کو شامل کرے گی۔ افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: سوال یہ ہے کہ اگر آئین نے اہل سنت کو صدارت سے منع کیا ہے، تو وزارت اور گورنرشپ جیسے عہدے ان کے لیے شجرہ ممنوعہ نہیں ہیں؛ پھر کیوں انہیں نائب وزیر یا گورنر سمیت دیگر اعلی حکومتی عہدوں سے دور رکھا جاتاہے؟ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ کم از کم چند وزیر اہل سنت سے منتخب ہونا چاہیے جو ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں۔

مسلح اداروں اور عدلیہ میں اہل سنت کو شامل کیا جائے
بطور خاص مسلح اداروں اور عدلیہ سے اہل سنت کو نظرانداز کرنے پر تنقید کرتے ہوئے صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: افسوس کی بات ہے کہ مسلح اداروں میں معمولی سپاہی کے علاوہ کسی اہل سنت کو ان اداروں میں ملازمت نہیں دی جاتی ہے۔ لوگ اتحاد کے نعروں سے تھک چکے ہیں اور کہتے ہیں نعرے لگانے کے بجائے کچھ عمل کریں۔
انہوں نے مزید کہا: حیرت کی بات ہے کہ حکام شہادت کو بھی سنی برادری سے دریغ کرتے ہیں اور انہیں اپنے ملک کے دفاع اور امن کی حفاظت کا موقع نہیں دیتے ہیں۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: ہم جج حضرات کے لیے نیک دعائیں کرتے ہیں، لیکن عدلیہ جیسے اہم ادارے میں اہل سنت کا کوٹہ انتہائی کم ہے۔ جس طرح شہید بہشتی نے کہا ہے، ہم طاقت کے پیاسے نہیں ہیں، بلکہ خدمت کے شوقین ہیں اور اپنے دیگر ہم وطنوں کے شانہ بہ شانہ اپنے وطن کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم نے اپنی سچائی و بھائی چارہ کو ثابت کیا ہے اور انتہاپسندوں کے سامنے ڈٹ چکے ہیں، یہاں تک کہ کئی مرتبہ مجھے دھمکیاں دی گئی ہیں کہ ہم ان کی راہ کے سامنے رکاوٹ ہیں۔ ہم ان دھمکیوں کو قبول کرتے ہیں، لیکن اپنی قومی سلامتی پر حرف نہیں آنے دیتے ہیں۔ ملک کی عزت عملی اتحاد میں ہے۔

تقریب حلف برداری میں اہل سنت کی غیرحاضری سے شیعہ وسنی غمزدہ ہوئے
اپنے بیان کے ایک حصے میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے صدر روحانی کی دوسری تقریب حلف برداری میں اہل سنت کی غیرحاضری پر ایران کی شیعہ و سنی برادریوں میں پائی جانے والی تشویش کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: تقریب حلف برداری میں اہل سنت ایران بحیث دوسری بڑی اکثریت غیرحاضر تھی، اس سے عوام وخواص پریشان ہوئے۔ اس بارے میں گفتگو بندہ کے لیے مشکل ہے، لیکن یہ میری بات نہیں ہے بلکہ بہت سارے شیعہ و سنی ہم وطنوں میں تشویش پیدا ہوچکی ہے اور اس پر وہ شکوہ کررہے ہیں۔
انہوں نے مختلف حلقوں کی جانب سے ہمدردی کے پیغامات اورسنی برادری سے یکجہتی کے اظہار پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ہم نے اپنے وعدے پورے کیے اور اب بھی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں توقع ہے کہ حکومت بھی اپنے وعدوں پر جامہ عمل پہنائے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: صدر اسلام میں مسلمانوں میں مثالی اتحاد قائم تھا اور اس کی وجہ نبی کریم ﷺ کی یکساں نگاہ اور رویہ تھی کہ کسی بھی نسل، رنگ اور قوم میں فرق قائل نہیں ہوتے تھے؛ ذمہ داریوں کو مدینہ منورہ میں مہاجرین و انصار کے درمیان تقسیم فرمائی۔ سلمان فارسی جو واحد ایرانی اور فارسی بولنے والے صحابی تھے، ان کے سر پر دست شفقت رکھ کر انہیں اپنے اہل بیت میں شمار فرمایا۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارے مطالبات سب قانونی اور منطقی ہیں جو ایران اور حکومت کے مفاد میں ہیں۔ اگر کوئی منطقی انداز میں ہمیں قانع کرسکے کہ ہمارے مطالبات غیرمنطقی ہیں اور زیادہ طلبی کے مصداق ہیں، ہم اس کے ہاتھ چوم کر اپنے مطالبات سے دستبردار ہوجائیں گے۔
اپنے خطاب کے آخر میں مولانا عبدالحمید نے مرشد اعلی سمیت تمام اعلی حکام سے مطالبہ کیا انتہاپسندوں کو امور مملکت میں مداخلت کی اجازت نہ دیں جو قوم کی بھلائی نہیں چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا: ہم سب کو اسلام اور اپنے ملک کے مفادات کا خیال رکھنا چاہیے بلکہ پوری انسانیت کے فلاح و مفاد کو مدنظر رکھیں۔ جب اسلام محفوظ ہو، شیعہ و سنی دونوں محفوظ رہیں گے ورنہ دونوں ختم ہوجائیں گے۔ ہماری سوچ قومی ہونی چاہیے، لسانی و مسلکی عینک کو اتاریں۔