- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

میری بیٹی کی شادی

بچیو! میری کوئی حقیقی بیٹی تو ہے نہیں، جب بنات نمبر آیا تھا تو اس وقت میں سوچنے لگی تھی کہ کیا لکھوں؟ اسی سوچ میں گم تھی کہ کالج کی زندگی کے ۳۴ برس چمکتے ہوئے نظر آنے لگے۔
جب ہزاروں بچیوں سے اسمبلی کے وقت میری ملاقات ہوتی تھی۔ ان بچیوں میں سے میری کلاسوں کی طالبات اخلاص و محبت کا پیکر بنی مجھے اپنی طرف متوجہ کررہی تھیں۔ انہیں بیٹیوں میں سے ایک قابل فخر بیٹی نصرت بانو بھی تھی۔ آج خیال آیا کہ اس کے بارے میں کچھ لکھوں، خصوصاً اس کی شادی کے احوال لکھوں تا کہ پڑھنے والی بچیوں کو فائدہ ہو۔
نصرت بانو شوکت، سرسید کالج کی طلبہ تھی۔ اس کے پاس تاریخ اسلام کا مضمون نہیں تھا، لیکن میں سیرت طیبہ کی جو کلاس لیتی تھی اس میں ہر مضمون کی طالبان بڑے ذوق و شوق سے آتی تھیں۔ نصرت ایک ایسی طالبہ تھی جس کے دل میں اللہ تعالی اور حضور اقدس کی محبت بے پناہ تھی۔ کلاس میں اکثر طالبات سوال کرتی تھیں، ان میں نصرت کا نمبر سرِ فہرست ہوتا تھا۔ میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ بچیوں کو قرآن و سنت کے مطابق بالکل صحیح، نرمی اور محبت سے جواب دوں تا کہ کبھی بھی کسی بچی کی دل آزاری نہ ہو۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن سیرت طیبہ کی کلاس میں ایک بچی نے مجھ سے پوچھا:
’’مس! آپ کی کوئی بیٹی نہیں ہے؟‘‘
میں نے جواب دیا: ’’کیا تم سب میری بیٹیاں نہیں ہو؟‘‘
اسی وقت نصرت اپنی نشست سے اٹھی اور کہنے لگی:
’’مس تو ہم سب کو اپنی بیٹیاں سمجھتی ہیں۔‘‘
اس لڑکی نے معذرت کی تو میں نے بچی کو قریب بلا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنے گلے سے لگالیا۔ بچی شدت محبت سے رونے لگی۔ تمام طالبات کی آنکھوں میں محبت کے آنسو جھلملانے لگے۔ نصرت اپنی نشست سے کھڑی ہوئی اور کہنے لگی۔ ’’مس! اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے مدرسے میں تجوید سیکھنے کے لیے آجایا کروں؟ میری دیرینہ خواہش ہے کہ میں آپ سے تجوید پڑھوں اور پھر ترجمہ و تفسیر پڑھوں۔‘‘
میں نے اسے شوق سے اپنے غریب خانے پر آنے کی اجازت دے دی۔ نصرت کے دل میں دین کا علم سیکھنے کا جذبہ بیدار ہوگیا تھا۔ وہ اسی دن مدرسے آگئی۔ نصرت کو تجوید سیکھنے میں کچھ دشواری کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے بہت محنت کی۔ اس وقت ترجمہ و تفسیر کی نئی کلاس شروع ہورہی تھی۔ اس میں بھی بہت شوق سے نصرت نے داخلہ لے لیا۔ ماشاء الہ وہ مدرسے میں بیٹھ کر ہی ترجمہ یاد کرتی تھی اور دوسرے دن مجھے آکر فرفر سنا دیتی تھی۔ اپنے گھر پر اس نے کئی مرتبہ سیرت طیبہ کے بیانات رکھوائے۔ نصرت کے والدین بہت سیدھے اور سچے مسلمان ہیں۔ اُن دونوں کو نصرت کی دینی تعلیم سے بڑی خوشی ہوئی تھی۔ نصرت کے بھائی، بہنیں، بھاوجیں بھی نصرت سے بہت خوش تھیں کیونکہ نصرت مدرسہ آنے سے پہلے گھر کے کام کاج اپنی بھابیوں کے ساتھ مل کر کرلیتی تھی اب نصرت کو کالج نہیں جانا پڑتا تھا۔ کیوں کہ اس نے بارہویں کلاس کے پیپر دے کر فراغت حاصل کرلی تھی۔ اس کی تمام تر توجہ دین کی تعلیم کی طرف تھی ۔ مدرسے کی دیگر طالبات کی طرح نصرت نے بھی مجھے باجی کہنا شروع کردیا تھا۔
میرا بیٹا احمد نعمان فاضلی انیس برس کی عمر میں ایم کا م کا امتحان دے کر اپنے شوق اور میری اجازت سے جہاں فی سبیل اللہ میں حصہ لینے کے لیے افغانستان کی طرف روانہ ہوگیا تھا۔ اللہ کی شان اور قدرت ہے کہ وہ جس کو جو چاہے درجہ عطا فرمادیتا ہے۔ تین ماہ کے بعد نعمان کی طرف سے خاموشی چھاگئی، مگر یہ میرے مہربان آقا کی میرے اوپر خاص نظر تھی کہ میں بہت مطمئن تھی۔ ۲۰۰۰ء میں خالق کائنات نے میرے اوپر اپان خصوصی کرم فرمایا اور چار مہینے کی مختصر مدت میں، میں نے ’’مجاہد تم کہاں ہو؟‘‘ لکھی پھر جب پروف خوانی کا وقت آیا تو نصرت نے مجھ سے کہا: ’’باجی! میں اپنے ابو سے اجازت لے لوں گی تا کہ میں آپ کے ساتھ ’مجاہد تم کہاں ہو؟‘ کے سلسلے میں آپ کے ساتھ مل کر پروف خوانی کرسکوں۔‘‘ واقعی! نصرت کے والد صاحب نے اُسے کھلے دل سے اجازت دے دی۔ نصرت نے ’مجاہد تم کہاں ہو؟‘ کے سلسلے میں بڑی محنت کی اور میرے ساتھ پروف خوانی کا فرض بڑے جذبے اور شوق سے ادا کیا۔ اور جب اپریل ۲۰۰۰ء میں ’مجاہد تم کہاں ہو؟‘ کی رونمائی ہوئی تو نصرت کی خوشی دیدنی تھی پھر ’’شعاعیں نور کی ‘‘ (مضامیں کی کتاب) اور حیات دوام حصہ اول میں نصرت نے اتنی محنت کی کہ اپنی محبت کا حق ادا کردیا۔
یہ وہ دن تھے جب اس کے گھر میں اُس کی شادی کی بات چیت چل رہی تھی۔ میں ہر روز دعا مانگتی تھی کہ اے رب! جیسی میری بچی نیک ہے ایسا ہی اُسے شوہر عطا فرمانا۔ اللہ تعالی کے حضور میری دعائیں قبول ہوگئیں اور ایک باعمل حافظ قرآن کا رشتہ اُسے کے لیے آیا۔ اس کے والد اور بھائیوں نے معلومات کی تو پتا چلا کہ بہت اچھا خاندان ہے۔ استخارہ کے بعد حافظ سلیم سے نصرت کا رشتہ طے پاگیا۔ نصرت بڑی شرم و حیا والی بچی ہے لیکن اُسے نے بڑے ادب سے اپنی والدہ سے کہا۔ امی میری شادی سنت کے مطابق کرنا، شادی سے پہلے ایک بیان ہمارے غریب خانے پر رکھوانا تا کہ باججی سب کو بتاکسیں کہ شادی کس طرح کرنی چاہیے اور امی میری شادی میں کسی طرح کی رسم نہ کرنا۔ آپ ہر کام میں باجی سے مشورہ لینا۔ وہ آپ کو قرآن و سنت کے مطابق ہر، ہر بات تفصیل سے بتادیں گی۔ وہ بڑا یادگار دن تھا جب نصرت میرے گلے لگ کر رونے لگی۔ میں نے کہا: ’’بیٹی یہ تو خوشی کا موقع ہے۔ تم کیوں رو رہی ہو؟‘‘ نصرت نے اپنے رونے پر قابو پایا اور کہنے لگی: ’’ باجی! میں نے شکرانے کے نفل پڑھ کر اللہ تعالی کی خوب حمد و ثنا بیان کی۔ کیوں کہ اس مہربان رب نے آپ کی دعائیں سن لیں، مگر مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں حیات دوام حصہ دوم میں آپ کا ہاتھ نہیں بٹا سکوں گی میں اُس کی بھی پروف خوانی کرنا چاہتی تھی۔‘‘ میں نے کہا: ’’میری بچی! تم اللہ سے دعا کرنا وہ مجھے تمہارا نعم البدل عطا فرمادے۔‘‘ اللہ کی بارگاہ میں نصرت بانو کی دعائیں مستجاب ہوگئیں اور اللہ تعالی نے میری ایک اور شاگردہ حافظہ مدیحہ نور کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ اس نے حیات دوام حصہ دوم، خیرالوریٰ اور بناتِ رسول کی پروف خوانی میں میری مدد کی۔ اللہ تعالی اُس بچی کو بھی قدم قدم پر نواز ے اور دین و دنیا میں اُس سے راضی ہوجائے۔ آمین
نصرت بانو کی والدہ خود میرے غریب خانے پر آئیں اور شادی کے سلسلے میں ہر بات میں مشورہ لیا۔ کہنے لگیں: ’’نصرت نے مایوں اور مہندہ کو بھی منع کیا ہے۔ آپ ذرا غور کریں، ہمارے برادری والے کتنی باتیں بنائیں گے۔‘‘ میں نے کہا: ’’آپ صرف ایک سیرت طیبہ کا بیان اپنے گھر پر رکھیں اور اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ مجھے اپنے کرم سے ایسا نوازے کہ جب میں رسومات کے خلاف بیان کروں تو آپ کی رشتہ دار عورتوں کے دل میں میری بات اتر جائے۔‘‘
اللہ نے وہ دن دکھایا کہ نصرت کے گھر میں خوب رونق ہورہی تھی۔ تمام رشتے دار خواتین جمع تھیں۔ نصرت نے سفید رنگ کے بڑے خوبصورت کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ کئی خواتیں بولیں کہ بچی کو پیلا جوڑا پہناؤ۔ نصرت کی والدہ کہنے لگیں: ’’پہلے بیان ہوگا پھر دعا ہوگی پھر جوڑے کے سلسلے میں بات ہوگی۔‘‘ نصرت میری کرسی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے خطبہ پڑھا، پھر نصرت سے تلاوت کروائی۔ ایک دو خواتین کہنے لگیں: ’’کیسا زمانہ آگیا ہے کہ اب لڑکیاں اپنی مایوں میں خود تلاوت کررہی ہیں۔‘‘ میں قرآن کے احترام میں خاموز بیٹھی تھی، جب نصرت نے تلاوت ختم کی تو میں نے آلہ نشر الصوت (مائیک) پر نصرت کو دعائیں دیں اور کہا: ’’بیٹی! اللہ کا شکر ہے کہ آج کا پروگرام جو تمہاری شادی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اللہ نے اس پروگرام میں تمہیں تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائی، اگر تم اپنی شادی کے پروگرام میں گانا سناتیں تو شیطان بہت خوش ہوتا۔ وہ خواتین جنہوں نے تلاوت کرنے پر باتیں بنائی تھیں بالکل خاموش ہوگئیں۔۔۔ پھر میں نے آقائے مدنی کی چاروں صاحبزادیوں کی شادیوں کاتذکرہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ لڑکے یا لڑکی کی شادی کا سنت طریقہ کیا ہے۔ ہم صدیوں تک ہندوؤں کے ساتھ رہے تو اپنی نادانی میں ان کی تمام رسومات ہم نے اپنالیں۔ اسلام میں مہندی اور مایوں جیسی کوئی رسم نہیں ہے اور نہ ہی ان خرافات اور رسموں کی ہمارے دین میں گنجائش ہے۔ میں نصرت کے والدین، اُسے کے بھائیوں، بھابھیوں اور اُسے کی بہنوں کو مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ اللہ تعالی نے آپ کے خاندان میں ایک ایسی بچی عطا فرمائی جس نے تمام فرسودہ رسم و رواج کو جڑ سے نکال کر پھینک دیا۔ براہ کرم آپ سب زندگی کے کسی موڑ پر اس بچی کو طنز کا نشانہ مت بنائیے گا، یہ بچی آپ کی محبت کی مستحق ہے۔‘‘
میری باتیں سن کر مدرسے کے تمام طالبات کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ نصرت بھی اپنا سر نیچے کیے بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر گہرا اطمینان اور خوشی صاف نظر آرہی تھی۔ بچیوں نے حمد و نعت سنانے کی فرمائش کی۔ میں نے اپنی بچیوں کی خوشی فوراً پوری کی۔ میری آواز صرف نصرت کے ہال اور دوسرے کمرے تک جارہی تھی۔ میں نے پہلے ہی ایک بچی کو گھر کے دروازے پر پہنچ کر آواز سننے کے لیے کہا تھا۔ بچی نے مجھے جواب دیا کہ وہاں تک آواز بالکل نہیں آرہی ۔ پھر بچیوں نے ایک جہادی نظم سنانے کے لیے کہا۔ جہادی نظم سناتے سناتے میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے پھر سیرت طیبہ پر میں نے بیان کیا۔ خواتین کے مجمع پر میں نے نظر کی تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کے لیے بڑی آسان زبان استعمال کرنی پڑے گی۔ میں پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روزمرہ کی سنتوں کا تذکرہ کیا۔ پھر سنتوں پر عمل کرنے پر خیرِ کثیر کا تذکرہ بھی کیا۔ وہی خواتین جو بیان سے پہلے خوب ایک دوسرے سے باتیں کررہی تھیں۔ اب بڑے شوق اور دلچسپی سے سیرت طیبہ پر بیان سن رہی تھیں۔ پروگرام کے آخر میں، میں نے کہا کہ نہ یہاں سے مہندی دولہا کے گھر جائے گی اور نہ وہاں سے مہندی یہاں آئے گی۔ مہندی دلہن کے ہاتھ پیروں میں شوق سے لگائیں بس رسم نہ بنائیں۔
بیان کے آخر میں، میں دعاء کی، کچھ قدرتی طور پر دل ایسا بھر آیا انتہائی عمدہ دعا ہوگئی۔ نصرت اور دونوں کے گھر والوں کے لیے بھی خوب دعائیں کیں۔ دعا کے اختتام پر نصرت کی والدہ میرے لگے لگ کر رونے لگیں اور کہنے لگیں: ’’آپ نے تو ہمارے آنکھیں کھول دیں، ہم تو غفلت کی نیند سو رہے تھے۔‘‘ میں نے ان کو جواب دیا: ’’یہ سب اللہ کی مہربانی ہے۔‘‘ نصرت اور بچیوں نے مل کر خواتین کی ضیافت کی۔ نصرت نے فرمائش کرکے دہلی والا سوجی کا حلوہ مجھ سے بنوایا تھا۔ جب خواتیں چلی گئیں تو نصرت کہنے لگی: ’’باجی! آپ کو اور مدرسے کی تمام طالبات کو میری شادی میں ضرور آنا ہے۔ آپ کے آنے سے میری ہمت بڑھ جائے گی۔ باجی! بھائی کہہ رہے تھے کہ مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ شامیانے لگیں گے اور بھائی نے شامیانے والے سے کہا ہے کہ خواتین کے شامیانے میں ایک طرف پچاس نشستوں والا شامیانہ اور لگادینا تا کہ بے پردگی کا بالکل بھی احتمال نہ رہے اور باجی! بھائی کہہ رہے تھے کہ نصرت کو اسٹیج پر نہیں بٹھائیں گے۔ یہ مدرسے کی بچیوں کے ساتھ باجی والے شامیانے میں رہے گی۔‘‘ نصرت کی باتیں سن کر میں بہت خوش ہوئی۔ نصرت نے ہم سب کو گاڑی کے ذریعے ہمارے خانے تک پہنچادیا دوسرے دن نصرت کا فون آیا۔ سلام کے بعد مجھ سے کہنے لگی: ’’باجی! ایک اور خوشخبری سناؤں؟‘‘
میں نے کہا: ’’ضرور سناؤ۔‘‘
کہنے لگی: ’’باجی ! میری ہونے والی ساس کا امی کے پاس فون آیا تھا کہ میرے بیٹے نے کہاہے کہ امی میری ہونے والی سسرال میں فون کردو۔ کہ ہم بھی شریعت کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے۔ ہم باجے تاشے اور ڈھول ڈھپال استعمال نہیں کریں گے۔‘‘ میں نے نصرت کی بات سن کر الحمدللہ کہا۔
آخر وہ دن بھی آگیا جب نصرت نے گاڑی بھیج کر مجھے اور میری والدہ کو انو بھائی پارک میں بلوایا۔ ہم شامیانہ کے پاس اُتر کر عورتوں کے شامیانے میں داخل ہوئے۔ پھر میری نظر ایک خوبصورت سے گول شامیانے پر پڑی، نصرت کی بہن نے وہاں تک ہمارے رہنمائی کی۔ میں نے شامیانے میں داخل ہوکر دیکھا تو مدرسے کی تمام طالبات اپنی ماؤں یا بہنوں کے ہمراہ آئی بیٹھی تھیں۔ نصرت کو ایک کرسی پر بٹھا رکھا تھا۔ میں نے سب کو سلام کیا اور پھر نصرت کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کو خوب دعائیں دیں۔ دلہن بن کر نصرت پر نور اتر آیا تھا کچھ ہی دیر بعد نصرت کی بہت شامیانے میں داخل ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ آپ سب پردہ کرلیں۔ دستخط کے لیے گواہ اور وکیل آرہے ہیں، ہم سب نے پردہ کرلیا جو مرد آئے وہ بہت دین دار لگ رہے تھے۔ کیونکہ سب کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ (یہ بات میرے مدرسے کی ایک چھوٹی سے طالبہ نے مجھے بتائی)
الحمدللہ خیر و عافیت سے نکاح ہوگیا۔ تمام بچیوں نے اور ان کی ماؤں نے نصرت کو مبارکبادی دی۔ جب میں اسے مبارک باد دینے کے لیے کھڑی ہوئی تو نصرت کی غصے میں بھری ہوئی آواز مجھے سنائی دی وہ اپنی بہن سے کہہ رہی تھی۔ ’’مجھے اپنے شامیانے کے گیٹ پر کیمرے کی روشنی نظر آئی ہے، اس کو جا کر سختی سے منع کردیں دیکھیں کہ یہ کون ہے اور کس کی اجازت سے یہاں آیا ہے؟ یہاں کسی کو بھی تصویر کھنچوانے کا شوق نہیں ہے۔‘‘
اس کی بہن نے کسی بزرگ خاتون کو بھیج کر یہ معاملہ رفع دفع کیا پھر نصرت کی بہت نے اپنی رشتے دار لڑکیوں کے ساتھ مل کر کھانا لگایا۔ میں نے پہلے نصرت کو مبارک باد دی پر اپنے ساتھ اسے کھانا کھلایا۔ تقریباً گیارہ بجے تک اس کی ساس، نندیں اورجٹھانیاں ہم لوگوں سے ملنے آئیں اور بہت خوشی کا اظہار کیا۔ اس کی ساس مجھے بہت دعائیں دینے لگیں اور پھر بولیں اب آپ اپنی ہاتھ میں بچی کا ہاتھ لے کر مجھے پکڑدایں۔ میں نے ایسا ہی کیا اور ان سے کہا کہ آج سے یہ آپ کی بیٹی ہے اور پھر میں نے نصرت سے کہا، نصرت آج سے یہ تمہاری ماں ہیں۔
نصرت نے کہا: ’’باجی! آپ بے فکر رہیں۔ آپ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ میری اسلامی انداز میں تربیت کی ہے۔ میں امی جان کی اور آپ کی تربیت پر ایک حرف غلط بھی نہیں آنے دوں گی۔‘‘ بچیوں نے نصرت کا عبایا، چادر اور نقاب اُٹھا کر اُسے دی اور اس کی والدہ محترمہ نے اور میں نے نصرت کو اللہ کے سپرد کیا۔ ہم سب بھی برقعے اوڑھ چکے تھے۔ نصرت کہنے لگی: ’’باجی! بڑے شامیانے کے باہر گاڑیاں کھڑی ہیں۔چونکہ کافی وقت ہوگیا ہے، اس لیے گاڑیاں مدرسے کی تمام طالبات اور اُن کی بہنوں اور ماؤں کو ان کے گھر تک چھوڑدیں گی۔ ایک گاڑی آپ کو اور آپا کو چھوڑدے گی۔‘‘ بعد میں مجھے کسی نہ کسی ذریعے سے پتا چلتا رہا کہ شوہر کے ساتھ ساتھ نصرت اپنی ساس اور سسر کا بھی بہت خیال رکھتی ہے۔ اس نے اپنی بہترین سیرت سے اپنے گھر کو جنت نظیر بنالیا ہے۔ نصرت اب ماشاء اللہ چار بچوں کی ماں بن چکی ہے۔ اپنے گھر میں بہت مطمئن زندگی گزار رہی ہے اکثر و بیشتر مجھ سے ملنے آتی رہتی ہے۔ اللہ تعالی نصرت کو اپنا گھر والوں سمیت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر گامزن رکھے۔
میری دعا ہے کہ تمام لڑکے اور لڑکیاں سیرت رسول کے ذریعے اپنے گھر اور اپنے دلوں کو روشن کرلیں۔ اور یہ روشنی ان کے ساتھ مرتے دم تک قائم رہے آمین۔ میں نے نصرت بانو شوکت کے لیے دو قطعات لکھے تھے جو آج یہاں تحریر کررہی ہوں۔

پیاری نصرت رب عالم تم کو رکھے خوش سدا
گلشن دنیا میں تم پھولو پھلو شام و سحر
راہ حق پر مسکراتی جھومتی چلتی رہو
تا ابد دیکھے زمانہ ان دعاؤں کا اثر
جب چلے گی جھوم کے گلشن میں خود بادِ بہار
گلشن شوکت علی کی ہر کلی کھل جائے گی
حفظ قرآں کی سعادت نور ایمانی کے ساتھ
کچھ ریاضت کی تو ان کی واقعی مل جائے گی