- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

ناخن کاٹنے کی ترتیب کی حیثیت

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
ناخن کاٹنے کا مشہور طریقہ جو بعض کتابوں میں لکھا ہے: ’’سیدھے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کرکے ترتیب وار چھنگلیاں سمیت تراشیں، مگر انگوٹھا چھوڑدیں، اب اُلٹے ہاتھ کی چھنگلیاں سے شروع کرکے تریتب وار انگوٹھے سمیت ناخن تراش لیں، اب آخر میں سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا جو باقی تھا، اس کا ناخن بھی کاٹ لیں، اس طرح سیدھے ہاتھ سے شروع ہوکر سیدھے ہاتھ پر ختم ہوگا۔‘‘ کیا یہ طریقہ مسنون ہے؟

الجواب حامداً و مصلیاً
واضح رہے کہ ہاتھوں اور پیروں کے ناخن کاٹنے کی ترتیب اور طریقہ کے بارے میں کوئی بھی صحیح روایت موجود نہیں ہے، البتہ اتنی بات ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں طرف سے ابتداء کرنے صحیح روایت موجود نہیں ہے، البتہ اتنی بات ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں طرف سے ابتداء کرنے کو پسند فرماتے تھے۔
بعض فقہاء مذکورہ ترتیب کے مطابق ناخن کاٹنے کو اولیٰ اور بہتر کہتے ہیں، چنانچہ مذکورہ طریقے کے بارے میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہاتھ کے ناخن اس ترتیب سے کتروانا بہتر ہے، دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے شروع کرے اور چھنگلیاں تک بہ ترتیب کتروا کر پھر بائیں چھنگلیاں پھر بہ ترتیب کٹوادے اور دائیں انگوٹھے پر ختم کرے اور پیر کی انگلیوں میں دائیں چھنگلیاں سے شروع کرکے بائیں چھنگلیاں پر ختم کرے، یہ ترتیب بہتر ہے اور اولیٰ ہے، اس کے خلاف بھی درست ہے۔‘‘
(بہشتی گوہر، حصہ یازدہم، ص: ۸۳۰، ط: دارالاشاعت)

’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’قلت: و فی المواھب اللدنیۃ قال الحافظ ابن حجر: انہ یستحب کیفما احتاج الیہ و لم یثبت فی کیفیتہ شیء و لا فی تعیین یوم لہ عن النبی ﷺ و ما یعزی من النظم فی ذلک للامام علی ثم لابن حجر قال شیخنا: انہ باطل۔‘‘
(ج: ۶، ص: ۴۰۶، ط: سعید)

’’حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح‘‘ میں ہے:
’’لکن أنکر الھیءۃ المذکورۃ ابن دقیق العید، فقال: کل ذلک لا أصل لہ و احداث استحباب لا دلیل علیہ و قبیح عندی بالعالم نعم البداء ۃ بیمنی الیدین و یمنی الرجلین لھا أصل و ھو أنہٗ ﷺ کان یعجبہ التیامن فی طھورہٖ و ترجلہٖ و فی شانہ کلہ متفق علیہ و کذا تقدیم الیدین علی الرجلین قیاساً علی الوضوء و مایعزی لعلی و غیرہ باطل۔‘‘
(ج: ۱، ص: ۵۲۵، ط: دارالکتب العلمیہ)
فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح: ابوبکر سعید الرحمن
الجواب صحیح: محمد شفیق عارف
کتبہ: ذبیح اللہ اختر، تخصصِ فقہ اسلامی