- سنی آن لائن - http://sunnionline.us/urdu -

اللہ تعالی نے مسلم امہ کو دنیا کی قیادت کی صلاحیت عطا فرمائی ہے

مولانا مفتی محمدقاسم قاسمی نے زاہدان کے چار اگست خطبہ جمعہ میں مسلم امہ کے عظیم الشان مقام اور انسانی معاشرے کے حوالے سے اس امت کی ذمہ داری پر روشنی ڈالتے ہوئے دنیا کی قیادت کے لیے مسلم امہ کی صلاحیتوں کی نشاندہی کی۔

سنی آن لائن کی رپورٹ کے مطابق، استاذ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے اپنے بیان کا آغاز قرآنی آیت: «كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ» [آل عمران: 110]، کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی نے انسان کو خاص کرامات و اعزازات سے نوازا ہے؛ اسے اشرف المخلوقات قرار دے کر ’عقل‘ کی نعمت سے ممتاز قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا: اللہ تعالی نے مسلمانوں کو انسانیت اور ہدایت کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ کے امتی ہونے کا اعزاز بھی عطا فرمایاہے۔ تمام انبیا علیہم السلام کی تمنا تھی کہ ان کا شمار خاتم النبیین ﷺ کی امت میں ہو۔

صدر دارالافتا دارالعلوم زاہدان نے کہا: اللہ رب العزت نے مسلم امہ پر خصوصی فضل فرماتے ہوئے ’دعوت الی اللہ‘ میں اس امت کے ہر فرد کو نبی کریم ﷺ کا جانشین قرار دیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوگا اور دعوت کا عظیم کام مسلمانوں کے سپرد کردیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے فرمایاہے کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت ’مقرونہ‘ تھی؛ اس کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ، اس کی امت بھی مبعوث ہوچکی ہے کہ آپ ﷺ کی عدم موجودی میں دعوت کا کام آگے چلائے۔

مولانا محمدقاسم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو امت مبعوثہ کے اولین افراد یاد کرتے ہوئے کہا: تمام صحابہ کرام ؓ نے جان کی بازی لگاتے ہوئے دین کی خدمت کی اور اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچادیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ’ا ینقص الدین و انا حی‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اسی ذمہ داری کی جانب اشارہ فرمایا۔

انہوں نے مزید کہا: اصلاح امت کی ذمہ داری ہر فرد آتی ہے۔ سب کو اصلاح امت کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ لوگوں کے عقائد، اخلاق اور اعمال کے حوالے سے ہمیں ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ قرآن پاک نے اسی ذمہ داری کی جانب ہمیں متوجہ کیا ہے۔

بین الاقوامی سہ ماہی رسالہ ’ندائے اسلام‘ کے چیف ایڈیٹر نے کہا: اللہ تعالی نے تمام پیغمبروں خاص کر خاتم النبیین ﷺ کی ذمہ داری کو اس امت کے کاندھے پر رکھ کر مسلم امہ کی تائید فرمائی اور اسے خاص شان عطا کی گئی۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت پر اعتماد فرمایا ہے اور اسے دنیا کی قیادت کی ذمہ داری سونپی ہے۔

انہوں نے مزید کہا: تاریخ میں جب بھی مسلمانوں نے اپنی اس عظیم ذمہ داری سے غفلت کی ہے اور دنیا و مادیت کے پیچھے لگ گئے ہیں، اللہ تعالی نے انہیں خوار و ذلیل فرمایاہے۔

مفتی قاسمی نے امربالمعروف و نہی عن المنکر پر زور دیتے ہوئے کہا: حکیم الامت حضرت مولانا اشرفعلی تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایاہے دعوت کی دو قسمیں ہیں؛ ایک دعوت کا تعلق اپنے گھروالوں اور زیرسرپرست افراد سے ہے جن کو دعوت دے کر چپقلش کا کوئی خطرہ نہیں۔ اس حوالے سے سستی دکھانے کی کوئی وجہ نہیں اور کسی بہانے کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری قسم عام لوگوں سے متعلق ہے کہ اگر وہ ہم سے ناراض ہونے کے باوجود کسی خطرے کے باعث نہیں بن جاتے، پھر بھی ہمیں خیرخواہی سے دعوت کا کام کرنا چاہیے۔

سینئر استاذ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے اپنے بیان کے اس حصے کے آخر میں کہا: امربالمعروف اور نہی عن المنکر سے دوری کرنا اس امت کو زیب نہیں دیتا۔ اس عظیم ذمہ داری سے غفلت کرنا جرم عظیم ہے اور آخرت میں مواخذہ کا باعث ہوگا۔

صدر روحانی چوبیس ملین ایرانیوں کے مطالبات پر توجہ دیں
مولانا قاسمی نے اپنے خطبہ جمعہ کے دوسرے حصے میں صدر روحانی کی تقریب حلف برداری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: امید کی جاتی ہے صدر روحانی جب دوسری بار کے لیے تخت صدارت پر بیٹھتے ہیں، معاشرے سے امتیازی رویوں کا خاتمہ کرکے انصاف اور قرآن و سنت کو نافذ کریں گے اور دنیا کو ایک کامل اور آئیڈیل معاشرے کی مثال پیش کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا: ڈاکٹر روحانی کو کوشش کرنی چاہیے کہ چوبیس ملین ایرانیوں کے مطالبات اور توقعات پر توجہ دیں جنہوں نے ووٹ دے کر انہیں کامیاب کرایا۔ روحانی کے دوبارہ انتخاب میں اہل سنت برادری نے کوئی کسر نہیں چھوڑی؛ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ملکی و غیرملکی حلقے مانتے ہیں۔

صدر دارالافتا دارالعلوم زاہدان نے زور دیتے ہوئے کہا: سنی برادری ایرانی قوم کا لاینفک حصہ ہے اور اس برادری پر بھی خصوصی توجہ ہونی چاہیے۔ سنی برادری کی توقعات حاکمیت اور حکومت سے بے جا نہیں ہیں؛ اہل سنت کی شخصیات اور عام افراد کی خواہش ہے اپنے ملک کی خدمت میں حصہ لیں۔ سنی برادری چاہتی ہے ان کے علما اور شخصیات پر توجہ دی جائے اور یہ پوری طرح انسانی، اسلامی، ایرانی اور معقول توقع ہے۔

انہوں نے مزید کہا: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم سب کا رویہ اور اقدامات تاریخ میں ریکارڈ ہوں گے اور آنے والی نسلیں ہمارے بارے میں فیصلہ کریں گی۔ ہم نہیں چاہتے کہ آئندہ کی نسلیں جب ایرانی تاریخ کے اس موڑ پر پہنچیںانہیں احساس ہو کہ سنی برادری کے ساتھ ظلم ہوا ہے اور شیعہ برادری کی آنے والی نسلوں کو شرمندگی کا احساس ہو کہ ان کے ہم مسلک لوگوں نے ہمارے ساتھ انصاف کا معاملہ نہیں کیا ہے۔

اہل سنت ایران کی ممتاز دینی شخصیت نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: ہمیں حکومت چلانے اور انصاف کی فراہمی اور نفاذ میں دوسروں کے لیے مثالی کردار پیش کرنا چاہیے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب تمام لسانی و مسلکی برادریوں سمیت پوری قوم کا ہر فرد یوں محسوس کرے کہ اس کے ساتھ انصاف ہوا ہے۔ اسی صورت میں ہم دنیاوالوں کے لیے قابل تقلید بن سکتے ہیں اور ہمارے حکام فخر سے سر اٹھاسکتے ہیں۔ معاشرتی انصاف، مضبوط معیشت اور انسانی اقدار کی خیال داری اسی صورت میں ہاتھ آئے گی۔